پاکستان کا بیانیہ جیت گیا!!
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زندگی کا سفر بھی عجیب ہے۔ انسان یہ تو یاد رکھتا ہے کہ اس کا کون سا حق کس نے ادا نہ کیا لیکن یہ بہت آسانی سے فراموش کر دیتا ہے کہ اس نے کس کس کا حق ادا کرنے میں کہاں کہاں کوتاہی برتی۔ اب پاکستان کی سیاست کی ہی مثال لے لیجئے۔ ہم آئے دن سیاستدانوں سے یہ سنتے رہتے ہیں کہ پاکستان نے ان کو کیا نہیں دیا۔ پاکستانی عوام کو ان کی مزید تابعداری کیسے کرنی چاہئے اور بلخصوص پاکستان کی فوج کو ان سے کیسے پرانے وقتوں کا سا تعاون کرنا چاہئے ورنہ قومی رازوں سے پردہ اٹھ جائے گا۔
اگرچہ یہ سرکس صرف پاکستان میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ پوری دنیا میں اور کہیں ہم یہ ہوتا نہیں دیکھتے کہ جس ریاست نے پال پوس کر بڑا کیا ہو، اسی کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا جائے، لیکن یہاں چونکہ انگریز چلا تو گیا لیکن جاتے جاتے ازراہ تفنن اپنا افسر شاہی کا عنصر چند خاندانوں میں چھوڑ گیا، لہٰذا ان میں سے چند خاندانوں نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست میں قدم رنجہ ہو جائیں گے اور باقی ماندہ نے اپنے مفادات کے حصول کی دلفریب شرط پر انکی مکمل حمایت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہماری مالی طور پر کمزور عوام خود کوان بااثر خاندانوں کے شدید زیر اثر یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ"کھاتا ہے تو کھلاتا بھی تو ہے" کا اصول ایک فطری بات ہے اور ایمانداری سے، لالچ طمع سے عاری ہو کر زندگی گزارنا ایک غیرفطری کلیہ۔
کوئی بندہ خدا اس ملک میں یہ بتا کر راضی نہیں کہ اس نے اس ملک کے لئے آج تک کیا کیا۔ ہر شخص حق دینے سے زیادہ "مانگنے" میں مشغول ہے۔ اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہے کہ آخر ہماری قوم کی اکثریت نے آج تک اپنے ملک کے خود پر واجب کتنے حقوق ادا کیے؟ قومی کامیابیوں کا سہرا سجانے تو ہر شخص آن پہنچتا ہے۔ اپنی کارکردگی پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟
چلیے آج ایک سیدھا سادہ تقابلی جائزہ لیتے ہیں کہ کس نے ان سات دہائیوں میں ملک کو کیا دیا۔ ابھی کل ہی پاکستان کے وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستانی عوام کو گزشتہ بیس برس سے ہوئے جانی و مالی نقصان کی ہوش ربا تفصیلات بمع ثبوت پیش کیں۔ پاکستان اب تک بھارت کی ریاستی سرپرستی کے تحت ہونے والی دہشت گردی کے ہاتھوں 32000 سے زائد شہادتیں اور 83000 سے زائد زخمی افراد کو سہارا دے چکا ہے۔ 126 ارب ڈالر کا مالی نقصان اور عوام کو درپیش مالی تنگی اور نفسیاتی ایذا الگ ہے۔ حقائق کے مطابق پاکستان پر اب تک پچھلے بیس برس سے جتنے بھی دہشت گردی کے حملے ہوئے، ان کا تانہ بانہ سیدھا بھارت سے جا کر ملتا رہا۔ خواہ وہ بھارتی فوج کے افسران کی تحریک طالبان سے ملاقاتوں کے سلسلے ہوں یا بھارتی کونسل خانوں سے پاکستان کے خلاف ہونے والی کاروائیاں ہوں۔ پاکستان کی فوج نے بلوچستان میں بھارت کی طرف سے کی گئی اربوں روپے کی ناکام سرمایہ کاری کو بروقت بے نقاب کیا اور رواں مہینے ایک مشکوک سرگرمی کی بروقت روک تھام کی۔ کہنے کو اتنا کچھ ہے کہ شاید میرے قلم کی سیاہی ختم ہو جائے لیکن ہماری قوم کی اس بھارتی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ کر دی گئی قربانیوں اور ہمارے سکیورٹی کے جوانوں کیجرات اور دلیری سے دشمن کو دیے گئے منہ توڑ جواب کا ذکر ختم نہ ہو۔ جبکہ ایسے سیاستدان آٹے میں نمک کے برابر ہیں جنہوں نے اپنی جان و مال سے زیادہ وطن کی پروا کی ہو۔
غرض یہ کہ اس نازک موڑ پر جب ملک کو ہر طرح کے اندرونی و بیرونی خطرات درپیش ہیں، ہر پاکستانی کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے ملک کو ہماری کہاں کہاں ضرورت ہے اور ہم اپنی مٹی کے حقوق کیسے ادا کر سکتے ہیں، نہ کہ ہر صورت مسند اقتدار پر براجمان ہونے کا جھگڑا۔ یہ وقت مل کر ایک قوم بن کر پاکستان کے بیانیے کی عالمی سطح پر ثبوت کے ساتھ دشمن پر واضح برتری حاصل کرنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا ہے۔ یہ وقت اللہ سے مسلسل مدد مانگنے کا ہے کہ ہم بھارت کے مذموم عزائم اور گزشتہ ناقابل معافی کاروائیوں پر عالمی سطح پر کوئی عملی صورت میں قدم اٹھتے ہوئے دیکھیں۔ منزل قریب ہے۔ انشااللہ، ہمیں مل کر اپنے دشمن کو پچھاڑنا ہے۔ سیاست کے لئے تو اک عمر پڑی ہے۔ سیاست دان بھی ہوش کے ناخن لیں۔ اس وقت ملکی مفاد میں یکجا ہو کر چلیں۔ اور قوم بھی بغور دیکھ کر آئندہ ووٹ دینے کا فیصلہ اس بنیاد پر کرے کہ کس نے ملکی مفاد کو مقدم سمجھا اور سیاست کو پس پشت ڈال کر قوم کی خاطر خلوص نیت سے جنگ لڑی اور کون اپنے مفاد کی جنگ لڑتا رہا۔ فیصلہ عوام کا۔ پاکستان زندہ باد!