شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے
"دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور دوسرے نمبر پر" ٹی وی اسکرین پر نیوز اینکر کا جوش سنبھالے نہ سنبھلتا تھا، یوں جیسے کرکٹ ورلڈ کپ میں دوسرا نمبر جیتا ہو۔ اس خبر کے ساتھ ہی نظر ایک اور رپورٹ پر پڑی۔ پاکستان میں شہر ناقابل رہائش ہوتے جا رہے ہیں، ملک میں شہری مراکز بھیڑ، کشش کی کمی اور آلودگی کے جیسے مسائل کے سبب اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ پاکستان نیشنل اربن اسسمنٹ رپورٹ کا جو رواں ہفتے جاری ہوئی۔
اس رپورٹ میں ان نمایاں مسائل کی نشاندہی کی گئی جن کی طرف عوام اور ماہرین کی ایک کثیر تعداد دہائیاں دیتے دیتے تھک گئی۔ مثلاً یہ کہ زیادہ تر بڑے شہروں میں معاشی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے سازگار انفرااسٹرکچر موجود نہیں، مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی اور سیاسی و انتظامی عدم توجہ کے باعث ان سرگرمیوں کے فروغ کی صلاحیت بھی ناکافی ہے۔
شہروں میں جو چند سبز مقامات یعنی گرین بیلٹس بچی تھیں، بے ہنگم شہری پلاننگ اور بے تکی ترجیحات کے ہاتھوں ان کا بھی تیزی سے صفایا ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ گرین بیلٹس کی ضرورت صرف اشرافیہ اور امرا کے علاقوں ہی کو ہے۔ یہی وجہ کہ جو کچھ سبزہ شہری علاقوں میں نظر آتا ہے اشرافیہ کی بستیوں میں دکھائی دیتا ہے۔ مڈل کلاس اور نچلے طبقات کی گنجان آبادیوں میں سبزے کی عیاشی مدت سے سبزے کی مانند خشک ہو چکی، سوکھ چکی۔ گو ہم ڈرنے والے نہیں لیکن پھر بھی اس رپورٹ نے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ بندگان خدا شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ شہری مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ اسی رفتار سے آبادی اور شہری آبادیوں میں اضافہ جاری رہا تو 2030تک ملک کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ شہروں میں مقیم ہوگا۔ شہری انفرااسٹرکچر اور سروسز کی موجودہ خستگی سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تب کیا حالات ہوں گے! چاروں صوبوں اور بڑے شہروں کے درمیان شہری آبادی کے اپنے اپنے مختلف مسائل ہیں۔ تاہم شہروں کا بے ہنگم اور بے ڈھب انداز میں پھیلاؤ ان سب میں قدر مشترک ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑے شہروں کے قرب و جوار میں متبادل شہری مراکز کی تعمیر سے اور دیہی علاقوں میں سماجی و اقتصادی مواقع اور حالات زندگی کو بہتر بنا کر میگا شہروں پر ڈیموگرافک دباؤ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں میگا شہروں کے آس پاس نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو شتر بے مہار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یوں اب ان شہروں کی کوالٹی آف لائف کے ساتھ مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں طبقاتی فرق ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر مراعات یافتہ طبقہ کنٹونمنٹ علاقوں یا نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں رہتا ہے جب کہ کم آمدنی والے افراد کو شہر کے سب سے بڑے ضلع شرقی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ علاقے مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بھی تقسیم کا شکار ہیں۔ اسی تقسیم کی وجہ سے ماضی میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
لاہور بھی مسائل کے انبار میں کراچی سے پیچھے نہیں ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کا جنگل اس شہر کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، شہر بھر میں بیسیوں غیر مربوط ہاؤسنگ اسکیمیں ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں جن میں سے بیشتر غیر قانونی ہیں۔ کسی مائی کے لال میں ان کے پھیلاؤ میں رکاوٹ کی جرآت نہیں۔
پشاور کی داستان اس رپورٹ کے مطابق کچھ یوں ہے، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد پشاور میں آبادی کا دباؤ بڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے میں ان علاقوں سے پشاور کی طرف نقل مکانی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں بیس سال میں آبادی دوگنی ہوگئی ہے۔
اسلام آباد جسے عالم میں ایک نقش بننا تھا اس کے ساتھ بھی وہی سانحہ ہوا۔ اسلام آباد کو کم آبادی والے شہر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن کئی دہائیوں سے مکانات کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سامنے اب یہ شہر مدت ہوئی اپنے اصل منصوبے سے ہٹ گیا۔
رپورٹ کی مرکزی مصنفہ پروفیسر اسپیرو این پولالیس کے مطابق پاکستان ایک نازک دوراہے پر ہے (حالانکہ یہ حقیقت ہمارے ہاں بغیر پی ایچ ڈی ہر عام شہری ایک مدت سے جانتا ہے)۔ موصوفہ کے مطابق بہتر اور منظم اربن پلاننگ اور سہولیات شہروں میں معاشی اور سماجی ترقی کے اہم محرکات ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے چھوٹے بڑے شہر میں ان ناگزیر پبلک سروسز کی پستی، گرتے ہوئے معیار زندگی اور معاشی پیداوار میں کمی جیسے چیلنجز کے ہاتھوں پسپا ہو رہے ہیں۔
اب اس سادہ لوح اور سادہ دل مصنفہ کو کون بتائے کہ یہ معاملات حکومت کی ترجیحات ہیں نہ عوام کی۔ ترجیحات یوں ہوتیں تو پارٹیاں مقامی میونسپل سطح پر منظم ہوتیں، جو تڑپ اور جنون وفاقی اور صوبائی انتخابات کی ہوتی ہے وہ تڑپ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی بھی ہوتی۔ مگر کہاں؟ حکومت ملنے پر ہر سیاسی جماعت کی پوری کوشش ہوتی کہ مرسوں مرسوں مقامی حکومتوں کے الیکشن نہ ڈیسوں۔ اگر کہیں عدالتی فیصلہ مجبوری ہو جائے تو مقامی حکومتوں کے وسائل اور اختیار کے دانت صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کے قوانین بن جاتے ہیں۔ دکھانے کو بتیسی مقامی حکومتوں کی رہتی ہے، تاکہ عدلیہ کا سر پنچی حکم بھی سر ماتھے پر رہے اور پرنالہ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے!
رہے عوام تو ان کا دھیان ٹی وی اور سوشل میڈیا پر شبانہ روز جاری سیاسی کھیل کے انفوٹینمنٹ سے ہٹے تو وہ مقامی حکومتوں کے بارے میں سوچیں۔ وہ اپنے اپنے ممدوح کی دستار بندی اور مخالفین کے ممدوح کی دستار اچھالنے کے کھیل سے اتنا محظوظ ہو لیتے ہیں کہ شہری سہولتوں کے فقدان اور تکلیف دہ کوالٹی آف لائف کا دکھ اب شاید محسوس ہی نہیں ہوتا۔ ایسے میں اس رپورٹ کا کیا کرے کوئی جو فریاد کناں ہے کہ پاکستان کے شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔