سخی سائیں ، بجٹ اور ہم
جون اور سالانہ بجٹ کا موسم پھر سے آن موجود ہے۔ بچپن میں دیہات میں رہتے ہوئے بیرونی دنیا سے واحد رابطہ ریڈیو تھا۔ بجٹ سے قبل خبروں اور جائزہ پروگراموں کو بار بار سن سن کر یہی محسوس ہوتا کہ ضرور کوئی خاص واقعہ ہونے کوہے۔
بجٹ اور معیشت کا فہم ایک طالب علم ہونے کے ناطے نہ ہونے کے برابر تھا مگر پھر بھی والد مرحوم کی معیت میں ریڈیو پر بجٹ تقریرسننے کی عادت سی ہو گئی۔ ہر بجٹ کے آخر میں چند فقرے ہمیشہ ایک سے ہوتے تھے، کچھ یوں، آمدن اور اخراجات میں خسارہ اتنے ارب ہے جسے بیرونی امداد سے پورا کیا جائے گا۔
اس آخری فقرے کو سن کر ہم اس سخی سائیں کی دل ہی دل میں تعریف کرتے جو ہر سال یہ نیک کام کرتا ہے۔ بعد کے سالوں میں جب شعور آیا تو علم ہوا کہ یہ سخی سائیں آئی ایم ایف کہلاتا ہے۔ سخی سائیں کے قبیلے میں ورلڈ بینک اور اس کے علاوہ اور بہت سے ادارے بھی شامل ہیں۔
دنیا کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ اس سخی سائیں کی درگاہ پردنیا بھرکے ممالک مجبوری میں آتے ضرور ہیں لیکن سمجھ دار ملک جلد ہی جھاڑ پھونک کروا اور تعویذ دھاگہ لے کر اپنی اپنی معیشت کی درستی میں جُت جاتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو اس درگاہ کے مستقل مرید بنے رہتے ہیں۔ ایسے مریدوں کا حال کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہم سب کو گزشتہ کئی سال سے ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو اپنے پیش روؤں کی طرح خالی خزانے اور خساروں کے شگاف بھرنے کے لیے چاروناچار دوست ممالک سے امداد کے باوجود آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ راتوں رات معاشی ٹیم تبدیل کرنی پڑی، نئی ٹیم نے دو چار روز کی محنت کے بعد انکشاف کیا کہ معاملات طے پا گئے ہیں۔ امداد مل گئی ہے، شکر ہے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیاہے، ہاں بس ایک دو باتوں کا کشٹ اٹھانا پڑے گا!
وہ ایک دو باتیں کیا تھیں اور ان میں سے مزید کیا کیا باتیں برآمد ہوئیں، ان کے بارے میں نئے وزیر خزانہ نے اپ ڈیٹ دی ہے کہ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھانے اور تنخواہ دار طبقے پر 150 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا کہہ رہا ہے۔
وزیر اعظم نے یہ دونوں شرطیں ماننے سے انکار کردیا ہے اور واضح کیا کہ ٹیکس اور ٹیرف نہیں بڑھا سکتے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں لیکن حکومت نے ایک پوزیشن لی ہے جس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ پاکستان آئی یم ایف پروگرام سے نکلنے نہیں جا رہا، کوئی حل نکل آئے گا لیکن حکومت پُر عزم ہے کہ غریب عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی اور تنخواہ دار طبقے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں ڈالیں گے، آئی ایم ایف کو متبادل پلان پیش کر دیا۔
اس ساری ولولہ انگیز گفتگو میں عقل مندوں کے لیے دو اشارے بہت اہم ہیں ؛ اوّل، غریب پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے، دوم، ریونیو بڑھانے کا متبادل پلان پیش کردیا ہے۔ بجٹ اور بجٹ اقدامات کی ایک سدا بہار خوبی یہی دیکھی کہ یہ غریب عوام اور تنخواہ دار طبقے کی گردان سے شروع ہوتا اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔ مگر عملی طور پر کیفیت سلیم کوثر کے اس شعر کی طرح ہوتی ہے؛
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
پسِ آئینہ میرا عکس ہے سرآئینہ کوئی اور ہے
اس بجٹ میں بھی وہی مجبوریاں اور وعدے شامل ہیں جو سالہا سال سے پیش ہونے والے میزانیوں کا حصہ رہے ہیں۔ اعدادوشمار کی حد تک مختلف مگر روح اور امکانات کے اعتبار سے کم و بیش انھی جیسا ایک بجٹ ہے، وہی شناسا پس منظر اور امکانات۔ معیشت گزشتہ دو تین سال سے انتہائی کم شرح نمو کی دلدل میں رہی، تجارتی خسارے کا جِن قابو کر لیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے حال کر دیتا اگر بیرون ملک سے ترسیلاتِ زر کا سہارا نہ ہوتا۔ برآمدات کا قد کاٹھ بہتر ہوا ہے۔ مہنگائی کا زور کنٹرول میں ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر پہلے سے بہت بہتر ہیں وغیرہ وغیرہ۔
معیشت میں یہ سب اگر اِس قدر ہرا بھرا ہے تو پھر ڈر کاہے کا ہے؟ اس ڈر کی ایک جھلک وزیر خزانہ کی زبانی سنئے، ایف بی آر کی ہراسمنٹ ختم کر دی جائے گی، اس کے بعد بھی کوئی اگر جان بوجھ کر ٹیکس نہیں دے گا تو وہ جیل جائے گا۔ تین چار فیصد ٹیکس دہندگان کا رسک آڈٹ ہوا کرے گا، جو پکڑا جائے گا اسے لٹکا دیا جائے گا!معیشت کے چند بنیادی اور مسقل دردِ سر مسائل میں ایک ٹیکس جی ڈی پی کا انتہائی کم تناسب ہے، بمشکل دس فیصد کے لگ بھگ۔ کئی عشروں سے اسی کا رونا روتے اور سنتے آئے، سو آج بھی سن رہے ہیں۔
برآمدات میں اضافے کے اقدامات کی ایک بار پھر گونج سنائی دے رہی ہے لیکن کسی بڑی تبدیلی کی توقع کیا رکھنی کہ جن نئے سیکٹرز پر توجہ کا ذکر ہے ان کا برآمدی حجم بہت کم ہے، ان میں دو تین سال میں کئی سو گنااضافہ ہو بھی جائے تو بھی کل حجم دو اڑھائی ارب ڈالرز سے بڑھنے کا نہیں۔ رہی ٹیکسٹائلز ایکسپورٹس تو اس میں جتنا اضافی ریونیو کمانا ہے اس سے نصف کاٹن کی درآمد پر خرچ ہوجائے گا۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری ویلیو ایڈڈ اور ہائی ٹیک انڈسٹری میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لے دے کر رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن انڈسٹری پر زور ہے جس کی مدد سے چالیس انڈسٹریز میں انقلاب کا گمان ہے۔
یہ اور ان سے ملتے جلتے اقدامات سب اس قدر شناسا ہیں کہ رٹ سے گئے ہیں۔ دنیا بہت تیزی سے بدل گئی ہے اور بدل رہی ہے۔ ہم اپنی معیشت کو اگر دنیا کے ویلیو ایڈڈ اور ہائی ٹیک تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے، خود پسندی کے خول سے نہیں نکلیں گے تو ہمیں ہر سال سخی سائیں کی ضرورت پڑتی رہے گی، اور ہم ہر بجٹ پر یہی سنتے رہیں گے کہ غریب اور تنخواہ دار طبقے پر " مزید " بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، اور یہ کہ متبادل پلان دے دیا ہے۔