یہ الارم تھا لانگ مارچ نہیں
رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھل گئی، کمرے میں شدید سردی تھی، شاید گیس کے پریشر میں کمی کی وجہ سے ہیٹنگ سسٹم بند ہو گیا تھا، کھڑکی کے باہر کہرا اور دھند تھی، سردی کی شدت سے کتے بھی لان کے کونوں میں دبک گئے تھے، میں نے الماری سے دوسرا کمبل نکالا، دو کمبل جوڑ کر اوپر لے لیے، پھر اچانک بچوں کا خیال آیا، میں بچوں کے کمروں میں گیا، ان کی الماریوں سے بھی کمبل نکالے اور ان کے اوپر بھی کمبل ڈال دیے، میں واپس بیڈ روم میں آیا، گرم جرابیں پہنیں اور دہرے کمبل میں گھس گیا، میں ایک بار پھر نیند کی سرحد پر پہنچ گیا لیکن پھر اچانک خیال آیا اور میں کمبل اتار کر ٹھنڈے کمرے میں پھرنے لگا، مجھ سے دوکلو میٹر کے فاصلے پر اس سرد رات میں ہزاروں لوگ کھلے آسمان کے نیچے پڑے تھے، ان لوگوں میں خواتین بھی تھیں، چھوٹے معصوم بچے بھی، ضعیف مرد بھی اور نوجوان بھی، یہ ہزاروں لوگ ٹھنڈی سڑک پر، بے مہر موسم میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور انھیں کمبل دینے والا بھی کوئی نہیں تھا، میں جوں جوں سوچتا جاتا میری ریڑھ کی ہڈی ٹھنڈی ہوتی چلی گئی، مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی اور میں خود کو اس استعماری، ظالمانہ اور بے حس نظام کا حصہ محسوس کرنے لگا۔
مجھے علامہ طاہر القادری کی شخصیت سے ہزاروں اختلافات ہیں، ہم ان کی کینیڈین شہریت پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں، ہم ان کے بیانات کے تضادات پر بھی تنقید کرتے ہیں لیکن جہاں تک ان کے لانگ مارچ اور دھرنے کا معاملہ ہے علامہ طاہر القادری اس میں ٹھیک بھی ہیں اور کامیاب بھی۔ وقت نے ثابت کر دیا یہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کی سولو فلائٹ تھی، اس کے پیچھے فوج اور عالمی طاقتیں نہیں تھیں، اگر فوج ان کے پیچھے ہوتی تو ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑتیں اور اسٹیبلشمنٹ کی چند دوسری جماعتیں بھی ان کی تحریک کو جوائن کر لیتیں، ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح شروع میں اس غلط فہمی کا شکار تھیں کہ فوج اور عالمی کھلاڑی علامہ کے ساتھ ہیں چنانچہ یہ دونوں جماعتیں والہانہ انداز سے ان کی طرف بڑھیں اور آخری دم تک ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا لیکن لانگ مارچ کے قریب پہنچ کر انھیں اندازہ ہوا ملکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ میں علامہ اکیلے ہیں چنانچہ پاکستان مسلم لیگ ق نے مذاکراتی کوٹ پہن لیا جب کہ ایم کیو ایم دہشت گردی کا بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئی۔
تجزیہ کاروں اور حکومتی دانشوروں نے اس سیاسی تبدیلی پر بغلیں بجانا شروع کر دیں، ان کا خیال تھا علامہ اب لانگ مارچ نہیں کر سکیں گے، پنجاب حکومت بھی ایکٹو ہو گئی، پنجاب بھر کے ڈی سی اوز نے بسیں روک لیں، تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا اور راستے بند کر دیے، وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے خوف کو لانگ مارچ کی رکاوٹ بنا دیا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری لاہور سے نکلے، ان کے ساتھ لوگ بھی چلے، یہ لوگ اسلام آباد بھی پہنچے اور انھوں نے خواتین اور بچوں کے ساتھ شدید سردی میں چار دن دھرنا بھی دیا، پاکستان میں اس سے قبل ایسی مثال نہیں ملتی، ہمیں اس پر علامہ طاہر القادری کو داد دینا ہو گی، علامہ صاحب کے دھرنے کے دوران کسی غیر ملکی اور کسی عالمی تنظیم نے بھی ان کی تحریک کے حق میں بیان نہیں دیا، آپ اس کے مقابلے میں تیونس، مصر، لیبیا اور شام کی تحریکوں کی مثال لے لیجیے، ان ممالک میں جب عوام سڑکوں پر آئے یا انھوں نے دھرنا دیا تو یورپ اور امریکا نے ان دھرنوں کو سراہنا شروع کر دیا، حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں نے بھی ان کے حق میں بیانات جاری کیے، یہ ستائش اور ان بیانات نے ثابت کیا ان چاروں ممالک میں ہونے والی " اپ رائزنگ" کو امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل تھی لیکن علامہ کے معاملے میں یورپی ممالک بھی خاموش رہے اور عالمی تنظیمیں بھی۔ یہ خاموشی ثابت کرتی ہے علامہ کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، ہم اب آتے ہیں علامہ کے مطالبات کی طرف۔ علامہ طاہر القادری کے مطالبات غلط نہیں ہیں، یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے مطالبات ہیں، میاں نواز شریف بھی چار پانچ سال سے یہی مطالبات کر رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کا موٹو بھی یہی ہے، ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق بھی یہی مانگ رہی تھی اور پاکستانی عوام بھی یہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں پاکستان کے موجودہ الیکشن سسٹم سے صرف کرپٹ، طاقتور، ان پڑھ اور قبضہ گروپ پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں، کیا یہ درست نہیں انتخابات کے دوران صرف وہ امیدوار سامنے آتے ہیں جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے اور جب ان کی اہلیت پر اعتراض کیا جاتا ہے تو اسمبلیوں کی مدت ختم ہو جاتی ہے لیکن ان کے خلاف فیصلہ نہیں ہوتا، حالت یہ ہے الیکشن کمیشن آج تک ان امیدواروں کے بارے میں فیصلے نہیں دے سکا جو 2002ء میں منتخب ہوئے تھے، وہ اسمبلیاں 2007ء میں مدت پوری کر کے ختم ہو گئیں، جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا، کیا یہ درست نہیں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت دو بڑی سیاسی جماعتوں کا مک مکا ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ فیصلہ کرے گی نگران وزیراعظم کون ہو گا اور الیکشن کمیشن کے چار ارکان کا فیصلہ بھی انھوں نے کیا اور کیا یہ درست نہیں حکومت اپنی رٹ کھو چکی ہے، کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کو انصاف کے لیے 86 نعشیں سڑک پر رکھ کر چار دن تک دھرنا دینا پڑتا ہے اور باڑہ میں مارے جانے والے 19 لوگوں کے لواحقین نعشیں لے کر گورنر ہائوس کے سامنے پہنچ جاتے ہیں اور انھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس اور ایف سی ہوائی فائرنگ بھی کرتی ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی، ملک میں بجلی، گیس، پٹرول، روزگار، امن، تحفظ اور انصاف دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں مگر حکومت بے حسی کا کمبل لپیٹ کر مزے سے سو رہی ہے چنانچہ علامہ طاہر القادری کی کون سی بات غلط تھی۔
یہ درست ہے علامہ طاہرالقادری کا ماضی ٹھیک نہیں، یہ ماضی میں سیاسی غلطیاں کرتے رہے اور یہ کینیڈین نیشنل بھی ہیں لیکن کیا ہم ان کی غلطیوں کی وجہ سے ان کے ٹھیک موقف کو بھی رد کر دیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ان کا لانگ مارچ اور دھرنا دونوں پرامن تھے اور ان کی بات پورے ملک نے چار چار گھنٹے سنی، میں خود دوبار ان کے دھرنے میں گیا، میں نے لوگوں سے گفتگو بھی کی اور مجھے ماننا پڑا دھرنے میں علامہ کے مریدوں اور طالب علموں کے علاوہ وہ عام لوگ بھی شامل تھے جنھیں ان کے دکھ اس جلسہ گاہ تک لے آئے، یہ عام لوگ بھی علامہ کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے، یہ لوگ اور ان کے نعرے ثابت کرتے ہیں لوگ موجودہ نظام سے مایوس ہو چکے ہیں اور ہم نے اگر اس نظام کو ٹھیک نہ کیا تو اس قسم کے لانگ مارچ ہوتے رہیں گے اور ہر آنے والا لانگ مارچ پہلے سے زیادہ بے لچک، ضدی اور شدت پسند لوگوں کو سامنے لائے گا، آپ تصور کیجیے کل اگر ایسے لوگ باہر آ گئے جو شناختی کارڈ چیک کر کے گولی مارنا عین عبادت سمجھتے ہیں تو ملک کی کیا صورتحال ہو گی، ہم اس لانگ مارچ سے اس خطرے کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، مجھے خدشہ ہے اگر وہ لوگ آئے تو عوام ان کے ساتھ بھی شامل ہو جائیں گے اور وہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کی طرح پرامن نہیں ہو گا۔
یہ لانگ مارچ کتنا کامیاب تھا اس کے لیے میں ذاتی زندگی سے دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات خود کمبل چھوڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو مجرم سمجھنے لگا، مجھے اس ایک لمحے نے لانگ مارچ میں شامل ہر بچے اور ہر خاتون کا مجرم بنا دیا، میں بزدل شخص ہوں، اگر میں تھوڑا سا بہادر ہوتا تو میں اپنے دونوں کمبل لے کر اسی وقت دھرنے میں شامل ہو جاتا کیونکہ میں نے اس وقت اندازہ لگایا یہ علامہ طاہر القادری کا دھرنا نہیں یہ پاکستان کے ہر شہری کا دھرنا تھا اور ہر شہری کو اس دھرنے میں شریک ہونا چاہیے تھا، دوسری مثال میری بوڑھی والدہ اور والد ہیں، یہ دونوں پانچ دن تک ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہے، یہ دونوں بار بار دھرنے میں شریک ہونے کی ضد کرتے تھے اور میرے خاندان نے دروازے پر تالا لگا کر انھیں روکا۔ یہ دونوں عام اور ان پڑھ لوگ ہیں، یہ علامہ طاہر القادری سے واقف نہیں ہیں، انھوں نے کبھی علامہ صاحب کی کوئی کتاب پڑھی اور نہ ہی ان کی تقریر سنی، انھیں علامہ صاحب کے بلٹ پروف کیبن پر بھی اعتراض تھا اور یہ ان کے بیانات کے تضادات پر بھی پریشان ہوتے تھے لیکن جب انھیں دھرنے میں شامل خواتین اور بچے نظر آتے تھے تو یہ بے تاب ہو جاتے۔
یہ لوگوں کے تاثرات کو سچا اور ان کے مسائل کو حقیقی سمجھتے تھے اور یہ علامہ طاہر القادری کے ایجنڈے سے بھی اتفاق کرتے تھے، یہ دونوں مثالیں ثابت کرتی ہیں ہمارے باہر کا موسم بدل چکا ہے اور ہم اندر بیٹھے لوگوں نے اگر اس موسم کی شدت کو محسوس نہ کیا، ہم نے اگر مسائل کا حل تلاش نہ کیا تو کوئٹہ سے لے کر اسلام آباد تک لوگ نعشیں سڑکوں پر رکھ کر بیٹھے ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک نعش کا وارث اٹھ کر کفن کو جھنڈا بنا لے گا اور اس پورے ملک میں ہمیں اس شخص کو روکنے والا نہیں ملے گا، علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اس صورتحال کا الارم تھا، ہمیں اس الارم پر آنکھ ضرور کھول لینی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ہم دو، دو کمبلوں والے لوگ آنکھ کھولنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ نہیں تھا، یہ عام پاکستانی کا لانگ مارچ تھا اور یہ عام پاکستانی اگلے لانگ مارچ میں اپنے سارے بچے لے کر باہر آ جائے گا اور اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک انھیں محروم رکھنے والے لوگ دنیا سے رخصت نہیں ہو جاتے۔