1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Wo Khatrat Kya Hain

Wo Khatrat Kya Hain

وہ خطرات کیا ہیں

چوہدری نثار نے دو بار انکشاف کیا، قوم دونوں بار پریشان ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سابق وزیر داخلہ نے پہلی بار 27جولائی کی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا "ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں، اس حقیقت سے صرف چار لوگ واقف ہیں، دو فوجی ہیں اور دو سویلین" چوہدری نثار کے اس انکشاف نے سراسیمگی پھیلا دی، ایوانوں میں سرگوشیاں گونجنے لگیں۔

چوہدری نثار نے بعد ازاں 8 ستمبرکو نامور صحافی سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید وضاحت کی"فوج کے سینئر ترین افسر جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی تھے" میرا گمان ہے جنرل راحیل شریف کے ساتھ جنرل رضوان اختر تھے اور ان دونوں نے ناقابل تردید ثبوتوں کے ذریعے بتایا، ملک کو خوفناک خطرات لاحق ہیں تاہم چوہدری صاحب نے ان خطرات کی تفصیل نہیں بتائی، چوہدری صاحب کے انکشاف کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔

بڑے بڑے دعوے بھی ہوئے لیکن یہ تمام دعوے غلط ثابت ہوئے، میں بھی آج دعوؤں کے اس ریلے میں بہنے لگا ہوں مگر میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ میرا دعویٰ درست ہے کیونکہ حتمی اطلاعات واقعی جنرل راحیل شریف، جنرل رضوان اختر، میاں نواز شریف اور چوہدری نثار کے پاس ہیں یا پھر اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود حقائق سے آگاہ ہیں، میں صرف حقائق اور تبدیل ہوتی سفارتی اور جغرافیائی صورت حال سے چند اندازے لگا رہا ہوں، میری دعا ہے میرے یہ اندازے باطل ثابت ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو اسی طرح اپنی حفظ و امان میں رکھے، یہ توانا بھی ہو اور اس پر مزید پھل اور پھول بھی لگیں۔

میں اب اندازوں کی طرف آتا ہوں، ہم پہلے یہ ڈسکس کریں گے ہمارے ملک کو خطرہ کس سے لاحق ہے، دنیا میں صرف ایک ہی ملک ہے جس سے پاکستان کو اس وقت خطرات ہو سکتے ہیں اور وہ ملک ہے امریکا، بھارت ہمارا ستر سال پرانا دشمن ہے، ہم اس سے خائف ہیں اور نہ ہی خائف ہوں گے، یہ ہمیں ایک خاص حد سے زیادہ نقصان پہنچا سکا اور نہ پہنچا سکے گا، افغانستان بہت چھوٹا اور کمزورملک ہے، یہ بھی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا، ایران ہمارے ساتھ لڑنے کی غلطی نہیں کرے گا، یہ جانتا ہے یہ کسی اسلامی ملک کے ساتھ لڑ کر خود کو کمزور کر لے گا اور یہ کمزوری بالآخر اسے نقصان پہنچائے گی۔

ایران یہ بھی جانتا ہے امریکا کے چار ٹارگٹ ہیں، ترکی، ایران، پاکستان اور سعودی عرب اور ہم اگر پاکستان کے ساتھ الجھ پڑتے ہیں تو پاکستان اور ایران دونوں کو نقصان ہوگا، دشمن کا ٹارگٹ آسان ہو جائے گا، چین اور روس کے ساتھ ہمارے تعلقات اس وقت آئیڈیل ہیں جب کہ یورپ کو ہمارے ساتھ کوئی ایشو نہیں لہٰذا پیچھے صرف امریکا بچتا ہے اور یہ حقیقت ہے امریکا پاکستان کے ساتھ خوش نہیں ہے، امریکا کی ناخوشی کی تین وجوہات ہیں، پہلی وجہ افغانستان میں امریکی ناکامی ہے۔

امریکا افغان جنگ پر ڈیڑھ ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے لیکن یہ اس کے باوجود افغانستان کو پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکا، امریکا اور افغانستان دونوں اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پاکستان افغانستان کے امن کی راہ میں رکاوٹ ہے، پاکستان حقانی نیٹ ورک جیسے دہشتگردوں کی مدد کر رہا ہے اور حقانی برادران افغانستان میں امن قائم نہیں ہونے دے رہے، امریکا بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے، امریکا اور بھارت کا خیال ہے پاکستان ہمارے اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے نیٹ ورک پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ ایک اشارہ کرتے ہیں اور اجمل قصاب جیسے لوگ بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں چنانچہ جب تک مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید زندہ ہیں یا ان کا نیٹ ورک موجود ہے بھارت اس وقت تک چین کے برابر قوت نہیں بن سکے گا اور یہ دونوں شخصیات پاکستان کے ہاتھ میں ہیں اور تین پاکستان ستر برس تک امریکا کا دست نگر رہا، امریکا ہمیں فوجی، معاشی اور سفارتی مدد دیتا تھا تو ہم سانس لیتے تھے، پاکستان نے ستر برس بعد اچانک امریکی غلبے سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔

ہم نے امریکا سے مدد مانگنا بھی بند کر دی اور چین کو گوادر تک راہداری بھی دے دی، امریکا کو یہ سودا منظور نہیں، امریکا کا خیال ہے پاکستان چین کے ساتھ مل کر سینٹرل ایشیا تک دنیا کے 20 فیصد وسائل اور آبادی کا نیا بلاک بنا لے گا اور یوں امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچے گا چنانچہ امریکا پاکستان کو ہر صورت روکنا اور اپنے قدموں میں جھکانا چاہتا ہے، امریکا نے ان تینوں وجوہات کی بنا پر پہلے واشنگٹن میں ہمارے سفیر کو بلایا اور قطعی لہجے میں حکم دیا آپ حقانی نیٹ ورک، جیش محمد اور لشکر طیبہ کی سپورٹ فوری طور پر بند کر دیں۔

ہمارے سفیر نے حقانی نیٹ ورک کے وجود سے انکار کر دیا جب کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے بارے میں ہمارے سفیر کا کہنا تھا "یہ دونوں جماعتیں کالعدم ہو چکی ہیں، پاکستان میں ان پر پابندی ہے، ملک میں ان کا کوئی دفتر، کوئی سینٹر اور کوئی اکاؤنٹ موجود نہیں، بھارت نے آج تک حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے خلاف کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا لیکن ہم نے اس کے باوجود دونوں کو حفاظتی تحویل میں لے رکھا ہے، آپ اور انڈیا ثبوت دیں ہم ان کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے"۔

امریکی حکام نے یہ جواب سن کر کہا "ہم آپ سے یہ جواب نہیں سننا چاہتے، ہمیں صرف اور صرف ایکشن چاہیے، آپ یہ سلسلہ فی الفور بند کر دیں ورنہ دوسری صورت میں ہم سے گلہ نہ کیجیے گا" امریکا کی یہ دھمکی کلیئر تھی، دھمکی کے بعد دو اہم واقعات پیش آئے، میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان تعلقات خرابی کی انتہا تک پہنچ گئے، فوج کا خیال تھا میاں نواز شریف امریکی اور انڈین پالیسی کے حامی ہیں، یہ پاکستان کی بھارت اور افغان پالیسی کو امریکی خواہشات کے تابع بنانا چاہتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف کا خیال تھا ہم خطرے میں ہیں، ہم نے اگر بھارت اور افغانستان میں اپنی پالیسی تبدیل نہ کی۔

ہم نے اگر لشکر طیبہ اور جیش محمد کے ساتھ امریکا کی خواہش کے مطابق سلوک نہ کیا تو ہم پر پابندی لگ جائے گی، بھارت بھی ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دے گا، فوج اور حکومت کے درمیان خیالات کا یہ فرق اختلاف بنا اور آج میاں نواز شریف سابق وزیراعظم بن کر لندن میں بیٹھے ہیں، دوسرا واقعہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پالیسی بیان تھا، صدر ٹرمپ نے 22 اگست کو تقریر کی اور وہ دھمکی جو امریکی حکام نے بند کمرے میں ہمارے سفیر کو دی تھی صدر نے اسے پالیسی بنا دیا۔

صدر ٹرمپ نے افغانستان میں 3900 نئے فوجی بھجوانے کا اعلان بھی کر دیا اور یہ 3900 امریکی فوجی اور صدر ٹرمپ کا پالیسی بیان وہ خطرہ ہیں جن کا ذکر جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر نے میاں نواز شریف اور چوہدری نثار کے سامنے کیا تھا، امریکا پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہو چکا ہے۔

ہم اب امریکا کے ممکنہ ایکشن کی طرف آتے ہیں، صدر ٹرمپ افغانستان میں جو 3900 فوجی بھجوا رہے ہیں، یہ عام فوجی جوان نہیں ہیں، یہ امریکا کی خصوصی فوج کے ٹرینڈ دستے ہیں، یہ دستے افغانستان کے لیے نہیں آ رہے، یہ افغانستان میں پاکستان کے لیے آ رہے ہیں اور یہ پاک افغان بارڈر پر تعینات ہوں گے، دوسرا میرا خیال ہے (اللہ تعالیٰ یہ خیال غلط ثابت کرے) امریکا پہلی مرتبہ پاکستان کے شہری علاقوں بالخصوص پنجاب میں ڈرون حملے کرے گا، ایک حملہ راولپنڈی میں کیا جائے گا۔

امریکا اور بھارت کا خیال ہے حقانی نیٹ ورک راولپنڈی میں بیٹھا ہوا ہے، یہ راولپنڈی کے ایک علاقے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، یہ نشاندہی غلط ہے، افغانستان اور پاکستان میں اگر حقانی نیٹ ورک موجود ہے تو یہ کسی شہر میں نہیں ہے، یہ پاک افغان سرحد پر ہو سکتا ہے لیکن امریکا کا اصرار ہے یہ لوگ راولپنڈی کے پشاور روڈ کے آس پاس ہیں، امریکا کی اس غلط فہمی اور ضد کا نتیجہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بھگتنا پڑے گا، امریکا لاہور میں حافظ سعید کی مسجد اورمرکز کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔

جنوری 2011ء میں ریمنڈ ڈیوس بھی مسجد قادسیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے موبائل فون اور کیمرے سے مزنگ کے ان راستوں اور ان تمام چیک پوسٹوں کی تصاویر نکلیں تھیں جو مسجد قادسیہ اور حافظ سعید کی رہائش گاہ اور مرکز کے راستے میں تھیں اور امریکا بہاولپور میں مولانا مسعود اظہر کی رہائش گاہ، مسجد اور سینٹر کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا، یہ حقیقت ہے مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید ان مقامات پر نہیں ہیں، یہ سمجھدار لوگ ہیں، یہ اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے رہتے ہیں چنانچہ یہاں بھی امریکی ضد کی وجہ سے بے گناہ لوگ نشانہ بن جائیں گے۔

امریکا اگر یہ زیادتی کرتا ہے تو ہمارے دو ردعمل ہو سکتے ہیں، پہلا ردعمل، ہم امریکا کا مقابلہ کریں، یہ مقابلہ پاکستان، امریکا اور بھارت کے درمیان جنگ چھیڑ دے گا اور یہ جنگ کسی بھی لمحے ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی، دوسرا ردعمل، ہم سانحہ ایبٹ آباد کی طرخ خاموش رہیں لیکن یہ خاموشی بھی ہمارے لیے خطرناک ثابت ہوگی، یہ "سرجیکل اسٹرائیکس" کا راستہ کھول دے گی۔

ہم پر افغانستان اور بھارت دونوں طرف سے چھاپہ مار کارروائیاں شروع ہو جائیں گی اور ان کارروائیوں کو امریکی ڈرون فضا سے کور دیں گے چنانچہ یہ خاموشی بھی ہمارے لیے مہلک ثابت ہوگی، امریکا اس دوران ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کی کوشش بھی کرے گا، امریکا کے نئے 3900 فوجی اس کارروائی کے ماہر ہیں لہٰذا ہمیں چوہدری نثار کی بات پر توجہ دینا ہوگی، ہم واقعی خطرے میں ہیں، باقی جو اللہ کرے اور اللہ کبھی غلط نہیں کرتا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz