علماء کرام آگے آئیں
رمشا اسلام آباد کی ایک مسیحی بچی ہے، یہ اپنے خاندان کے ساتھ جی الیون سیکٹر کی کچی آبادی میں رہتی تھی، رمشا کے خاندان کے لوگ سینیٹری ورکرز ہیں، یہ لوگوں کے گھروں میں صفائی کرتے ہیں۔
16 اگست کوملک حماد نام کا ایک شخص راکھ لے کر علاقے کی مسجد جامعہ امینیہ آیا اور امام خالد جدون کو راکھ دکھا کر دعویٰ کیا کہ رمشا نے قرآنی آیات جلائی ہیں اور یہ ان آیات کی راکھ ہے، امام نے محلے کے لوگوں کو بتایا، محلے میں شور ہو گیا، لوگ جمع ہوئے اور انھوں نے رمشا اور اس کے خاندان کا گھیرائو کر لیا، پولیس آئی اور رمشا کو گرفتار کرکے لے گئی، رمشا پر مقدمہ بن گیا، یہ واقعہ اگلے دن اخبارات میں شایع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی شکل اختیار کر گیا۔
تحقیقات ابھی جاری تھیں کہ یکم ستمبر کو مدرسے کے نائب مہتمم حافظ زبیر چشتی نے انکشاف کیا، امام مسجد خالد جدون نے ایشو کو بڑھانے کے لیے راکھ میں قرآنی اوراق خود شامل کیے تھے، حافظ زبیر کے بقول امام صاحب کا خیال تھا اس سے کیس مضبوط ہو جائے گا۔ حافظ زبیر نے انکشاف کیا خالد جدون جب یہ حرکت کر رہے تھے تو اعتکاف میں بیٹھے دو افراد نے انھیں سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن امام صاحب نہ مانے، حافظ زبیر کے اعترافی بیان کے بعد یکم ستمبر کو رات 11 بجے امام مسجد خالد جدون کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس دوران چھ امریکی سینیٹروں نے صدر زرداری کو رمشا کی رہائی کے لیے خط بھی لکھ دیا، رمشا بے گناہ ثابت ہو گئی جس کے بعداسے رہا کر دیا گیا اور9 ستمبر کو اسے وزیراعظم کے مشیر برائے اقلیتی امور پال بھٹی کی رہائش گاہ منتقل کر دیا گیا۔ 10 ستمبر کو سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں انکشاف ہوا رمشا مسیح کیس میں اسلام آباد پولیس نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلد بازی میں توہین رسالت کی ایف آئی آر درج کر دی اورایف آئی آر درج کرنے سے قبل سیشن جج تک سے اجازت نہیں لی گئی جس کے بعد یہ کیس بظاہر ختم ہو گیا لیکن یہ پوری دنیا میں پاکستان کی بے عزتی کا باعث بن گیا۔
رمشا کیس جیسے واقعات ملک کے اندرشدت بھی بڑھا رہے ہیں اور پاکستان کا بین الاقوامی امیج بھی خراب کر رہے ہیں، یہ درست ہے ہمارے ملک کے بعض اقلیتی شہری ہماری مذہب سے وابستگی اور عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ لوگ بعض اوقات جان بوجھ کر ایسے کلمات بول دیتے ہیں جس سے مسلمان شہریوں کی دل آزاری ہو، اس کے بعد لوگ جمع ہو جاتے ہیں، اس شخص کے خلاف مقدمہ درج ہوجاتا ہے، یہ جیل چلا جاتا ہے، عالمی میڈیا اس خبر کو اچھالتا ہے اور اس شخص کوبعد ازاں خاندان سمیت کسی یورپی ملک میں سیاسی پناہ مل جاتی ہے۔
یہ لوگ مغربی ممالک کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے بھی بعض اوقات قرآنی اوراق، احادیث کی کتب اور مشہور اسلامی کتابوں کی بے حرمتی کر دیتے ہیں اور یہ واقعہ پورے ملک کو جذباتی کر دیتا ہے، ہم مرنے اور مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے ہم بھی غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ہماری طرف سے بھی کوتاہی ہو رہی ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں چنانچہ قرآن مجید، احادیث اور اسلامی کتب کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے، رمشا جیسے غیر مسلموں کی نہیں، پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہو چکی ہے، ہمارے ملک میں 8 کروڑ گھر ہیں، ہر گھر میں قرآن مجید، احادیث کی کتب اور اسلامی کتابیں موجود ہیں۔
ہم میں سے نوے فیصد لوگ ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور یہ کتابیں اپنی طبعی عمر پوری کر کے بوسیدہ بھی ہوتی ہیں، یہ پھٹ بھی جاتی ہیں اور یہ خراب بھی ہوتی ہیں لیکن ہم نے آج تک ان کتابوں اور ان اوراق کو ڈس پوز آف کرنے کا کوئی جدید طریقہ وضع نہیں کیا، ماضی میں مقدس اوراق کو پاک پانی میں بہا دیا جاتا تھا یا پھر کسی صاف جگہ پر دفن کر دیا جاتا تھا لیکن آج ملک کے زیادہ تر شہروں کا پانی گندہ ہو چکا ہے، ہم لوگوں نے ندیوں، نالوں، نہروں اور دریائوں میں سیوریج ڈال دیا ہے، کراچی کے سمندر تک میں سیوریج کا پانی شامل ہے چنانچہ ملک کے کسی شہر کے قریب ایسا صاف پانی دستیاب نہیں جس میں قرآن مجید کے اوراق بہائے جا سکیں۔
دوسرا، پانی کی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ شہر، قصبے اور دیہات آباد ہو چکے ہیں، فرض کیجیے ہم میں سے اگر کوئی شخص قرآنی اوراق پانی میں بہا بھی دے تو یہ اوراق چند میل بعد کسی نہ کسی گائوں، قصبے یا شہر کے قریب پہنچ کر کنارے سے لگ جائیں گے یا پھر جھاڑیوں میں الجھ جائیں گے اور ہم جب جھاڑیوں یا کناروں سے یہ اوراق جمع کریں گے توکیا اس سے ہمارے جذبات کو مزید ٹھیس نہیں پہنچے گی؟ ملک میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ کسی گائوں، قصبے یا شہر کے قریب ندی، نالے، نہر یا دریا کے کنارے سے مقدس اوراق ملے، لوگ جمع ہوئے اور انھوں نے صرف شک کی بنیاد پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
ماضی میں مقدس اوراق کو صاف جگہوں پر دفن بھی کر دیا جاتا تھا، اس کے لیے عموماً قبرستان کا انتخاب کیا جاتا تھا لیکن اب آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے شہروں، قصبوں اور دیہات میں صاف جگہیں کم رہ گئی ہیں، شہروں کے مضافات عموماً کچرے کے ڈپو یا پھر ڈمپنگ سائیٹس بن چکی ہیں یا پھر وہاں سیوریج کے پانی کے جوہڑ بنے ہیں، قبرستانوں کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں، قبرستانوں میں جنگلی جانور پھرتے رہتے ہیں اور ان سے مردے تک محفوظ نہیں ہیں لہٰذا آپ اگر قبرستان میں مقدس اوراق دفن کرتے ہیں تو بعض اوقات جانور انھیں کھود کر نکال لیتے ہیں اور یوں ان کی بے حرمتی ہوتی ہے، عام لوگوں کی زندگی بھی مصروف ہو چکی ہے۔
یہ بھی قرآنی اوراق اور احادیث کو صاف پانی میں بہانے یا صاف جگہ دفن کرنے کا تردد نہیں کرتے، ہم معاشرے سے بھی ڈرتے ہیں، ہمارا خیال ہے اگر کسی نے ہمیں قرآنی اوراق پانی میں بہاتے یا قبرستان میں دفن کرتے دیکھ لیا تو وہ ہم پر کفر یا توہین کا فتویٰ نہ لگا دے چنانچہ زیادہ تر لوگ اس تکلیف سے بچنے کے لیے پرانی اسلامی کتب ردی میں بیچ دیتے ہیں یا پھر رمشا مسیح جیسی بچیوں کے حوالے کر دیتے ہیں، رمشا جیسی بچیاں یہ اوراق ردی ڈپو یا کباڑیئے کے گودام میں بیچ دیتی ہیں یا پھر کسی ویران جگہ میں جلا دیتی ہیں، ہم میں سے اگر کوئی مسلمان انھیں یہ اوراق جلاتے ہوئے دیکھ لے یا پھر ہمیں یہ کباڑیئے کے گودام میں نظر آ جائیں تو ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور یوں رمشا کیس جیسے واقعات سامنے آ جاتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور میں اس ملک کے ہر مسلمان کو اس بے حرمتی کا ذمے دار سمجھتا ہوں، قرآن مجید، احادیث کی کتب اور اسلامی کتابیں ہمارے لیے معتبر ہیں چنانچہ ان کے تقدس کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمے داری ہے، ہمارے علماء کرام کو وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کرنا چاہیے، قرآنی اوراق کو صاف پانی میں بہانے کا آپشن اب تقریباً ختم ہو چکا ہے، قبرستانوں میں بھی مقدس اوراق کی بے حرمتی کا احتمال ہے چنانچہ علماء کرام کو اس کا کوئی جدید حل نکالنا ہو گا، میرے ذہن میں اس کے دو تین حل آتے ہیں لیکن فیصلہ بہرحال علماء کرام نے کرنا ہے، ہم شہروں، قصبوں اور دیہات میں مقدس اوراق کی تدفین کے لیے جگہ مخصوص کر سکتے ہیں۔
یہ جگہ قبرستان کا کوئی خاص کونا بھی ہو سکتی ہے، علماء کرام جگہ تجویز کرنے کے بعد اس کی باقاعدہ حد بندی کر دیں، اس حد پر بورڈ لگا دیا جائے اور تمام مساجد میں ہر جمعہ کو اس جگہ کے بارے میں باقاعدہ اعلان کیا جائے، مساجد کے صحنوں میں بھی مقدس اوراق کی تدفین کی جگہ بنائی جا سکتی ہے، آج کل ایسی مشینیں بھی آ گئی ہیں جو کاغذ کو باریک ذروں میں تبدیل کر دیتی ہیں، اگر علماء کرام اور مفتی حضرات اتفاق کریں کہ اگر کاغذ اس قدر باریک ذروں میں تقسیم ہو جائے کہ کوئی لفظ پڑھا نہ جا سکے اور کاغذ کے ان ذروں کو بعد ازاں برنر میں جلا دیا جائے تو یہ توہین نہیں ہو گی تو مقدس اوراق کو " ڈس پوز آف" کرنے کے لیے مساجد میں بھی یہ مشینیں لگائی جا سکتی ہیں۔
مخیر حضرات یہ مشینیں مساجد میں لگوا دیں، لوگ اوراق لائیں اور امام مسجد یا مسجد کمیٹی کی موجودگی میں ان اوراق کو "ڈس پوز آف" کر دیں اور ہم اس ضمن میں سعودی حکومت اور سعودی علماء کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ قرآن مجید سعودی عرب میں شایع ہوتے ہیں، اشاعت کے دوران اکثر اوقات اوراق خراب ہو جاتے ہیں، سیاہی پھیل جاتی ہے، پرنٹنگ کوالٹی ٹھیک نہیں ہوتی یا کٹائی یا جلد سازی کے دوران آیات کٹ جاتی ہیں توبعض اوقات وہ نسخہ "ڈس پوز آف" کرنا پڑجاتا ہے، سعودی عرب نے علماء کرام اور مفتی حضرات کی مدد سے اس کا باقاعدہ ایک سسٹم بنا رکھا ہے، ہمارے علماء اگر مناسب سمجھیں تو یہ بھی پاکستان میں یہ سسٹم لگا سکتے ہیں، ہم ہر شہر، ہر قصبے کی میونسپل کمیٹی میں یہ سسٹم لگوا دیں۔
ہفتے کا کوئی ایک دن مخصوص کر لیں، اس دن علماء کرام وہاں موجود ہوں اور لوگ ان کی نگرانی میں مقدس اوراق کو "ڈس پوز آف" کر دیں، ہمارے اخبارات، رسائل اور جرائد میں بھی آیات اور احادیث چھپتی ہیں، ہم روزانہ مقدس ہستیوں کے نام بھی شایع کرتے ہیں، ہم اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے اخبارات اور رسائل کو آیات اور احادیث کی اشاعت سے نہیں روک سکتے کیونکہ ہم کچھ بھی کر لیں ہمارے مضمون نگار، کالم نگار اور رپورٹر احادیث اور آیات کا حوالہ ضرور دیں گے، پاکستان میں جمعہ، رمضان، محرم، عید معراج النبی اور مقدس ہستیوں سے منسوب دنوں میں مذہبی نوعیت کے مضامین بھی شایع ہوں گے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے یہ اخبارات بھی دوسرے اخبارات کے ساتھ ردی میں فروخت ہوتے ہیں اور وہاں ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، ہم لوگ اخبارات اور رسائل کے یہ اوراق بھی اس ذریعے سے ڈس پوز آف کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے علماء کرام اور مفتی حضرات کو آگے آنا ہو گا، ہم لوگ انجانے میں گنہگار بھی ہو رہے ہیں اور ہماری غفلت کی وجہ سے رمشا جیسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں جس سے معاشرے میں شدت بھی آ رہی ہے اور ہم عالمی سطح پر بدنام بھی ہو رہے ہیں چنانچہ علماء کرام اپنا کردار ادا کریں، یہ مقدس اوراق کی تدفین یا "ڈس پوز آف" کا کوئی سسٹم بنائیں ورنہ ہم اسی طرح لڑتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے۔