طیب اردگان جیسے لیڈر چاہئیں
سلطان احمد استنبول کا قدیم علاقہ ہے، استنبول کی نیلی مسجد، آیا صوفیہ، عثمانی سلطانوں کا محل توپ کاپی اور قسطنطنیہ کا زیر زمین آبی چرچ اسی علاقے میں ہیں، دنیا بھر سے ہر مہینے دس سے چودہ لاکھ سیاح استنبول آتے ہیں اور سلطان احمد ان کا پہلا پڑائو ہوتا ہے چنانچہ سلطان احمد کے علاقے میں سیکڑوں ہوٹل اور ریستوران ہیں، اس علاقے کی ہر دوسری عمارت ہوٹل اور پہلی عمارت ریستوران ہے۔ بلیو ماسک ترکوں نے 1616 میں بنوائی تھی اور یہ استنبول کی اسلامی پہچان ہے۔
آیا صوفیہ عیسائی پادریوں نے 537 میں بنایا تھا، یہ استنبول کی فتح کے بعد مسجد میں تبدیل ہو گیا، اتاترک نے اسے عجائب گھر بنا دیا اور یہ اب سیاحوں کی زیارت گاہ بن چکا ہے، آیا صوفیہ کی چھتوں پر حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت مریم ؑ اور انجیل مقدس کے ابواب کے تصویری نقش بھی کندہ ہیں اور اﷲ اور رسولؐ کے نام بھی۔ توپ کاپی عثمانی سلطانوں کا محل تھا، یہ محل آیا صوفیہ کے پہلو میں باسفورس کے کنارے پر بنایا گیا اور یہ 1856 تک عثمانی سلطانوں کا مسکن رہا، اس کا شاہی ٹیرس باسفورس کی طرف کھلتا ہے، آپ اس ٹیرس پر کھڑے ہو کر باسفورس اور استنبول کے ایشیائی ساحلوں کا نظارہ کر سکتے ہیں،
یہ محل بھی عجائب گھر کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کے ایک کمرے میں مقدس نوادرات ہیں، مجھے دوسری بار ان نوادرات کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی، میں نے کھلی آنکھوں سے حضرت دائود ؑ کی تلوار، حضرت موسیٰ ؑ کا عصاء، حضرت یوسف ؑ کی دستار، حضرت ابراہیم ؑ کا پیالہ، نبی اکرمؐ کے دندان مبارک، موئے مبارک اور آپؐ کے استعمال میں رہنے والا پیالہ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کی تلواروں، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت جعفر طیارؓ اور دوسرے نامور صحابہؓ کی تلواروں کی زیارت کی، مجھے نبی رسالتؐ کی تلواروں اور کمان کی زیارت بھی نصیب ہوئی اور سب سے بڑھ کر میں نے حضرت عثمان غنی ؓ کا وہ قرآن مجید بھی دیکھا آپؓ شہادت کے وقت جس کی تلاوت فرما رہے تھے،
آپؓ کے لہو کے نشانات ابھی تک قرآن مجید کے اوراق پر موجود ہیں، زائرین ان مقدس نوادرات کی تصاویر نہیں بنا سکتے لیکن میں نے محافظوں کی نظروں سے بچ کر ان کی تصاویر اتار لیں، توپ کاپی میوزیم میں خانہ کعبہ کا پرانا پرنالہ (میزاب رحمت)، خانہ کعبہ کا دروازہ اور دروازے کے پرانے تالے بھی موجود ہیں، مجھے ان کی زیارت کی سعادت بھی نصیب ہوئی، سلطان احمد میں زیر زمین آبی چرچ بھی ہے، آپ سیڑھیاں اتر کر اس عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ستونوں کا وسیع جنگل دکھائی دیتا ہے، یہ ستون صاف شفاف پانی میں کھڑے ہیں، یہ استنبول کے قدیم باشندوں کا چرچ بھی تھا، بادشاہ کی خفیہ پناہ گاہ بھی اور ہنگامی حالت میں شہر کا آبی ذخیرہ بھی۔
سلطان احمد سیاحوں کا پہلا پڑائو ہوتا ہے چنانچہ اس علاقے میں سیکڑوں ہوٹل اور ریستوران ہیں، یہ ریستوران اور ہوٹل صاف ستھرے، سستے اور معیاری ہیں اور انھیں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا آپ کسی اسلامی ملک میں گھوم رہے ہیں، استنبول میں دن کے وقت گرمی ہوتی ہے لیکن اس گرمی کے باوجود آپ کو وہاں وہ مکھیاں، مچھرا ور کاکروچ دکھائی نہیں دیتے جو اسلامی ملکوں کا انتخابی نشان ہیں، ریستوران کے شیف آپ کے سامنے کھانا بناتے ہیں اوریہ حفظان صحت کے عین مطابق صاف ستھرا ہوتا ہے، شام کے وقت گلیوں میں میز لگ جاتے ہیں اور سلطان احمد کا پورا علاقہ ریستوران بن جاتا ہے، تمام ہوٹلوں نے عمارتوں کی چھتوں کو ٹیرس بنا رکھا ہے، آپ چھتوں پر بیٹھ کر آیا صوفیہ، نیلی مسجد اور باسفورس کے کناروں کی سرگوشیاں سن سکتے ہیں،
آپ چاند کو وارفتگی کے عالم میں نیچے جھکتے اور گولڈن ہارن کی جلتی بجھتی روشنیوں کو بوسا دیتے بھی دیکھ سکتے ہیں، استنبول کے لوگ انتہائی مہذب، مہمان نواز، ہمدرد اور منکسرالمزاج ہیں، میں نے پورے شہر میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے کپڑے میلے ہوں، گداگر بھی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں، ریستورانوں کے ویٹرز تک نہائے دھوئے اور صاف ستھرے نظر آتے ہیں، شہر کے زیادہ تر مکین شام اور رات کے وقت گھر کے سامنے میز کرسی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں، یہ شطرنج کھیلتے ہیں، ترکش چائے پیتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور سلطان فاتح مسجد کے قدیم علاقوں کی شامیں بھی بہت اچھی ہوتی ہیں، علاقے کے زیادہ تر مرد و زن حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور سلطان فاتح کے مزار پر آ جاتے ہیں،
یہ مزار پر سلام کرتے ہیں اور مساجد کے باہر فواروں اور بنچوں پر بیٹھ جاتے ہیں، یہ وہاں کھانا بھی کھاتے ہیں، چائے کافی بھی پیتے ہیں اور آئس کریم کا لطف بھی اٹھاتے ہیں، استنبول میونسپل کارپوریشن نے تمام مساجد اور مزارات کے احاطوں کو تفریح گاہ میں تبدیل کر دیا ہے، مساجد کے چاروں اطراف فرش پر ٹائلز لگا دی گئی ہیں، خوبصورت اور آرام دہ بنچ بنا دیے گئے ہیں اور روشنی کا مناسب بندوبست کر دیا گیا ہے چنانچہ ہر شام سیکڑوں لوگ یہاں آ جاتے ہیں، میری میاں شہباز شریف اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست ہے آپ سلطان ایوب اور سلطان فاتح کے علاقوں میں خصوصی ٹیمیں بھجوا کر وہاں کا مشاہدہ کروائیں اور حضرت داتا گنج بخش ؒ، بری امام سرکارؒ اور پیر غازیؒ کے مزارات کی شیپ بدل دیں، آپ ان مزارات کو بھی اتنا خوبصورت اور آرام دہ بنا سکتے ہیں کہ لوگ شام کے وقت فیملیز کے ساتھ یہاں آ کر بیٹھ جائیں۔
استنبول کے ماڈرن علاقے کا نام تاقسیم ہے، یہ ایک طویل واکنگ اسٹریٹ ہے جس کے دائیں بائیں دنیا کے مشہور برانڈز کے آئوٹ لیٹ، ریستوران، بارز اور ڈسکوز ہیں، استنبول کے زیادہ تر سیاح رات کو اس علاقے میں شفٹ ہو جاتے ہیں اور اس اسٹریٹ میں حقیقتاً کھوے سے کھو اچھلتا ہے، تاقسیم میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں ہوٹلز ہیں، پورے شہر میں سیاحتی کمپنیوں کا جال بچھا ہے، آپ کو ہر گلی، ہر سڑک سے ترکی کے مختلف ٹورز مل جاتے ہیں، استنبول شہر کے لیے بھی دن اور رات کے درجنوں ٹورز دستیاب ہیں، باسفورس اور گولڈن ہارن کے کروز ٹورز کمال ہیں،
آپ ڈنر کروز بھی لے سکتے ہیں، آپ اس کروز کے دوران جہاز کے عرشے پر سمندر کے عین درمیان ڈنر کرتے ہیں، آپ کے اوپر استنبول کا آسمان سایہ کناں ہوتا ہے، نیچے باسفورس کے نیلے پانی ہوتے ہیں اور دائیں بائیں تاحد نظر استنبول کی روشنیاں اور آپ ان روشنیوں کے درمیان پانی پر ڈولتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں، استنبول شہر میں میٹرو اور بس سروس بھی ہے، میٹرو کا کرایہ بھی کم ہے، آپ دو لیرا میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کر سکتے ہیں، بس سروس پورے شہر میں دستیاب ہے اور آپ دن بھر کا ٹکٹ لے کر کسی بھی منزل کی کوئی بھی بس پکڑ سکتے ہیں، شہر میں میٹرو کروز بھی چلتے ہیں،
ان کایک طرفہ کرایہ بھی دو لیرا ہے، آپ دو لیرے خرچ کر کے سمندری سفر کا لطف لے سکتے ہیں، استنبول کا گرینڈ بازار دنیا کی سب سے بڑی کورڈ مارکیٹ ہے، یہ بازار آنتوں کی طرح چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل ہے، گرینڈ بازار میں ساڑھے چار ہزار دکانیں ہیں اور آپ کو یہ ساری دکانیں دیکھنے کے لیے کم از کم تین چار دن چاہئیں، اس مارکیٹ میں جیولری، کارپٹس اور گھریلو زیبائش کی پرانی چیزیں پاکستان سے جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ اشیاء ترکی کے نام سے بکتی ہیں، حکومت اگر تھوڑی سی توجہ دے تو یہ ان اشیاء کا انٹرنیشنل برانڈ بنا سکتی ہے اور یہ اشیاء طریقے اور سلیقے کے ساتھ ترکی ایکسپورٹ ہو سکتی ہیں۔
استنبول کے لوگ لبرل اور معتدل ہیں، شہر میں سکرٹس بھی نظر آتے ہیں اور اسکارف بھی، خرابات بھی آباد ہیں اور مسجدیں بھی، مرد اور خواتین دونوں مسجدوں میں نمازیں ادا کرتے ہیں، افطاری بھی مسجدوں کے باہر فرش پر لمبے لمبے دستر خوانوں پر ہوتی ہے اور ان دستر خوانوں پر پورے پورے خاندان نظر آتے ہیں، شراب نوشی پر پابندی نہیں لیکن شراب کی مشہوری اور اس کے سرے عام استعمال کی ممانعت ہے چنانچہ آپ کو سڑکوں پر شراب اور شرابی دونوں نظر نہیں آتے۔ ترکوں کی آنکھوں میں حیا ہے، آپ کو کوئی مرد کسی خاتون کو گھورتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، سکرٹ والے اسکارف پر اعتراض نہیں کرتے اور اسکارف اور داڑھیوں والے سکرٹ کی طرف اشارہ نہیں کرتے، شیعہ سنی محض اختلاف ہے دشمنی نہیں بنا، کوئی شخص کسی کے مذہبی جذبات کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کرتا،
لائبریریوں اور کتاب خانوں کی بہتات ہے، لوگ حماموں میں جانا پسند کرتے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول ہیں، یہ لوگ فراڈ اور ہیرا پھیری کو پسند نہیں کرتے، پاکستان اور پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں، یہ لوگ انگریزی نہیں جانتے لیکن آپ اشاروں کے ذریعے کام چلا سکتے ہیں، شہر کرائم فری ہے، پولیس پورے شہر میں سادہ کپڑوں میں پھرتی ہے اور یہ غیر محسوس طریقے سے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر لیتی ہے، ترکی میں لوڈ شیڈنگ، پالوشن، شورشرابا اور افراتفری بھی نہیں، معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، ترکی دنیا کی پندرہویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور اس نے ترقی کا یہ سفر صرف دس برسوں میں مکمل کیا۔ دنیا جہاں کی کمپنیاں ترکی آرہی ہیں اور ترکی کی ترقی میں حصہ ڈال رہی ہیں، غرض آپ استنبول شہر میں گھومیں تو آپ کو یقین آ جاتا ہے آج کے دور میں بھی شراب اور فحاشی کے بغیر ترقی ممکن ہے اور یہ ترقی مسلمان بھی کر سکتے ہیں،
آپ کو یہ یقین بھی آ جاتا ہے اگر کرائم کا گولڈن ہارن دس سال میں دنیا کی دس بڑی سیاحتی منازل میں شامل ہو سکتا ہے تو ہم بھی لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد کو دنیا کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے طیب اردگان اور عبداللہ گل جیسے لیڈر چاہئیں، ہم اگر انا اور ضد میں لتھڑے لیڈروں سے جان چھڑا لیں اور کسی ایک طیب اردگان کا بندوبست کرلیں تو ہم بھی دس سالوں میں ترکی بن سکتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمیں روانڈا بنتے دیر نہیں لگے گی۔