سوچیے گا ضرور…!
فوربز میگزین ہر سال دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست شایع کرتا ہے، فوربز میگزین کے بارے میں کہا جاتاہے دنیا کا کوئی ارب پتی شخص اس وقت تک ارب پتی نہیں بنتا جب تک فوربز میگزین اسے ارب پتی تسلیم نہیں کر لیتا۔
فوربز نے ستمبر2012 میں دنیا کے چار سو ارب پتی لوگوں کی فہرست شایع کی، ا س فہرست میں پہلی بار ایک پاکستانی امریکن شہری کا نام آیا، اس شخص کا نام شاہد خان ہے، یہ 1950 میں لاہور میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تھا، شاہد خان سولہ سال کی عمر میں امریکا چلے گئے، یہ امریکا میں ابتدائی راتیں دو ڈالر کے کمرے میں گزارتے رہے، امریکا میں ان کے پاس دو آپشن تھے، یہ عام پاکستانیوں کی طرح چھوٹی موٹی نوکری تلاش کرتے اور خود کو روزگار کے تنور کا ایندھن بنا دیتے یا پھر یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور اپنے لیے کوئی باعزت پیشہ چن لیتے، امریکا میں غیر ملکی طالب علموں کے لیے تعلیم بہت مہنگی ہے لیکن شاہد خان نے اس کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
امریکا سپر پاور ہے اور سپر پاور ہر شعبے میں سپر ہوتی ہے، امریکا تعلیم کے شعبے میں پوری دنیا سے آگے ہے، یہ تعلیم کا ویٹی کن سٹی ہے چنانچہ جو شخص امریکا میں رہ کر تعلیم حاصل نہیں کرتا اس شخص کی مثال اس مسلمان جیسی ہے جو مکہ میں رہ کر حج یا عمرہ نہیں کرتا، میں امریکا سے آنے والے اکثر پاکستانیوں سے پوچھتا ہوں "کیا آپ نے امریکا کے کسی پروفیشنل اسکول یا یونیورسٹی سے کوئی کورس کیا؟ " نوے فیصد کا جواب ناں ہوتا ہے۔ میں ان سے عرض کرتا ہوں آپ کس قدر بدنصیب ہیں آپ سونے کی کان میں رہتے ہیں لیکن آپ نے سونے کا رنگ نہیں دیکھا، امریکا اپنے تعلیمی اداروں کی وجہ سے امریکا ہے، امریکا میں رہنے والے لوگوں کو اس کے تعلیمی اداروں میں چند مہینے ضرور گزارنے چاہئیں، خواہ یہ وہاں باتھ روم ہی کیوں نہ صاف کریں۔ شاہد خان سمجھدار تھے چنانچہ انھوں نے یونیورسٹی آف ایلی نوئز کالج آف انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا، یہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریستوران میں برتن بھی دھوتے تھے، انھیں اس کام کا ایک ڈالر 20 سینیٹ فی گھنٹہ مزدوری ملتی تھی۔
شاہد خان نے انجینئرنگ اسکول میں تھوڑی مدت گزارنے کے بعد فلیکس اینڈ گیٹ نام کی کمپنی میں پارٹ ٹائم کام شروع کر دیا، یہ کمپنی گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس بناتی تھی، شاہد خان کام کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے 1971 میں انجینئرنگ اسکول سے گریجویشن کر لی، گریجوایشن کے بعد یہ فلیکس اینڈ گیٹ میں ڈائریکٹر لگ گئے، نوکری کے دوران انھیں محسوس ہوا امریکا کی کوئی کمپنی پک اپ ٹرکس کے لیے "ون پیس" بمپر نہیں بنا رہی، کمپنیاں دو دو، تین تین پیس میں بمپر بناتی ہیں، یہ بمپر ٹکڑوں میں ٹرک کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں، سفر اور وزن کی وجہ سے بہت جلد ان بمپرز کے جوڑ کھل جاتے ہیں۔ شاہد خان نے نوکری سے استعفیٰ دیا، اسمال بزنس لون کارپوریشن سے پچاس ہزار ڈالر قرض لیا، ان کے پاس 16ہزار ڈالر اپنے جمع تھے، انھوں نے 1978 میں 66 ہزار ڈالر سے ون پیس بمپر بنانا شروع کر دیے، آئیڈیا اچھا تھا چنانچہ ان کا کام چل نکلا، خوشحالی آئی اور شاہد خان نے دو سال میں وہ فلیکس اینڈ گیٹ کمپنی خرید لی جس میں وہ طالب علمی کے دوران کام کرتے رہے تھے۔
انھوں نے فلیکس اینڈ گیٹ خریدی اور امریکا کی تین بڑی آٹو موبائل کمپنیوں کو بمپر سپلائی کرنا شروع کر دیے۔ شاہد خان پر ترقی کے دروازے کھل گئے۔ 1984میں ٹویوٹا کمپنی نے شاہد خان سے پک اپ گاڑی کے بمپر خریدنا شروع کر دیے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ شاہد خان1987 تک ٹویوٹا پک اپ کے لیے بمپر سپلائی کرنے والے واحد صنعت کار بن گئے۔ 1989 میں شاہد خان کو ٹویوٹا کمپنی کی تمام گاڑیوں کے بمپر مل گئے، یہ واحد کمپنی تھی جو ٹویوٹا کو بمپر فراہم کرتی تھی اور یوں شاہد خان امریکا کے بڑے بزنس مین بنتے چلے گئے۔ 2011 میں ان کی کمپنی میں 12 ہزار 4 سو 50 ملازم تھے اور ان کے پاس 48 مینوفیکچرنگ پلانٹس تھے، شاہد خان نے دسمبر 2011 میں 76 کروڑ ڈالر میں امریکا کا بڑا فٹ بال کلب جیکسن ولے جیگوار بھی خرید لیا، یہ امریکا کی قومی فٹ بال لیگ ہے۔ فوربز نے ستمبر2012میں شاہد خان کو دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست میں شامل کر لیا، یہ امریکا کے 179 ویں اور دنیا کے 491 ویں امیر ترین شخص ہیں، ان کے پاس اڑھائی ارب ڈالر ہیں۔
امریکا کی ساڑھے 31 کروڑ کی آبادی میں 179ویں نمبر پر آنا اور دنیا کے ساڑھے چھ ارب لوگوں میں 491 ویں نمبر کا امیر شخص کہلانا واقعی اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز صرف اور صرف اپنی محنت کی بنیاد پر 34 برسوں میں حاصل کرنا کمال ہے اور شاہد خان اس کمال پر مبارک باد کے قابل ہیں لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے، اگر شاہد خان پاکستان میں ہوتے تو کیا یہ اس ملک میں بھی ارب پتی بن سکتے تھے؟ اس کا جواب دو کلومیٹر لمبی ناں ہے، اس ناں کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ، ہمارا قومی رویہ ہے، ہمارے معاشرے میں سیلف میڈ لوگوں کو قبول نہیں کیا جاتا، ہم دولت کو صرف وڈیروں، جاگیرداروں اور جدی پشتی سرمایہ داروں کا حق سمجھتے ہیں اور ہم میں سے اگر شاہد خان جیسا کوئی شخص آگے نکل جائے تو یہ معاشرہ اس کے ساتھ جذام کے مریضوں جیسا سلوک کرتا ہے، یہ اسے ولن بنا دیتا ہے۔
میں اس سلسلے میں بے شمار لوگوں کی مثال دے سکتا ہوں، میں پاکستان کے ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جو اگر یورپ یا امریکا میں ہوتے تو ان معاشروں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے، یہ لوگ میٹرک پاس ہیں لیکن انھوں نے اس واجبی تعلیم کے باوجود ایشیا کی سب سے بڑی ہائوسنگ اسکیم بنائی، تیسری دنیا کا سب سے بڑا بینک بنایا، انھوں نے کوریا، ملائیشیا اور دبئی کے سسٹم بنائے اور یہ جب ملائیشیاء جاتے ہیں تو مہاتیر محمد اور ترکی جاتے ہیں تو طیب اردگان اور سائوتھ افریقہ جاتے ہیں تو نیلسن منڈیلا کے ساتھ ڈنر کرتے ہیں، ان لوگوں نے بے روزگاری کے شکار اس ملک کو پانچ پانچ، دس دس لاکھ نوکریاں دیں، اس ملک جس میں پی آئی اے اور ریلوے جیسے ادارے بیٹھ گئے ہیں اس میں ان عام لوگوں نے تمام تر معاشرتی، سرکاری، دفتری اور سیاسی دبائو کے باوجود اربوں روپے کے منصوبے بنائے، انھوں نے لوگوں کا طرز معاشرت تک تبدیل کر دیا۔
آج جب وفاقی حکومت سی ڈی اے اور پنجاب حکومت ایل ڈی اے نہیں چلا پا رہی، پوری حکومت مل کر گھروں کے سامنے سے کچرا صاف نہیں کر پا رہی، اس میں چند لوگوں نے پورے پورے ماڈرن شہر آباد کر دیے جن میں چوبیس گھنٹے پانی، چوبیس گھنٹے بجلی، چوبیس گھنٹے سیکیورٹی، چوبیس گھنٹے اسپتال اور چوبیس گھنٹے فائر بریگیڈ کی سروس دستیاب ہوتی ہے اور اسکول، کالج اور یونیورسٹی بھی، پارکس بھی، مارکیٹس بھی اور ڈے کیئر سینٹر اور اولڈ ہومز بھی اور میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو اربوں روپے کے ویلفیئر ادارے چلا رہے ہیں لیکن معاشرہ انھیں تسلیم کرنا تو دور کی بات انھیں چور ثابت کرنے میں جتا ہوا ہے۔
اگر امریکا جیسا اسلام دشمن ملک شاہد خان جیسے پاکستانی کو ترقی کا موقع فراہم کرتا ہے، یہ اسے فوربز میگزین کے ارب پتیوں میں بھی شامل کرتا ہے اور امریکا کی تین بڑی یونیورسٹیاں اسے ایوارڈ دیتی ہیں تو ہمیں بھی کم از کم ان لوگوں کے کنٹری بیوشن کو تسلیم کرنا چاہیے جو پاکستان میں رہ کر ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو ملازمتیں بھی دیتے ہیں، ہمیں ان لوگوں کو صرف ترقی کرنے کے جرم میں عبرت کا نشان نہیں بنانا چاہیے۔ ہمارے ملک میں کسی شخص کے لیے ترقی کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے آپ اس کااندازہ لگانے کے لیے اپنے گھر یا اپنے دفتر میں دو ملازم رکھ لیجیے، یہ دو ملازم اگر آپ کو ایک مہینے میں رونے پر مجبور نہ کر دیں تو آپ میرا نام بدل دیجیے گا چنانچہ اس ملک میں چار، پانچ لاکھ لوگوں سے کام لینا اور آخر میں ڈیلیور بھی کرنا واقعی کمال ہے لیکن ہم ایسے کمال کرنے والوں کی عزت نہیں کرتے۔
پاکستان میں شاہد خان جیسے لوگوں کی ناکامی کی دوسری وجہ ہماری غیر سرمایہ کارانہ سوچ ہے، ہم آج بھی دولت، سرمایہ داروں، صنعت اور تجارت سے نفرت کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا تبدیل ہو چکی ہے، آج فوربز کی فہرست کے پہلے 100ارب پتیوں میں اس روس کے 12 ارب پتی موجود ہیں جو 25 سال پہلے تک دنیا میں مارکسزم کا قبلہ ہوتا تھا، آج سوشلزم کا سب سے بڑا چیمپئن چین سرمایہ داری نظام میں ناک تک دفن ہو چکا ہے اور آج حج اور عمرہ اسلامی دنیا کا سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے لیکن ہم آج بھی فیکٹری والے، فارم ہائوس والے، دکان والے اور تجارت والے کو گالی دیتے ہیں اور ہم اس سے نفرت کرتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں یہ لوگ معاشرے کے اصل محسن ہیں، ان میں سے ہر شخص سیکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے اور اگر یہ لوگ کام بند کر دیں تو انسان دوسرے انسان کو کھانا شروع کر دے۔
ہم آج 2012 میں سرمایہ داری کو بھی گالی دے رہے ہیں اور فیکٹریوں کو بھی آگ لگا رہے ہیں جب کہ امریکا جیسے ملک پاکستان کے اس شاہد خان کو ایوارڈز دے رہے ہیں جو تیرہ ہزار امریکیوں کے روزگار کا ذریعہ بن رہا ہے اور جس نے امریکی معاشرے میں اڑھائی ارب ڈالر کمائے۔ آپ انٹرنیٹ سے شاہد خان کی تصویر نکالیے اور اس کے بعد سوچیے کیا امریکا ٹھیک ہے یا پھر ہم لوگ اور اگر امریکا ٹھیک ہے تو پھر ہم اس ملک کے شاہد خانوں کو ایسا ماحول کیوں نہیں دیتے جس میں رہ کر یہ ترقی بھی کر سکیں اور اس ملک کو امریکا بھی بنا سکیں۔ سوچیے گا ضرور?!