سینیٹ الیکشن میں کیا کیا ہوا؟
آصف علی زرداری کے ایک قریبی دوست نے انھیں فروری میں بتایا، حفیظ شیخ کو سینیٹ کے الیکشن میں خفیہ مدد نہیں ملے گی، یہ الیکشن مکمل آزاد اور شفاف ہو گا۔
یہ ایک دھماکا خیز اطلاع تھی، زرداری صاحب نے تصدیق کرائی، یہ اطلاع درست نکلی، زرداری صاحب ایک جہاں دیدہ اور سمجھ دار انسان ہیں، انھوں نے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی سیٹ سے الیکشن لڑانے کا منصوبہ بنا لیا، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو بھی یہ تجویز پسند آئی، یہ تینوں جانتے تھے یوسف رضا گیلانی حفیظ شیخ کے خوف ناک حریف ثابت ہوں گے لیکن یہ پلان جب گیلانی صاحب کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے صاف انکار کر دیا۔
ان کا خیال تھا "مجھے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے" پارٹی اگر مجھے واقعی سینیٹ میں دیکھنا چاہتی ہے تو یہ مجھے سندھ یا پھر ن لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب سے منتخب کرائے، اسلام آباد میں میرے کروڑوں روپے ضایع کرانے کی کیا تُک ہے؟ آصف علی زرداری نے اپنی انفارمیشن ان کے ساتھ شیئر کی اور انھیں مشورہ دیا آپ اسلام آباد جائیں، اپنے گھوڑے دوڑائیں اور آپ کو جب میری اطلاع کی تصدیق ہو جائے تو آپ ہاں کر دیں ورنہ اپنی بات پر قائم رہیں۔
گیلانی صاحب نے یہ مشورہ مان لیا، یہ اسلام آباد آئے، دو تین دن شہر میں رہے، اپنے پرانے رابطے بحال کیے اور یہ کنفرم ہو گیا حفیظ شیخ کا الیکشن واقعی نیوٹرل ہو گا، کوئی ان کے لیے کوشش نہیں کرے گا، گیلانی صاحب نے ہاں کر دی اور یوں پی ڈی ایم نے انھیں اپنا متفقہ امیدوار ڈکلیئر کر دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے 27 ایم این ایز شاہد خاقان عباسی کے رابطے میں تھے، یہ سات آٹھ مزید ارکان بھی توڑ سکتے تھے، انھوں نے ان ارکان کی دو فہرستیں بنائیں، پہلی فہرست میں 30 ارکان کے نام تھے اور دوسری میں 12 ایم این ایز تھے اور انھوں نے یہ دونوں فہرستیں میاں نواز شریف کو بھجوا دیں، میاں صاحب نے انھیں 12 ارکان توڑنے کا گرین سگنل دے دیا جب کہ باقی ارکان کی فہرست پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ شیئر کر دی۔
یہ بھنک حکومت کے کانوں میں بھی پڑ گئی چناں چہ حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے کوششیں شروع کر دیں، قومی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا، پی ڈی ایم نے ایوان سر پر اٹھا لیا، پھر آرڈیننس آ گیا اور پھر سپریم کورٹ میں ریفرنس داغ دیا گیا، حکومت کو سو فیصد امید تھی ہمیں سپریم کورٹ سے ریلیف مل جائے گا، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور وزیر قانون فروغ نسیم نے وزیراعظم کو یقین دلا دیا تھا ہم عدالت سے کم از کم ون ٹائم ریلیف ضرور لے لیں گے، یہ شاید حکومت کو مل بھی جاتا لیکن اس سے ایک غلطی ہو گئی۔
یہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئی، سکندر سلطان راجہ ملک کے نامور بیوروکریٹ سعید مہدی کے داماد اور چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی کے بہنوئی ہیں، حکومت کا خیال تھا یہ انھیں مینج کر لیں گے مگر سکندر سلطان ایک دل چسپ انسان ہیں، آپ انھیں قائل کر کے پورا اونٹ بھی کھلا سکتے ہیں لیکن یہ زبردستی چنے کا ایک دانا بھی نہیں پھانکتے چناں چہ جب وزیراعظم کی قانونی ٹیم نے انھیں دبانے کی کوشش کی تو یہ ڈٹ گئے اور پھر بار بار کی کوشش کے باوجود سپریم کورٹ میں ڈٹے رہے اور یوں سینیٹ کا الیکشن بہرحال خفیہ ووٹ کے ذریعے طے ہو گیا۔
پی ڈی ایم کا خیال تھا گیلانی صاحب 190 ووٹ لے لیں گے اور حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو 150ووٹ پڑیں گے، یہ کیلکولیشن اس وقت تک ٹھیک تھی لیکن پھر وزیراعظم نے ایک دل چسپ کارڈ کھیلا، عمران خان نے صاف کہہ دیا اگر ہمارا امیدوار ہارا تو میں اسمبلیاں توڑ دوں گا اور یہ فیصلہ ریاست کے کسی ستون کو سوٹ نہیں کرتا تھا، یہ کارڈ کارگر ثابت ہوا اور دو مارچ کی رات فون بجنا شروع ہو گئے، پاکستان پیپلز پارٹی کے دوست ایم این ایز بھی غائب ہو گئے اور شاہد خاقان عباسی کے قبضے میں موجود 12 ایم این ایز بھی رابطے سے نکل گئے۔
پی ڈی ایم کو صبح محسوس ہوا ہم یہ الیکشن ہار جائیں گے لہٰذا یہ مایوس ہو گئے، بہرحال الیکشن ہوا، ووٹوں کی گنتی ہوئی اور پولنگ بوتھ کے اندر سے عطاء تارڑ نے کیمرے کی طرف دیکھ کر مبارک باد کا پیغام دے دیا، پی ڈی ایم کے ارکان ویٹنگ روم میں قومی اسمبلی کے ہوم ٹی وی پر نظریں جما کر بیٹھے تھے، یہ سب نعرے لگانے لگے، بلاول بھٹو بھی وہاں موجود تھے، انھیں یقین نہیں آیالہٰذا وہ نعرے لگانے والوں کو روکنے میں مصروف ہو گئے، بہرحال نتیجے کا اعلان ہوگیا اور گیلانی صاحب پانچ ووٹوں سے جیت گئے۔
یہ ہار حکومت کے لیے خوف ناک تھی، وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیا، ریاست کے دونوں ستون چار مارچ کو وزیراعظم سے ملے اور انھیں اعتماد کا ووٹ نہ لینے کا مشورہ دیا لیکن وزیراعظم زیادہ اسمارٹ ثابت ہوئے اور انھوں نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا، وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ 6مارچ کو تھا، شاہد خاقان عباسی نے پانچ مارچ کی رات پی ٹی آئی کے 12 ایم این ایز کو اپنے پاس بلا لیا، ان ایم این ایز کو جمع کرنے کی ڈیوٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے دو قائدین کو سونپی گئی، یہ انھیں جمع کر رہے تھے، سب سے پہلے ان دونوں قائدین نے اپنے موبائل بند کر دیے اور یہ غائب ہو گئے، ان کے بعد پی ٹی آئی کے پانچ ایم این ایز کا ضمیر جاگ گیا اور انھوں نے وزیراعظم سے بے وفائی کرنے سے انکار کر دیا۔
دو ایم این ایز گھروں سے نکلے اورراستے میں غائب ہو گئے تاہم 5 ایم این ایز شاہد خاقان عباسی کے پاس پہنچ گئے اور یہ ساری رات ان کے ساتھ ایک فلیٹ میں مقید رہے، وہ ایک ہنگامہ خیز رات تھی، فون بجتے اور واٹس ایپ آتے رہے، اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی بھی خاموش ہو گئی، اس سے بار بار رابطہ کیا گیا تو آصف علی زرداری نے پیغام دیا ہم اسمبلیاں نہیں تڑوانا چاہتے، یہ پیغام کلیئر تھا لہٰذا شاہد خاقان عباسی نے اپنے پاس موجود پانچ ایم این ایز کو بھی یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا "میں آپ کا وزن نہیں اٹھا سکتا"اور یوں اگلے دن وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔
سینیٹ کے الیکشنز کا آخری معرکہ 12مارچ کو تھا، پاکستان مسلم لیگ ن کو اپنے پانچ سینیٹرز پر اعتماد نہیں تھا، پارٹی کی قیادت نے حکم دیا اور ن لیگ کے تمام سینیٹرز کو 11 مارچ کی رات شاہد خاقان عباسی کے گھر اکٹھا کر لیا گیا، شاہد خاقان عباسی نے اپنے ڈرائنگ روم میں شرماتے شرماتے سب کو حلف دینے کا حکم دے دیا، ساجد میر پہلے شخص تھے جنھوں نے ہاتھ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کو حاضرو ناظر جان کر یوسف رضاگیلانی کو ووٹ دینے کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد باری باری تمام سینیٹرز حلف اٹھاتے چلے گئے، سینیٹر دلاور خان وہاں موجود نہیں تھے۔
شاہد خاقان عباسی نے سینیٹرز کو بتایا سینیٹر دلاور مجھے حلف دے چکے ہیں، یہ کل گیلانی صاحب ہی کو ووٹ دیں گے، عباسی صاحب کے گھر موجود دو سینیٹرز نے حلف اٹھانے کے بعد افسوس سے کہا "اگر پارٹی کو ہم پر بھی اعتماد نہیں تو پھر کس پر ہو گا" لیکن یہ آواز بہت مدہم تھی، بہرحال 12 مارچ کا دن آ گیا، سینیٹرز سینیٹ ہال میں پہنچ گئے، الیکشن سے تھوڑی دیر پہلے ن لیگ کے سینیٹرز کو میاں شہباز شریف کے چیمبر میں اکٹھا کر دیا گیا، یہ وہاں پہنچ گئے، یوسف رضا گیلانی کے دونوں صاحب زادے سینیٹرز کو سمجھا رہے تھے، یہ اچانک پریشان دکھائی دینے لگے۔
اس دوران وہاں چھوٹا سا حادثہ ہو گیا، رانا مقبول کرسی نہ ہونے کی وجہ سے میز پر بیٹھ گئے تھے، یہ وزنی ہیں لہٰذا میز ان کا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور وہ ٹوٹ گیا، رانا صاحب کو چوٹ لگ گئی، ووٹ کا وقت ہو گیا، ن لیگ کے سینیٹرز نکلنے لگے تو گیلانی صاحب کے صاحب زادے علی حیدر گیلانی، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور شیری رحمن نے چار سینیٹرز کیپٹن شاہین خالد بٹ، حافظ عبدالکریم، کامران مائیکل اور اسد جونیجو کو الگ کیا اور انھیں بیلٹ پیپر دکھا کر کہا، آپ لوگوں نے یوسف رضا گیلانی کے نام پر رضا کے نیچے مہر لگانی ہے، یہ ہدایت عجیب تھی، ان سینیٹرز نے عطاء تارڑ سے پوچھا، انھوں نے تصدیق کر دی۔
ان کا کہنا تھا پیپلز پارٹی کو جن سینیٹرز پر شک ہے یہ ان میں سے چند سے یوسف، چند سے رضا اور چند سے گیلانی کے نیچے مہر لگوا رہی ہے تاکہ ان لوگوں کے ووٹوں کی تصدیق ہو سکے، یہ کل سات سینیٹر تھے، چار کا تعلق ن لیگ سے تھا، دو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور ایک خاتون سینیٹر تھی، ان سات لوگوں نے شیری رحمن اور علی حیدر گیلانی کی ہدایت پر یوسف، رضا اور گیلانی کے نیچے مہر لگائی اور یہ وہ سات ووٹ ہیں جو آخر میں مسترد ہو گئے اور آصف علی زرداری نے 16 مارچ کو تقریر کر کے پی ڈی ایم کو گرداب میں دھکیل دیا۔
میں نے کل ان حقائق کی تصدیق کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دو قائدین سے رابطہ کیا، میں نے آخر میں ان سے پوچھا "یہ بتائیں زرداری سب پر بھاری ثابت ہوا یا کھلاڑی" دونوں نے اتفاق کیا کھلاڑی نے دوبار اسمبلیاں توڑنے کا کارڈ کھیل کر پوری بازی پلٹ دی چناں چہ کھلاڑی سب پر بھاری ثابت ہوا، ان کا کہنا تھا ہم جانتے ہیں عمران خان کو اگر زیادہ تنگ کیا گیا تو یہ لُڈو پھاڑ دے گا اور یہ ریاست اور آصف علی زرداری دونوں کو سوٹ نہیں کرتاچناں چہ اب یوسف رضا گیلانی چیئرمین بن کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کر دیں گے۔