ثالثی کا بخار
میاں نواز شریف نے بھی 2016 میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا فیصلہ کیا، یہ 18جنوری کو ریاض اور 19 جنوری کو تہران گئے۔
میں بھی وزیراعظم کے وفد میں شامل تھا، میں کیوں شامل تھا یہ مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا، جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے اور طارق فاطمی خارجہ امور پر وزیراعظم کے معاون خصوصی، یہ دونوں دورے کے مرکزی ستون تھے، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی ساتھ تھے، ہم لوگ ٹیک آف سے پہلے پی اے ایف بیس پر بیٹھے تھے، میں نے طارق فاطمی صاحب سے پوچھا "سر کیا ثالثی کایہ دورہ کام یاب ہو جائے گا" طارق فاطمی ہنس کر بولے "مجھ سے وزیراعظم نے بھی پوچھا تھا، میں نے ان کو جواب دیا تھا سر یہ مسئلہ 632 سے حل نہیں ہو سکا، ہم بھی نہیں کر سکیں گے" وہ رکے اور مسکراتی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگے، میں نے عرض کیا "وزیراعظم نے کیا جواب دیا تھا "وہ ہنسے اور بولے "وزیراعظم نے کہا، فاطمی صاحب ہم پھر بھی ٹرائی کرتے ہیں " میں نے ان سے پوچھا " تنازع کا بڑا ذمے دار کون ہے" وہ ہنس کر بولے "ایران اور سعودی عرب دونوں ذمے دار ہیں "۔
ہماری گفتگو ابھی جاری تھی وزیراعظم آ گئے اور فلائٹ کا وقت ہو گیا، ہم بہرحال پہلے سعودی عرب پہنچ گئے، سعودی کنگ شاہ سلمان نے وزیراعظم کو انتہائی پرتکلف لنچ دیا اور پھر پاکستانی وفد کی سعودی وفد کے ساتھ ملاقات شروع ہوگئی اور آخر میں میاں نواز شریف اور شاہ سلمان دونوں تنہائی میں ملے، وزیراعظم باہر نکلے تو بہت خوش اور متحرک تھے، ہمیں محسوس ہوا شاید شاہ سلمان مان گئے ہیں مگر رات کے وقت پتا چلا سعودی عرب نے ثالثی کے لیے زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی، شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے میاں نواز شریف کا شکریہ ادا کیا، پاکستان کے ثالثی کے کردار کو سراہا اور فرمایا، آپ جلدی نہ کریں، ہم آپ کو چند ماہ میں بتائیں گے، ہم اگلے دن ریاض سے تہران آ گئے۔
ایرانی حکومت کا رویہ بہت سرد اور غیر سفارتی تھا، ہوٹل بھی اچھا نہیں تھا، وفد کو سڑک پر اتار کر پیدل ہوٹل لے جایا گیا تھا، صدر حسن روحانی سے ملاقات کی اجازت بھی صرف 6 لوگوں کو دی گئی مگر اس سرد مہری کے باوجود ایرانی حکومت نے پاکستان کی ثالثی کو بھی تسلیم کر لیا اور "گوہیڈ" بھی دے دیا، ہم لوگ رویوں کے اس تضاد پر حیرت کے ساتھ واپس آ گئے، سعودی عرب نے استقبال والہانہ کیا مگریہ ثالثی کے لیے تیار نہ ہوا، ایران کا استقبال اور رویہ سرد تھا مگر یہ ثالثی کے لیے تیار تھا، ہم بہرحال ادھورے مشن کے ساتھ پاکستان واپس آگئے، اپریل 2016 میں پاناما اسکینڈل آ گیا اور میاں نواز شریف ثالثی کو بھول کر اس میں دھنس گئے اور اب عمران خان ایران اور سعودی عرب کے پھیرے لگا رہے ہیں، کیا یہ کام یاب ہو جائیں گے ہمیں یہ جاننے کے لیے تاریخ میں جانا ہوگا۔
سعودی عرب اور ایران کا تنازع آج تک محدود نہیں، اس کی تین جڑیں ہیں، پہلی جڑ ہزاروں سال کی نفرت اور دوری میں پیوست ہے، عرب خود کو عرب اور باقی دنیا کو عجم کہتے تھے، ایرانی اس عجم میں آتے تھے، 53قبل مسیح میں ایران اور روم کے درمیان اختلافات شروع ہوئے اور خوف ناک جنگوں کا سلسلہ چل نکلا، یہ سلسلہ نبی اکرمؐ کے زمانے تک چلتا رہا، یہ جنگ 680سال جاری رہی اور یہ اس زمانے کی جنگ عظیم تھی، نبی اکرمؐ کے مکی دور میں ایرانی آتش پرست تھے اور رومی عیسائی، نبی اکرم ؐ کا ووٹ عیسائی رومیوں کے حق میں تھا اور یوں بالآخر627 میں رومن جیت گئے اور ایرانی ہار گئے، اہل فارس عربوں کو رومیوں کا اتحادی سمجھتے تھے۔
یہ سوچ آج تک قائم ہے، دوسری جڑ نبی اکرمؐ کے وصال کے بعدپھوٹ پڑی، حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں 636 میں قادسیہ کی جنگ ہوئی، قادسیہ عراق میں کوفہ سے 52 کلومیٹر اور کربلا سے 122کلو میٹر دور چھوٹا سا قصبہ ہے، عراق اس زمانے میں ایرانی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا، حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اور ایرانی جرنیل رستم کے درمیان جنگ ہوئی، ایرانی جنگ قادسیہ ہار گئے اوریوں پورا فارس اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا، ایرانی بادشاہ یزدگردکی دو شہزادیاں شہربانواورگیہان بانو جنگی قیدی بن کر آئیں، حضرت عمر فاروقؓ نے شہزادیوں کو دیکھ کر فرمایا، یہ شہزادیاں ہیں۔
یہ شہزادوں کے عقد میں جائیں گی یوں شہربانوحضرت امام حسینؓ کے عقد میں آگئیں اورگیہان بانو حضرت محمد بن ابو بکرؓ کی زوجیت میں دے دی گئیں، حضرت محمد بن ابو بکرؓ کی والدہ حضرت اسماءؓ ابتدا میں حضرت علیؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کی اہلیہ تھیں، حضرت جعفرؓ اردن میں جنگ موتہ کے دوران شہید ہو گئے تو یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نکاح میں آگئیں، حضرت محمد بن ابو بکرؓ پیدا ہوئے، یہ تین سال کے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ رحلت فرما گئے، حضرت اسماءؓ دوسری بار بیوہ ہو گئیں، حضرت علیؓ نے ان کے ساتھ نکاح کر لیا یوں حضرت محمد بن ابو بکرؓ کی پرورش حضرت علیؓ کے گھرمیں ہوئی اور یہ اہل بیت کے رنگ میں رنگ گئے۔
ایرانی شہزادیاں حضرت امام حسینؓ اور حضرت محمد بن ابو بکرؓ کے نکاح میں آئیں تو اہل فارس حضرت علیؓ کے خانوادے سے جڑ گئے، عرب میں شیعان علی کی تحریک چلی اور ایران حضرت علیؓ کے خاندان کے ساتھ کھڑا ہوگیا، واقعہ کربلا کے بعد یہ تقسیم اختلاف اور پھر فرقہ بن گئی، حضرت امام حسینؓ کی اہلیہ شہربانو ؒ کا انتقال بھی ایران میں ہوا، حضرت امام علی رضاؒ حضرت امام حسینؓؓ کی نسل کی پانچویں سیڑھی ہیں، یہ عباسی خلیفہ مامون الرشید کی سازش کا شکار ہوئے، مدینہ منورہ سے مشہد آئے اور ان کا انتقال ہو گیا۔
یہ مشہد میں مدفون ہوئے اور مشہد ان کی مناسبت سے مشہد یعنی شہید کا مقام کہلانے لگا چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں عرب اور ایران اختلافات خلفاء راشدین کے دور میں شروع ہو گئے تھے اور یہ آج تک جاری ہیں، یہ ایران سعودی عرب تنازع کی دوسری جڑ تھی، تیسری جڑ 2015 میں پروان چڑھنا شروع ہوئی، سعودی عرب نے مارچ 2015میں یمن کے حوثی قبائل پر حملے شروع کر دیے، حوثی شیعہ ہیں، یہ حضرت علیؓ کے زمانے میں شیعہ ہوئے اور یہ آج تک اپنے عقائد پر کاربند ہیں، سعودی عرب کے حملے کے بعد ایران نے حوثیوں کی سپورٹ کرنا شروع کر دی، یہ انھیں اسلحہ بھی دینے لگے، ٹریننگ بھی اور فضائی معاونت بھی چناں چہ یمن میں افغانستان جیسی صورت حال پیدا ہو گئی۔
یمن کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب اور اومان کے ساتھ جڑا ہوا ہے، یہ حصہ اس وقت القاعدہ کے کنٹرول میں ہے اوریہاں القاعدہ کو باقاعدہ سعودی سپورٹ حاصل ہے، ایران نے اس قبضے کا بدلہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر والے علاقوں میں لینا شروع کر دیا، سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کے اردگردشیعہ آبادیاں ہیں اور ایران نے انھیں سپورٹ کرنا شروع کر دیا، دوسرا واقعہ 2011میں شام میں پیش آیا، سعودی عرب نے بشار الاسد کی حکومت گرانے کی کوشش کی، یہ بھی اہل تشیع ہیں، ایران نے ان کی مدد شروع کر دی یوں شام میں بھی خانہ جنگی شروع ہو گئی چناں چہ ہم اگر دیکھیں تو ایران اور سعودی عرب میں براہ راست کوئی جھگڑا نہیں مگریہ دونوں شام اور یمن میں پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایران عراق میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے، سعودی عرب کو یہ بھی پسند نہیں آ رہا، اب سوال یہ ہے پاکستان اس تنازع میں کہاں آ تا ہے، پاکستان دراصل سعودی کیمپ میں ہے، ہم 50 سال سے سعودی عرب سے امداد لے رہے ہیں، شاہی خاندان ہم سے اس کے بدلے فوجی امداد کا خواہاں رہتا ہے، ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور ہماری 20فیصدآبادی بھی شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے، ہم ایران کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہتے چناں چہ سعودی عرب اور ایران جب بھی جنگ کے دہانے پر پہنچتے ہیں ہم ثالثی کے لیے درمیان میں کود پڑتے ہیں اور ہر بار بری طرح ناکام ہوتے ہیں، عمران خان بھی چپ چاپ واپس آ جائیں گے اورجلد مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے شور میں ثالثی بھول جائیں گے۔
عمران خان کا دورہ ایران کیسا تھا اس کے بارے میں امیر طاہری نے بہت اچھا تبصرہ کیا، امیر طاہری ایران کے پرانے صحافی ہیں، یہ شاہ ایران کے دور میں ایران کے سب سے بڑے اخبار کیہان کے ایڈیٹر تھے، یہ 1979کے انقلاب کے بعد لندن اور پھر پیرس شفٹ ہو گئے مگر ان کی جڑیں آج بھی ایران کی سیاست میں گڑی ہوئی ہیں، امیر طاہری نے اتوار کی شام ٹویٹ کی "آیت اللہ خامنائی نے عمران خان سے صرف دو معاملات ڈسکس کیے، ایران پاکستان بارڈر پر سیکیورٹی کی صورت حال اور گیس پائپ لائن اور بس" امیر طاہری کی یہ ٹویٹ اپنے منہ سے ثالثی کا مستقبل بیان کر رہی ہے، وزیراعظم اب سعودی عرب جائیں گے، یہ شاہ کے سامنے کیا رکھیں گے اور شاہ ان سے کیا کہیں گے؟ ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک عجیب حسن اتفاق ہے، ہمارا جو بھی حکمران اپنا سفارتی قد بڑھانے کے لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی شروع کرتا ہے وہ چند ماہ بعد اقتدار سے فارغ ہو جاتا ہے، آپ ایوب خان سے لے کر میاں نواز شریف تک پوری تاریخ دیکھ لیں، آپ یہ حسن اتفاق دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، آپ اگراسلامی تاریخ کو بھی اس حسن اتفاق میں شامل کر لیں تو آپ یہ دیکھ کر مزید حیران رہ جائیں گے، 632 میں نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد سے آج تک مسلم دنیا کے جس بھی حکمران نے ایران عرب تنازع میں قدم رکھا وہ مارا گیا یا پھر وہ بغاوت کا شکار ہو گیا۔
یہ تنازع ہر دور میں مسلمان بادشاہوں کے لیے منحوس ثابت ہوا تاہم مجھے یقین ہے عمران خان 1400 سال پرانا یہ ایشو ضرور حل کر لیں گے، یہ ان شاء اللہ یہ ورلڈ کپ بھی ضرور جیت کر آئیں گے، کیوں؟ کیوں کہ یہ ایک غیر معمولی لیڈر ہیں، یہ ثالثی کے بخار سے صاف بچ نکلیں گے، ان شاء اللہ۔