Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Sadqay Jawan Molana

Sadqay Jawan Molana

صدقے جاواں مولانا

آپ کو 2014 اچھی طرح یاد ہو گا، عمران خان نے اپنے کزن علامہ طاہر القادری کے ساتھ وزیراعظم میاں نواز شریف کو گریبان سے پکڑ کر اقتدار کی کرسی سے اتارنے، وزیراعظم کا استعفیٰ لینے اور نیا پاکستان بنانے کے لیے اسلام آباد پر دھاوا بول دیا تھا، یہ ایک تاریخی مگر عین حلال یلغار تھی، حلال دھرنا کیل لگے ڈنڈوں، کٹرز، کرینوں اور ڈی جے بٹ سے لیس تھا، عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی کے بل بھی جلائے، سول نافرمانی کا اعلان بھی کیا اور عوام سے بل ادا نہ کرنے کی اپیل بھی کی، عمران خان کے ٹائیگر پارلیمنٹ ہاؤس کے جنگلے توڑ کر اسمبلی کے احاطے، ایوان صدر کا گیٹ توڑ کر ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس کی حدود پھلانگ کر وزیراعظم ہاؤس اور پی ٹی وی کی باؤنڈری کراس کر کے سرکاری ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیوز میں بھی داخل ہوگئے اور مظاہرین نے ایس ایس پی اسلام آباد کو بھی سڑک پر لٹا کر ڈنڈوں سے زخمی کر دیا، وہ ایک سنہری دور تھا۔

اس سنہری دور کی سنہری یادیں آج تک پورے پاکستان کی یادداشت کا حصہ ہیں، یہ ایک حقیقت تھی اور اب آپ دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، عمران خان کی یلغار نے میاں نواز شریف کو اچانک پارلیمنٹ اور اپوزیشن دونوں کی اہمیت یاد دلا دی، یہ قومی اسمبلی پہنچ گئے، پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے چوہدری اعتزاز احسن نے تقریر کی، یہ ایک دھواں دھار مگر توہین آمیز تقریر تھی لیکن آپ سیاست کی مجبوریاں دیکھیے، میاں نواز شریف کے پاس یہ تقریر برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، یہ دل پر پتھر رکھ کر وہ تقریر سنتے رہے، چوہدری نثار نے اچھلنے کودنے کی کوشش کی مگر ن لیگ کے وزراء نے انھیں پکڑ کر بٹھا دیا، میاں نواز شریف کا چہرہ غصے سے سرخ تھا لیکن یہ چپ چاپ تقریر سنتے رہے، چوہدری اعتزاز احسن نے تقریر میں پنجابی ماں کا ایک لطیفہ سنایا، لطیفہ کچھ یوں تھا، پنجاب کا کوئی بدمعاش بہت ضدی، بہت اتھرا تھا، وہ کسی کا احترام، کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔

پولیس نے چھاپا مارا اور بدمعاش کو گرفتار کر لیا، بدمعاش کو تھانے لے جایا گیا، وہاں تھانے دار نے اسے لتر مارنا شروع کر دیے، ماں بیٹے کی محبت میں تھانے پہنچ گئی، ماں نے دیکھا بیٹے کو لتر پڑ رہے ہیں اور ہر لتر پر اس کے منہ سے نکل رہا ہے "ہائے او میری ماں " ماں نے یہ منظر دیکھا اور اونچی آواز میں کہا "صدقے جاواں وے تھانے دارا تم نے اسے آج کم از کم ماں تو یاد کرا دی" چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا ہم عمران خان اور اس کے دھرنے کے خلاف ہیں لیکن ہم اس کے باوجود اس کے صدقے جا رہے ہیں، اس نے کم از کم حکومت کو پارلیمنٹ تو یاد کرا دی، آج حلف لینے کے بعد پوری حکومت پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے۔

چوہدری اعتزاز احسن کی تقریر توہین آمیز تھی، پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو 2014 میں دودھ میں مینگنیاں نہیں ڈالنی چاہیے تھیں، پارٹی کے اپنے لوگوں نے بے عزت کر کے حکومت کا ساتھ دینے کی حکمت عملی کو پسند نہیں کیا تھا مگر اس کے باوجود چوہدری صاحب کی بات ٹھیک تھی، ہماری حکومتیں صرف اس وقت پارلیمنٹ کو یاد کرتی ہیں جب ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچتا، ماں ہمیشہ لتروں کے درمیان ہی یاد آتی ہے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، ہم اگر چوہدری اعتزاز احسن کی مثال کو آج کے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں آج بے اختیار یہ کہنا پڑے گا "صدقے جاواں مولانا، آپ نے کم از کم حکومت کا سریا تو نکال دیا"۔

یہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی "شان دار" ترین حکومت ہے، حکومت کی پرفارمنس صفر، ڈیلیوری صفر، عقل صفر، قوت فیصلہ صفر اور میرٹ صفر، یوٹرن میں گولڈ میڈل، حماقتوں میں سپر اسٹار، زبان درازی کے امام اور کم عقلی کے پیغمبر!یہ ہے ہماری حکومت، یہ کمبی نیشن اگر یہاں تک رہتا تو بھی شاید قوم برداشت کر جاتی لیکن آپ ان کا تکبر، ان کا غرور، ان کی غیر سنجیدگی اور ان کی انا ملاحظہ کیجیے، یہ روز اٹھ کر آسمان کی طرف تھوکتے تھے، آپ کسی وزیر کی گفتگو سن لیں آپ کو یوں محسوس ہو گا یہ ابھی کرسی سمیت پرواز کرے گا اور سیدھا جا کر مریخ پر لینڈ کر جائے گا، میں 27 سال سے صحافت میں ہوں، میں نے آج تک کوئی حکومت اتنی "من حیث المتکبر" نہیں دیکھی، خان تو خان، خان کے چپڑاسیوں کی گردنوں میں بھی فولاد تھا، ان لوگوں نے 14 ماہ میں پورے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں مگر آپ اس کے باوجود ان کی گفتگو سنیں، یہ اپنی ہر حماقت کو بھی ماضی کی جھولی میں ڈال دیں گے اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور اگر آپ یہ گستاخی کر بیٹھیں "جناب آپ کا سفید تھوڑا سا میلا ہے" تو یہ آپ سے لڑ پڑیں گے، قوم ایک سال سے پرویز خٹک اور شفقت محمود جیسے مفکرین کی شکل کو ترس گئی تھی۔

یہ اپنے دفتر کو بھی تشریف آوری کے قابل نہیں سمجھتے تھے لیکن مولانا کے صدقے جائیں ان کی برکت سے قوم کو پوری حکومت کی زیارت بھی ہو گئی، قوم نے وزراء کی آوازیں بھی سن لیں اور ان کی گردنوں کے سریے بھی نکل گئے، یقین کریں قوم کو سریوں کے بغیر گردنیں دیکھ کر جتنی خوشی ہو رہی ہے ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے چناں چہ میں پوری قوم کی طرف سے مولانا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، صدقے جاواں مولانا آپ کی برکت سے سریے بھی غائب ہو گئے اور قوم کو پرویز خٹک، اسد عمر اور شفقت محمود کے منہ سے یہ سننے کا موقع بھی مل گیا لانگ مارچ اور دھرنا برا ہوتا ہے، یہ جمہوریت کی توہین ہوتا ہے اور یہ کوئی جمہوریت نہ ہوئی جتھے آئیں اور حکومت کو چلتا کر دیں وغیرہ وغیرہ۔

شکر ہے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو کم از کم یہ تو معلوم ہو گیا معاہدے کتنے عظیم ہوتے ہیں اور ریڈزون، وفاقی سیکریٹریٹ، وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ کتنے مقدس ادارے ہیں اور ان کی طرف قدم بڑھانے کا مطلب ملک کے مقتدر اداروں کی توہین ہوتی ہے، صدقے جاواں مولانا آپ نے کم از کم حکومت کو ریڈزون اور معاہدوں کی حرمت تو سمجھا دی، آپ نے ان کو یہ تو بتا دیا ہجوم جب حکومتوں کا محاصرہ کرتے ہیں تو ریاست کتنی کم زور، ملک کتنا پیچھے چلا جاتا ہے اور آپ نے عوام کو بھی یہ سمجھا دیا 2014 میں پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہوا تھا اور یہ لوگ آج اپنے دھرنے کو حلال اور مولانا کے مارچ کو حرام قرار دے کر کس منافقت کا اظہار کر رہے ہیں۔

میں یہاں مولانا کی ایک اور خوبی کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں، ہم مولویوں کو غیر تہذیب یافتہ اور ان پڑھ سمجھتے تھے لیکن ہم نے اس آزادی مارچ میں علماء کرام، مدارس کے طلباء اور مذہبی طبقے کا ایک نیا روپ دیکھا، مولانا فضل الرحمن کا مارچ کراچی سے شروع ہوا اور یہ ساڑھے چودہ سوکلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد پہنچا، مولانا کے آزادی مارچ نے واقعی راستے میں کوئی پتا توڑا اور نہ ہی گملا، پوری قوم نے دیکھا لاہور میں میٹرو کے ٹریکس پر بھی لوگ موجود تھے اور پلوں پر بھی، تقریریں بھی چل رہی تھیں اور میٹرو بھی رواں دواں تھی، کسی بس کے سفر میں کوئی تعطل نہیں آیا، یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارچ ہے۔

جس میں اب تک کوئی شیشہ نہیں ٹوٹا، کسی نے کسی سرکاری یا پرائیویٹ پراپرٹی پر حملہ نہیں کیا، مارچ نے کوئی سڑک بلاک نہیں کی اور کسی گاڑی کو نہیں روکا تاہم حکومت نے پورے شہر کو کنٹینرستان بنا دیا ہے، آپ کو اگر 2014 کا دھرنا یاد ہو تو آپ کو یہ بھی یاد ہو گا ملک کی مہذب ترین جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں نے اس میں کیا کیا تھا؟ علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں نے ریڈزون کی مت مار کر رکھ دی تھی، خندقیں بھی کھودی گئی تھیں، قبریں بھی اور درخت اور پودے بھی برباد کیے گئے تھے، سرکاری املاک کو بھی کھل کر نقصان پہنچایا گیا تھا، پانی کی مین لائن تک توڑ دی گئی تھی اور بجلی براہ راست کھمبوں اور مین لائنز سے اڑا لی گئی تھی، 2014کے دھرنے کو قوم نے برداشت کیا تھا جب کہ مولانا کے ضبط نے لوگوں کو حیران کر دیا، کاش پاکستان کی تمام تحریکیں، تمام مارچز اور تمام دھرنوں میں یہی اسپرٹ ہو، ہم سب اتنے ہی مہذب ہو جائیں۔ مولانا کرنا کیا چاہتے ہیں؟

ہم اب اس طرف آتے ہیں، میرا خیال ہے مولانا ریڈزون بھی جائیں گے اور وفاقی سیکریٹریٹ، وزیراعظم سیکریٹریٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کا گھیراؤ بھی کریں گے اور اگر حکومت نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو یہ پورا ملک جام کر دیں گے، حکومت کی کوشش ہے یہ خود درمیان سے نکل جائے اور یہ لڑائی مولانا اور اداروں کے درمیان شفٹ ہو جائے، یہ اگر ہو گیا تو یہ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہو گی، مولانا پھر ایک استعفے تک محدود نہیں رہیں گے، یہ مزید استعفوں کا مطالبہ کریں گے، یہ نام لے لے کر خوف ناک تقریریں کریں گے اور ٹیلی ویژن چینلز یہ تقریریں دکھانے پر مجبور ہو جائیں گے، اللہ ہمیں اس وقت سے بچائے، یہ تحریک اگر درمیان میں نہ رکی اور اپوزیشن اور حکومت میز پر نہ بیٹھی تو پھر یہ سلسلہ قومی حکومت پر جا کر رکے گا یا پھر محمد میاں سومرو کی سربراہی میں نئی حکومت بنے گی اور یہ ڈیڑھ سال بعد الیکشن کرا دے گی، نئے پاکستان کی حکومت کو اب قسمت ہی بچا سکتی ہے، ٹونے اور جادو بہرحال فیل ہو چکے ہیں، حکومت کا ہر نیا دن اب ایکسٹینشن پر چل رہا ہے، یہ ایکسٹینشن کتنی دیر ان کا ساتھ دیتی ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے تاہم میں ایک بار پھر مولانا کو داد دینا چاہتا ہوں، صدقے جاواں مولانا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz