ریاست پگھل رہی ہے
"میں بس آئندہ ریاست پر اعتبار نہیں کروں گا خواہ مجھے نوکری سے برخاست کر دیا جائے یا قید کر دیا جائے" اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور گلہ بجھا بجھا، بلغمی بلغمی سا تھا، میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ بولا "ہمیں حکم دیا گیا آپ نے مارچ روکنا ہے اور ساتھ ہی ہم سے ہمارا اسلحہ بھی لے لیا گیا، ہمارے پاس صرف ڈنڈے تھے، ہم نے ڈنڈوں سے مارچ روکنا شروع کر دیالیکن دوسری طرف سے مسلح جواب آیا اور ہمارے ساتھی گرتے چلے گئے۔
سات ساتھی شہید بھی ہو گئے، کانسٹیبل غلام رسول عاشقان رسول کے ہاتھوں شہید ہوگیا، ہمارے ایک ساتھی کی چھ ماہ کی بچی تھی، اس کی بیوی زچگی کے دوران انتقال کر گئی تھی اور وہ 27اکتوبر کو شہید ہو گیا یوں چھ ماہ کی بچی دوسری بار یتیم ہو گئی، ہمارے اڑھائی سوجوان زخمی ہوئے، ان میں 70 شدید زخمی ہیں، کسی کی آنکھ چلی گئی، کسی کی ٹانگ اور کسی کا بازو، ہمارے ایک ساتھی کی لاش کل کھیتوں سے ملی، اسے اتنا مارا گیا تھا کہ اس کے تمام اندرونی اعضاء پھٹ گئے، یہ زخمی، یہ لاشیں ہم سے پوچھ رہی ہیں ہمارا کیا قصور تھا؟ کیا ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم نے حکومت کے حکم کو سیریس لے لیا تھا اور ہم ریاست کی رٹ اسٹیبلش کرنے کے لیے میدان میں آگئے تھے، ہم بھی اگر اپنے ساتھیوں کی طرح ڈیوٹی سے غائب ہو جاتے توحکومت ہمارا کیا بگاڑ لیتی؟
ہم ریاست کے بھروسے پر لاشیں بن گئے اور ریاست نے اگلے دن یوٹرن لے لیا" میرے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا، وہ جوان تھا، اس کی زندگی اور کیریئر ابھی باقی تھا، میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تاہم میں نے اسے آہستہ سے مشورہ دیا "نوکری کو نوکری سمجھو، جہاد نہ بنائو، بچ بچا کر زندگی گزارو، کار سرکار میں سرکاری ملازمین کی لاشیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، حکومتیں اپنا فائدہ دیکھتی ہیں۔
اگر انہیں دو چار سو لاشوں کے بعد بھی اقتدار کے دو تین دن مزید مل جائیں تو یہ انہیں بھی فوراً قبول کر لیا کرتی ہیں، زندگی بال جیسا باریک پُل ہے، ہم نے اس کے اوپر سے گزرنا بھی ہوتا ہے اور خود کو گرنے سے بھی بچانا ہوتا ہے، آپ آگے بھی بڑھو اور گرنے سے بھی بچ کر رہو، یہ ہی زندگی ہے" اس نے آنسو پونچھے، تھوڑا سا مسکرایا اور پھر بولا "سر میں زندگی میں اب کبھی ریاست پر اعتبار نہیں کروں گا، میں صرف نوکری کروں گا"میں نے شرم سے سر جھکا لیا۔
وہ چلا گیا لیکن میں تین دن سے اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں "کیا ہم یہ ملک واقعی چلانا چاہتے ہیں " میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں مجھے اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل رہا، ٹی ایل پی نے ریاست کے رہے سہے بھرم کا بھی جنازہ نکال دیا، ہم میں سے کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کیا پاکستان ایک اسلامی ملک نہیں اور کیا ہم سب عاشق رسولؐ نہیں ہیں اور کیا جی ٹی روڈ، پولیس، حکومت اور مسلمان عوام نے گستاخی کی تھی؟
گستاخی 2007ء میں ہوئی تھی، گستاخ ملعون لارس ولکس ذلت کی موت مر چکا ہے، اہل مغرب بھی اسلامی دنیا کے ردعمل پر اپنے رویوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں لیکن ہم ملعون گستاخوں کی گستاخی پر15برسوں سے اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، ہم اپنی املاک اور اپنی ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کیا ہماری نظر میں کانسٹیبل غلام رسول، اے ایس آئی محمداکبراورابوبکر اصل مجرم ہیں اور کیا ہمارے لیے ان کا قتل جائز تھا؟
دوسرا سنی علماء کرام نے چھ ماہ قبل جیل میں سعد رضوی صاحب سے ملاقات کی تھی، رضوی صاحب نے نو گھنٹے کے مذاکرات کے بعد فرنچ سفیر کا مطالبہ واپس لے لیا تھا اور یہ ایشو اس کے بعد کالعدم کا لفظ ہٹانے، فورتھ شیڈول سے انخلاء، اکائونٹس کی بحالی، میڈیا سے پابندی ہٹانے اور سعد رضوی سمیت تمام کارکنوں کی رہائی تک محدود ہو گیا تھا لیکن پھر یہ اچانک دوبارہ ناموس رسالتؐ کا ایشو کیسے بن گیا، یہ خون ریزی تک کیسے چلا گیا؟ کیا ہم اس ملک میں یہ سوال پوچھ سکتے ہیں؟ ٹی ایل پی سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے، اسے سیاست کا پورا پورا حق ہے لیکن اسے کسی مذہبی نعرے کی بنیاد پر سڑکیں بند کرنے کا حق کس نے دیا، اسے پولیس پر حملے کا اختیار بھی کس نے دیا؟
لیکن بات پھر 2014ء کے دھرنوں کی طرف نکل جاتی ہے، آج کے وزیراعظم جب ماضی میں سول نافرمانی کا اعلان کرتے تھے، جب پورا ملک بند کرنے کا حکم دیتے تھے اور یہ جب کرینیں لے کر پارلیمنٹ ہائوس پرچڑھ دوڑے تھے تو ریاست نے اس وقت انہیں نہیں روکا تھا لہٰذا ریاست اب ٹی ایل پی کو کس منہ سے روکے گی؟ یہ وقت کی وہ گانٹھ ہے جو ہمیں اب دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہے اور یہ نہ جانے کب تک کھولنی پڑے گی۔
ہم اب حکومت کی طرف آتے ہیں، سنی علماء کرام نے جب چھ ماہ پہلے معاملات طے کر دیے تھے تو آپ سعد رضوی کو اس وقت رہا کردیتے، آپ اس وقت کالعدم کا نوٹی فکیشن واپس لے لیتے، ٹی ایل پی کو فورتھ شیڈول سے نکال دیتے، اکائونٹ کھول دیتے اور کارکنوں کو رہا کر دیتے، آج کم از کم ریاست کا بھرم تو بچ جاتا، پولیس کی لاشیں تو نہ گرتیں اور آدھے پنجاب کی پولیس زخمی تو نہ ہوتی، دوسرا آپ جب وعدے پورے نہیں کر سکتے تھے تو آپ نے ٹی ایل پی کے ساتھ چار معاہدے کیوں کیے تھے؟ کیا ریاستیں اس طرح منافقت کیا کرتی ہیں؟
تیسرا وزیراعظم نے 27 اکتوبر کو کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا ہم ریاست کی رٹ اسٹیبلش کریں گے، ہم پوری فورس کے ساتھ انہیں روکیں گے، وزیراعظم کے حکم پر فواد چودھری اور شیخ رشید نے بھری پریس کانفرنس میں ریاستی رٹ کا اعلان کر دیا، پنجاب حکومت نے بھی وزیراعظم کے حکم پر رینجرز بلا لی اور اسے گولی چلانے کا اختیار بھی دے دیالیکن پھر اچانک حکومت ایک ہی رات میں آسمان سے زمین پر آ گئی اور اس نے دہشت گردی کا الزام بھی واپس لے لیااور یہ کالعدم ختم کرنے، بھارتی مدد کا دعویٰ واپس، اکائونٹس اور سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے اور سات دن کے اندر سعد رضوی اور دو ہزار کارکنوں کی رہائی کے لیے بھی تیار ہو گئی، کیوں، آخر کیوں؟ آپ نے اگر یہ ہی کرنا تھا تو پھر آپ کو دھمکیاں دینے کی کیا ضرورت تھی؟
آپ نے بلاوجہاتنے لوگ مروا دیے اور پوری دنیا میں ملک کا تماشا بھی بنا دیا، میرا ذاتی خیال ہے وزیراعظم نے شیخ رشید اور فواد چودھری کو آگے لگا کر ان سے کسی گستاخی کا بدلہ لیا ہے، وزیراعظم نے ان دونوں کا سیاسی کیریئر ختم کر دیا، یہ اب مذہبی ووٹرز سے ووٹ نہیں مانگ سکیں گے اور ان کی سلامتی بھی خطرے میں رہے گی، مجھے مفتی منیب الرحمن نے خود بتایا "ہم جب فائنل رائونڈ کے لیے گئےتو میں نے وزیراعظم سے کہا، شیخ رشید اور فواد چودھری فسادی ہیں، ہم ان کے ہوتے ہوئے مذاکرات نہیں کریں گے اور میرے مطالبے پر وزیراعظم نے دونوں وزراء کو سائیڈ پر کر دیا اور یوں شاہ محمود قریشی، علی محمد خان اور اسد قیصر نے معاہدے پر دستخط کیے اور طاقتور ترین شخصیات نے عمل درآمد کی گارنٹی دی"۔
یہ ہے حکومت کی وہ رٹ جو یہ اسٹیبلش کرنا چاہتی تھی اور اس رٹ کے بعد وفاقی وزراء کھلے عام معاہدے کو گرینڈ سرینڈر قرار دے رہے ہیں، حقائق یہ ہیں، وزیراعظم نے 27اکتوبر کوجب حکومتی رٹ اسٹیبلش کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو حکومت کو میڈیا میں اس فیصلے کی تائید کے لیے وزراء نہیں مل رہے تھے اور معاہدے کے بعد بھی وزراء اب یوٹرن کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ حیرت سے کبھی فواد چودھری اور شیخ رشید کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی شاہ محمود قریشی کی جانب اور پھر اپنے آپ کی طرف دیکھتے ہیں۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں ! آپ ہماری قوت فیصلہ دیکھیے، اکتوبر 2020ء میں ایک فرنچ ٹیچرسیموئل پیٹی نے اپنے طلباء کو گستاخانہ خاکے دکھائے، ایک مسلمان طالب علم نے ردعمل میں اسے قتل کر دیا، فرنچ صدر ایمانوئیل میکخواں نے گستاخ ٹیچر کی حمایت کر دی اور پوری مسلمان دنیا فرنچ صدر کے خلاف ابل پڑی، اسلامی ملکوں نے فرانس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنا شروع کر دیے، ہمیں چاہیے تھا ہم بھی اس ریلے میں ٹی ایل پی کے مطالبات مان لیتے یوں یہ ایشو، ایشو نہ بنتالیکن ہم جوتے اور پیاز دونوں کھاتے چلے گئے اور آج پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس میں یہ ایشو موجود ہے، آج ہم سے یورپی یونین بھی ناراض ہےاور ہمارے اپنے لوگ بھی سڑکوں پر ہیں، ہم نے اس کھیل میں کیا کمایا؟
میں پانچ سال سے انکار کر رہا ہوں لیکن میں آج تسلیم کرتا ہوں ہم واقعی کسی گہری سازش کا شکار ہیں یا ہم کسی ایسے قومی پاگل پن میں مبتلا ہو چکے ہیں جس میں ہم نے ملک کے تمام اہم اختیارات ذہنی طور پر غیر متوازن لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں اور یہ لوگ اس ملک کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں جو دشمن بھی دشمنوں کے ساتھ نہیں کرتے، آنکھیں کھولیں یہ ریاست تیزی سے پگھل رہی ہے، ہم نے اگر پاگل پن کایہ سلسلہ نہ روکا تو یہ ملک ایک دو برسوں میں چناب کا پُل بن جائے گا۔
آپ کو اگر یقین نہ آئے توآپ دو سوالوں کا جواب دے دیں، کیا اس معاہدے کے بعد آئی جی پنجاب رائوسردار علی خان اپنی فورس سے کام لے سکے گا، کیا یہ اپنے جوانوں کا سامنا کر سکے گا اور دوسرا سوال اگر خدانخواستہ یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا تو کیا ہم اگلے معاہدے کی گارنٹی کے لیے امام کعبہ کو بلائیں گے اور کیا پولیس امریکا سے آئے گی؟ لہٰذا خدا خوفی کریں، اس ملک پر رحم کریں، یہ اپنی اوقات سے زیادہ سزا بھگت چکا ہے، اس میں مزید سکت نہیں رہی چناں چہ بس کر دیں۔