پلیز امریکا کو انکار کر دیں
اردشیر ساسانی خاندان کاپہلا بادشاہ تھا، ساسانی خاندان نے ایران میں سوا چار سو سال حکومت کی، خاندان کا آخری بادشاہ یزدگرد تھا، حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں اسلامی لشکر نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی قیادت میں قادسیہ کے مقام پر یزدگرد کو شکست دی اور یوں ساسانی خاندان کا دور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
یزدگردآخری حکمران تھا جب کہ ارد شیر پہلا، اردشیر ایک سمجھ دار، مفکر اور نیک دل بادشاہ تھا، آپ کو سعدی شیرازی کی گلستان اور بوستان میں اس کی نیک دلی، شرافت اور معاملہ فہمی کی درجنوں حکایات مل جائیں گی، اردشیر کا ایک قول آج بھی ایران میں مشہور ہے، یہ قول ساسانی کی بنیاد تھا، اس نے کہا تھا "قدرت بے لشکر و لشکر بے زرو زربے زراعت، و زراعت بے عدالت و حسن سیاست نشور" یعنی سلطنت طاقتور فوج کے بغیر ممکن نہیں ہوتی، فوج مال ودولت کے بغیر نہیں بن سکتی، مال و دولت تگڑی زراعت کے بغیر ممکن نہیں اور زراعت انصاف اور امن و امان کے بغیر ممکن نہیں، یہ بظاہر ریاست سازی کا چھوٹا سا نسخہ ہے لیکن یہ بباطن سب کچھ ہے۔
اردشیر نے آج سے 18سو سال پہلے فرما دیا تھا ریاست کے پانچ ستون ہوتے ہیں اور یہ ستون ایک دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے، اردشیر کا یہ فلسفہ کل بھی ایران کی بنیاد تھا اور یہ آج بھی ہے، ایران نے کسی دور میں تگڑی فوج، مال ودولت، زراعت، انصاف اور امن و امان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، یہ اس ریاست کا وہ کمال ہے جس کی وجہ سے ایران خوف ناک عالمی پابندیوں کے باوجود نہ صرف سلامت ہے بلکہ یہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی کھڑا ہے، اس نے مشکل ترین حالات میں بھی امن وامان، انصاف، زراعت، مال ودولت اور فوج کو کم زور نہیں ہونے دیا۔
ایران کا موجودہ نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، سیاسی اور مذہبی، ایران کی سیاسی حکومت صدر کے زیر انتظام چلتی ہے، ریگولر آرمی ارتش کہلاتی ہے اور اس کا سربراہ کمانڈر انچیف ہوتا ہے، ارتش کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہوتا ہے جب کہ ملک کی مذہبی حکومت آیت اللہ کے ماتحت ہوتی ہے، یہ ایران سمیت پوری دنیا کی شیعہ کمیونٹی کے روحانی سربراہ ہوتے ہیں، ان کی اپنی فوج ہوتی ہے۔
یہ فوج پاس داران انقلاب یعنی اسلامک ریولوشنری گارڈکارپس (آئی آر جی سی) کہلاتی ہے، یہ مجاہدین کی فورس ہے اور یہ براہ راست آیت اللہ کو جواب دہ ہوتی ہے، پاس داران کے دو حصے ہیں، گراؤنڈ فورسزاور قدس فورس، پاس داران کی دوسری فورس "قدس بریگیڈ" ایرانی سرحدوں سے باہر آپریٹ کرتی ہے، مثلاً شام، عراق اور یمن میں لڑنے والی شیعہ فورس کا تعلق قدس بریگیڈ سے ہوتا ہے۔
اس بریگیڈ میں بھی دو قسم کے لشکر ہیں، زینب یون اور فاطمہ یون، زینب یون کے جوان پاکستان سے بھرتی کیے جاتے ہیں، یہ پارہ چنار، گلگت، سکردو اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے لیے جاتے ہیں، ایران میں انھیں ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر انھیں لڑنے کے لیے شام، عراق اور یمن بھجوا دیا جاتا ہے جب کہ فاطمہ یون کے لیے جوان افغانستان سے بھرتی ہوتے ہیں، جنرل قاسم سلیمانی قدس بریگیڈ کے سربراہ تھے۔
یہ 21برسوں سے پاس داران انقلاب کا حصہ تھے، یہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی مضبوط ترین شخصیت تھے، ایران کے گوریلا فوجی ان کی سربراہی میں شام، یمن اور عراق میں لڑ رہے ہیں، جنرل قاسم سلیمانی نے پچھلے پانچ برسوں میں امریکا کو شام میں ناک سے چنے چبوا دیے، یہ عراق اور یمن میں بھی امریکا اور سعودی عرب کو لے کر بیٹھ گئے، جنرل قاسم سلیمانی عراق میں دو پرائیویٹ ملیشیا بھی چلا رہے تھے، یہ ملیشیا امریکی فوجیوں اور امریکا کے عراقی ایجنٹس کو نشانہ بنا رہی تھی، سی آئی اے نے دسمبر میں دونوں ملیشیا کے لوگ مارنا شروع کر دیے۔
جنرل قاسم سلیمانی نے بدلا لینے کا فیصلہ کیا اور 31دسمبر کوہزاروں مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پردھاوا بول دیا، عمارت کو آگ لگ گئی، مظاہرین نے سیکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے اور سفارتخانے کی عمارت پر حزب اللہ کا پرچم بھی لہرا دیا اور جنرل قاسم سلیمانی یمن میں بھی امریکی اہداف کو نشانہ بنا رہے تھے، امریکا کو وہاں بھی ہزیمت کا سامنا تھا۔
لہٰذا امریکی صدر نے جنرل قاسم سلیمانی کوقتل کرنے کا فیصلہ کر لیا، امریکا کے پاس دو آپشن تھے، یہ سی آئی اے یا ایران میں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرا دیتا یا پھر یہ ان پر سیدھا حملہ کر دیتا، صدر ڈونلڈٹرمپ نے دوسرا طریقہ اختیار کیا، جنرل قاسم تین جنوری کو اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے، یہ سرکاری دورے پر عراق آئے تھے۔
یہ رات ایک بجے بغداد کے ہوائی اڈے سے باہر نکلے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر سی آئی اے نے ان پر ڈرون حملہ کر دیا، جنرل قاسم سلیمانی اور پاس داران انقلاب کے نائب ابو مہدی المہندس سات ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے، یہ امریکا کی طرف سے براہ راست حملہ تھا، امریکا ردعمل سے واقف تھا لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے باوجود انتہائی قدم اٹھایا، اس کی وجہ بظاہر سمجھ نہیں آ رہی، پوری دنیا جانتی ہے ایران کے پاس دو ہزارکلو میٹر تک وار کرنے والے میزائل بھی موجود ہیں اور یہ خفیہ طور پر جوہری طاقت بھی ہے، یہ برسوں قبل ایٹم بم بنا چکا ہے، امریکا کی طرف سے ایران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے مگر امریکی صدر نے اس کے باوجود یہ قدم اٹھایا، کیوں؟ آخر کیوں؟
ہمیں اس کے جواب کے لیے اسلامی دنیا کی بیس سال کی تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا، بیس سال قبل دنیا میں چھ مضبوط اسلامی فوجیں تھیں، عراق، لیبیا، شام، ترکی، ایران اور پاکستان، یہ چھ فوجیں اگر مل جاتیں تو یہ یورپ، امریکا اور اسرائیل کو ناک سے چنے چبوا دیتیں، بڑی طاقتیں اس سچائی سے واقف تھیں لہٰذا امریکا نے خاص تکنیک سے یہ فوجیں ختم کرنا شروع کر دیں، صدام حسین کو اکیلا بھی کیا گیا اور اسلامی دنیا کا ولن بھی بنا دیا گیا اور پھر 2003 میں حملہ کر کے صدام حسین اورعراق کی فوج دونوں تباہ کر دیں، لیبیا کے کرنل قذافی اور فوج کو 2011 میں تباہ کر دیا گیا۔
شام میں مارچ 2011 میں حالات خراب ہوئے اور یہ ملک اوراس کی فوج دونوں تباہ ہوتے چلے گئے، اگر روس اور ایران شام کے صدر بشار الاسد کا ساتھ نہ دیتے تو یہ ملک اس وقت تک عراق بن چکا ہوتا، ترکی میں فوج نے جولائی 2016 میں طیب اردگان کے خلاف بغاوت کر دی، یہ بغاوت بھی امریکا سے سپانسرڈ تھی اور اس کا مقصد طیب اردگان، ترک معیشت اور فوج تینوں کا خاتمہ تھا، بغاوت ناکام ہو گئی لیکن ترک فوج کو شدید نقصان پہنچا، فوج 127جنرلز اورسینئر افسروں سے محروم ہو گئی۔
سویلین اور فوج کے درمیان غلط فہمی کی دیوار بھی کھڑی ہو گئی اور آخر میں ایران اور پاکستان بچ گئے، یہ اب بڑا ہدف ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی فوج کو کسی بڑی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستانی فوج مضبوط بھی ہے، قوم بھی اس کے ساتھ ہے اور یہ ایٹم بم کی مالک بھی ہے، یہ چالیس سال سے امریکا کا ہدف ہے۔
یہ ہدف مزید کلیئر ہوتا چلا جا رہا ہے، ہمیں معاشی لحاظ سے بھی پھنسا دیا گیا ہے، ہم آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں بھی ہیں اور ہم سعودی عرب اور یو اے ای کے قرض دار بھی ہیں، امریکا اگر ایک اشارہ کردے تو ہم "ڈیفالٹ" ہو جائیں، ہمیں پٹرول اور ادویات تک نہ ملیں، امریکا اگر آج اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہے تو یہ بڑی آسانی سے ایک تیر سے دو شکار کر سکتا ہے۔
ایران امریکا سے جنرل قاسم سلیمانی کا بدلا لے اور امریکا جواب میں ایران پر حملہ کر دے، امریکی فوج کو اس حملے کے دوران پاکستان کی ضرورت پڑ جائے گی، ایران کے خلاف ہمارے ہوائی اڈے بھی استعمال ہوں گے اور زمین بھی اور یہ وہ آغاز ہے جس کے آخر میں ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جائیں گے، ایران ہمیں مارے یا پھر ہم ایران کو ماریں فائدہ بہرحال امریکا کو ہو گا، یہ صورت حال ہمارے لیے انتہائی خطرناک ہو گی۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا نقصان پاکستان کو ہوگا لہٰذا ہم اگر حقیقی معنوں میں دیکھیں تو امریکا نے تین جنوری کو جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملہ نہیں کیا، یہ پاکستان پر حملہ تھا، کیوں؟ کیوں کہ ایران کا ردعمل جو بھی ہو گا اس کا کوئی نہ کوئی ملبہ پاکستان پر ضرور گرے گا، ہم کسی نہ کسی طرح سینڈوچ ضرور بنیں گے۔
ہمیں آج یہ جان لینا چاہیے ہم نے 1980 میں امریکا کے لیے سوویت یونین کی جنگ لڑ کر بے وقوفی کی تھی، ہم افغانستان کی جنگ کو پشاور اور لاہور کی سڑکوں پر لے آئے تھے، ہم نے 2001میں امریکا کی "وار آن ٹیرر" کا حصہ بن کر 1980 سے بڑی غلطی کی تھی، ہم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور ہم اگر اب ایران کے خلاف بھی استعمال ہو گئے تو یہ غلطی ہمیں دوبارہ اٹھ کر بیٹھنے کا موقع نہیں دے گی۔
لہٰذا میری حکومت سے درخواست ہے پلیز امریکا کو صاف انکار کر دیں، ڈٹ جائیں، قوموں کو تاریخ میں کبھی نہ کبھی گھاس کھانا پڑتی ہے، آپ گھاس کھا لیں لیکن اس جنگ سے بچ جائیں کیوں کہ یہ جنگ کسی ایک ملک کے خلاف نہیں، یہ پورے عالم اسلام کے خلاف ہے، یہ اگر چھڑ گئی تو یہ عالم اسلام کے خاتمے کا آغاز ثابت ہو گی۔
نوٹ: ہم خیال گروپ کا آٹھواں ٹور 20فروری کو مصر جائے گا، یہ ہمارا اس سال مصر کا دوسرا اور آخری گروپ ہو گا، آپ اگر اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو آپ فوری طور پر ان 03315637981، 03313334562 نمبرز پررابطہ کریں، گروپ 15 جنوری کو کلوز ہو جائے گا۔