نئی سیاسی کھچڑی
"کرکٹ اگر مذہب ہوتا تو پورا برصغیر اس مذہب کا پیروکار ہوتا" یہ فقرہ کسی نے کہا تھا اور سچ کہا تھا، یہ واقعی حقیقت ہے سارک ممالک کرکٹ کے جنون میں مبتلا ہیں اور یہ خواہ کتنے ہی منقسم کیوں نہ ہوں یہ لوگ کرکٹ پر ایک ہو جاتے ہیں، پاکستان بھی اس جنون کی اعلیٰ ترین مثال ہے، قوم اللہ اور رسولؐ کے بعد صرف کرکٹ پر اکٹھی ہوتی ہے، آپ 24 اکتوبر اور 26 اکتوبر کی مثال لے لیں، عوام مہنگائی سے بلبلا رہے تھے، حکومت نے تین برسوں میں ڈالر، پٹرول، بجلی اور خوراک کے ریٹس کے 70 سال پرانے ریکارڈ توڑ دیے۔
آپ کو ہر گھر اور ہر فرد سے فریاد کی آوازیں آرہی تھیں، پی ڈی ایم نے بھی حکومت کا محاصرہ کر رکھا تھا، ن لیگ نے راولپنڈی، خانیوال، ساہیوال اور لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا، فیصل آباد میں بھی ن لیگ کا جلسہ ہوا، پاکستان پیپلز پارٹی نے ملیرمیں جلسہ کیااور جے یو آئی نے کراچی میں بھرپور ریلی نکالی، عوام کو محسوس ہو رہا تھا اپوزیشن اس بار حکومت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دے گی، بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کا عمل جاری تھا، وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو گئی اور حکومتی پارٹی نے حکومتی وزیراعلیٰ کے خلاف بغاوت کر دی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹی فکیشن بھی جاری نہیں ہو سکا تھا اور پورا میڈیا تاخیر کا لاجک تلاش کرتا پھر رہا تھا، امریکا میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات فیل ہو رہے تھے اور حکومت مذاکرات جاری رکھنے کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں ساڑھے 10 روپے اضافہ کرنے پر مجبور ہوگئی تھی، گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے بھی پاکستانی معیشت کے ساتھ وہ سلوک شروع کر دیا تھا جو یہ 2017-18ء میں مصر کے ساتھ کر کے آئے تھے، ڈالر حکومت کے ہاتھ سے نکلا اور یہ روزانہ کی بنیاد پر پرواز کرنے لگا، افغانستان کی وجہ سے امریکا سے تعلقات بھی خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے۔
سول ملٹری ریلیشن شپ بھی نارمل نہیں رہے تھے، کالعدم سیاسی جماعت نے بھی سڑکیں بند کر دیں اور یوں پنجاب مفلوج ہو کر رہ گیا لہٰذا پورا ملک بحرانوں کی زد میں آ گیا لیکن پھر اچانک پاکستان کرکٹ ٹیم نے انڈین ٹیم کو 10 وکٹوں سے ہرا کر کمال کر دیا اور قوم اپنے سارے دکھ بھول گئی، پاکستان ایک بار پھر ایک ہو گیا، میڈیا پر اس کے بعد اگلے دو دن کرکٹ کے علاوہ کوئی خبر نہیں تھی، پاکستان کا 26 اکتوبر کو نیوزی لینڈ سے مقابلہ تھا، یہ میچ راولپنڈی کے 17 ستمبر کے واقعے کے بعد اہم ترین معرکہ تھا، نیوزی لینڈ کی ٹیم اس دن میچ سے چند گھنٹے قبل پاکستان سے اچانک واپس چلی گئی تھی، پاکستان کو اس بے عزتی پر شدید غصہ تھا، یہ اپنا غصہ چوکوں اور چھکوں کے ذریعے نکالنا چاہتا تھا اور پاکستانی ٹیم نے 26 اکتوبر کی شام یہ غصہ بھی نکال دیا، قوم اس دن بھی اپنے سارے دکھ بھول گئی۔
یہ دونوں واقعات کیا ثابت کرتے ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں ہم من حیث القوم خوشی کو ترسے ہوئے لوگ ہیں لہٰذا قوم کو جوں ہی خوشی کا کوئی نیاجھونکا نصیب ہوتا ہے یہ سارے اختلافات بھلا کر خوشیاں منانا شروع کر دیتی ہے اور دوسرا آپ جب کسی ایک ادارے میں اصلاحات کرتے ہیں، رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب کے اصول پر کام کرتے ہیں، اچھی ٹیم بناتے ہیں اور پھر اسے کھل کر کھیلنے کا موقع دیتے ہیں تو پھر آپ انڈیا اور نیوزی لینڈ جیسی تگڑی ٹیمز کو ہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیتے ہیں۔
میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ان دو مثالوں سے سبق سیکھیں، آپ تجربے نہ کریں، ایک ہی بار اہل لوگوں کی سلیکشن کریں، کرکٹ کی طرح اچھی ٹیمیں بنائیں اور پھر انہیں کام کرنے دیں، یہ ملک بدل جائے گا، دوسرا آپ خوشیوں کو ترسی ہوئی قوم کو اچھی خبریں دینا شروع کریں، آپ مہنگائی اور بے روزگاری کے ایشوز پر عوام کی نظروں میں دھول نہ جھونکیں، آپ اپنی غلطیاں تسلیم کریں، آپ یہ مان لیں آپ نے مس مینجمنٹ کے ذریعے عوام کا بھرکس نکال دیا، گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نااہل نکلا۔
یہ 2017-18ء میں مصر میں آئی ایم ایف کا سینئر ریذیڈنٹ ری پریذینٹیٹو (Senior Resident Representative)تھا، اس نے وہاں بھی لوکل کرنسی کی ویلیو گرا کر ملک کا بھرکس نکال دیا تھا، یہ اب پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک کر رہا ہے اور یہ ڈالر کو دو سو روپے تک پہنچا کر رہے گا لیکن آپ آنکھیں کھولنے کی بجائے آج بھی اسحاق ڈار کو ڈالر کو 104 روپے پر رکھنے پر برا بھلا کہہ ر ہے ہیں، جب کہ رضا باقر کو ڈالر 176 روپے تک پہنچانے کے بعد بھی شاباش دے رہے ہیں، یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟
حکومت کو اپنے اس رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور گورنر سٹیٹ بینک کو فارغ کر کے یہ ادارہ ایک بار پھر طارق باجوہ کے حوالے کر دینا چاہیے، طارق باجوہ جیسے ایمان دار اور وژنری شخص نے ملکی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا تھا، یہ روپے کی ڈی ویلیوایشن کے خلاف تھے لہٰذا حکومت نے انہیں اس جرم میں 2019ء میں عہدے سے فارغ کر دیا تھا، اسحاق ڈار حکومت کے دشمن ہی سہی لیکن یہ اپنے دور میں معیشت کا پہیہ ٹھیک چلا رہے تھے، حکومت کو چاہیے یہ ڈار معیشت پر آ جائے ملک ایک بار پھر سنبھل جائے گا، حکومت کو یہ بھی مان لینا چاہیے یہ برآمدات بڑھانے کے لیے ڈالر کو 176 روپے پر لے آئی لیکن برآمدات بڑھنا تو دور درآمدات میں بھی اضافہ ہو گیا، قرضے بھی بڑھ گئے اور مہنگائی نے بھی ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے لہٰذا پھر عوام کو حکومت کی معاشی پالیسیوں کا کیا فائدہ ہوا؟
حکومت کو اب اپنی اس غلطی کا ادراک کر لینا چاہیے، حکومت بار بار فارن ایکسچینج ریزروز کا کریڈٹ لیتی ہے، یہ کریڈٹ درست بھی ہے، ہمارے فارن ایکسچینج ریزروز اس وقت 24بلین ڈالر ہیں اور یہ ریکارڈ ہے لیکن سوال یہ ہے عوام کو اس کا کیا فائدہ ہورہا ہے؟ یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح گھر میں کھانے کے لیے روٹی نہ ہو اور گھر کاسربراہ الماری میں نوٹوں کے ابنار لگاتا چلا جائے، قوموں کو ریزروز بھی بڑھانے چاہییں لیکن عوام کے ریلیف کا بندوبست بھی کرنا چاہیے اور ہمیں بدقسمتی سے یہ ماننا ہوگا عوام سردست حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
حکومت سے جب بھی مہنگائی کے بارے میں سوال کیا جاتاہے تو یہ ضروریات زندگی کی قیمتوں کو عالمی انفلیشن سے کمپیئر کرنے لگتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن حکومت یہ بھول جاتی ہے یورپ میں کم سے کم تنخواہیں کتنی ہیں؟ پاکستان میں مزدور 18 سے 20 ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے جب کہ یورپ میں کم از کم اجرت 1500 یورو ہے اور یہ پاکستان روپوں میں تین لاکھ پانچ ہزار روپے بنتے ہیں اور ہمارے ملک میں فیڈرل سیکرٹری کی تنخواہ بھی اتنی نہیں ہوتی چناں چہ آمدنی یورپ کے مقابلے میں چودہ گنا کم اور قیمتیں یورپ کے برابر یہ کہاں کا انصاف ہے اور عوام یہ ظلم کہاں تک برداشت کریں گے؟
حکومت کو یہ بھی ماننا ہوگا اس کی بیڈگورننس اور مس مینجمنٹ اب ملک کے تمام اداروں کو متاثر کر رہی ہے، آج سے تین سال قبل غربت صرف غریب شخص تک محدود تھی لیکن یہ اب امیروں کو بھی متاثر کر رہی ہے، امیر بھی اب ملازمین کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ ٹرینڈ خطرناک ہے، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا پاکستانی تاریخ میں پہلی بار حکومت کی غلطیوں کا خمیازہ فوج کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
لوگ اسلام آباد کی حماقتوں پر راولپنڈی کی طرف دیکھتے ہیں، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور وزراء سرعام کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی غلطیاں ریاستی اداروں کے کھاتوں میں ڈال دیتے ہیں اورریاستی اداروں کو اس کا شدت سے احساس ہو رہا ہے، عوامی رائے اور معیشت اب انہیں براہ راست متاثر کر رہی ہے اور یہ اب حکومت کو بلاوجہ سپورٹ نہیں کر رہے ہیں لہٰذا نتائج سامنے ہیں، بلوچستان میں وزارت اعلیٰ بدل گئی، خورشید شاہ جیل سے گھر آ گئے ہیں اور سڑکیں دو دن کے وقفے کے بعد ایک بار پھر بند ہو رہی ہیں اور مذاکرات کی ذمہ داری شیخ رشید کے کندھوں پر آ گری ہےچناں چہ مجھے محسوس ہوتا ہے بلوچستان کی تبدیلی پنجاب اور وفاق پر بھی اثرانداز ہو گی اور حکومت کا ہر آنے والا دن مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔
وزیراعظم کا ایک سابق معاون خصوصی توشہ خانے کی گھڑی کے ایشو پر وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے یتار بیٹھا ہے، اتحادی وزراء ایک ایک کر کے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں، یہ حکومت کا حصہ رہیں گے لیکن وزارت چھوڑ دیں گے اور یہ سلسلہ اگر ایک بار شروع ہو گیا تو پھر یہ رک نہیں سکے گا، وزیراعظم کے مشیر بھی انہیں سیاسی شہادت کےمشورے دے رہے ہیں، وزیراعظم نے نوٹی فکیشن روک کر اس کا بندوبست بھی کر لیا تھا لیکن اداروں اور اپوزیشن نے انہیں یہ موقع نہیں دیا، اپوزیشن چاہتی ہے اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں، عمران خان کو ہٹا کر قومی حکومت بنا دی جائے۔
وہ حکومت ملک کو پٹڑی پر لائے اور 2023ء میں غیر جانب دار الیکشن کرا کر اقتدار نئی حکومت کے حوالے کر دیا جائے لیکن میں اب ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں عمران خان کو جتنا اقتدار میں لانا مشکل تھا اس سے کہیں زیادہ مشکل اسے نکالنا ہے، طاقتور حلقوں کا خیال ہے یہ اقتدار سے باہر نکل کر بولیں گے اور ان کا بولنا ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو گاچناں چہ اس خدشے کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جا رہا ہے اور یہ حل اب زیادہ دور نہیں، نعیم الحق اور مفتی سعید کی ٹیپس اس حل کا ابتدائیہ ہے اور ویڈیوز اس کا نکتہ انجام ہو گا اور یہ حل جس دن مکمل ہو گیا اس دن وفاق میں بھی بلوچستان جیسا انقلاب آ جائے گا، پارٹی اقتدار میں رہے گی لیکن لیڈر بدل جائے گا۔