میڈیا دشمن نہیں
آپ ڈینگی کی مثال لے لیجیے، پاکستان میں پچھلے سال ڈینگی بخار نے شدت کے ساتھ حملہ کیا، پنجاب میں 18 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہوئے، ان میں سے 207 لوگ جاں بحق ہو گئے، ماہرین کا خیال تھا ڈینگی اگلے سال مزید شدت سے حملہ کرے گا اور ہلاکتوں کی تعداد کئی گنابڑھ جائے گی، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس پیشن گوئی کو اپنے لیے چیلنج بنا لیا۔
میاں صاحب نے سری لنکا سے ماہرین بلوائے، اپنے لوگوں کو ٹریننگ دلوائی، پنجاب بھر میں تین چار بار سپرے کروایا، ڈینگی کے خلاف معلوماتی مہم چلوائی، میڈیا نے بھی پنجاب حکومت کی مدد کی اوریوں یہ مسئلہ اس سال قریباً حل ہو گیا، پنجاب میں اس سال 126 مریض رپورٹ ہوئے جب کہ اب تک کوئی ہلاکت سامنے نہیں آئی، آپ اس مثال سے اندازہ لگا لیجیے حکومت اگر کوئی مسئلہ حل کرنا چاہے تو یہ ناممکن کو ممکن بنادیتی ہے۔ ڈینگی ایک خوفناک وباء ہے، سری لنکاڈینگی کے خلاف 1962سے لڑ رہا ہے، یہ اب تک اربوں روپے خرچ کر چکا ہے اور اسے بڑی مشکل سے 2011 میں کامیابی ملی جب کہ پنجاب حکومت نے ذرا سی توجہ سے یہ مسئلہ ایک سال میں حل کر لیا اور آج پنجاب میں ڈینگی سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی، میاں شہباز شریف اگر اسی طرح کوشش کرتے رہے تو شاید اگلے سال ڈینگی پنجاب سے فارغ ہو جائے گا، ڈینگی اب سندھ پہنچ چکا ہے، کراچی سمیت سندھ میں اب تک اڑھائی سو مریض سامنے آئے، سندھ حکومت کو چاہیے یہ پنجاب کی مہارت سے فائدہ اٹھائے، پنجاب سے ڈاکٹر اور ماہرین منگوائے، سندھ کے ڈاکٹروں کو تربیت دلوائے اور پنجاب حکومت کی اسپرٹ سے ڈینگی کا مقابلہ کرے، انشاء اللہ اگلے سال سندھ بھی ڈینگی فری ہو جائے گا۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے ہم میں مسائل سے لڑنے کا حوصلہ موجود ہے، ہم چاہیں تو ہم ایک سال میں ڈینگی جیسی وباء سے بھی نمٹ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے ہم میں اگر اتنا حوصلہ، اتنی ہمت اور اتنا پوٹینشل ہے تو ہم ملک کے باقی مسائل حل کیوں نہیں کر پا رہے، ہم پچھلے دس برسوں سے لوڈ شیڈنگ کا کیوں شکار ہیں، ہم اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کیوں نہیں کر پا رہے، ہماری پی آئی اے کیوں نہیں اڑ رہی، ہمارا ریلوے کیوں نہیں چل رہا، ہماری اسٹیل مل ترقی کیوں نہیں کر رہی، ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی، ہم غیر ملکی امداد کے نشے سے باہر کیوں نہیں آ رہے، ہم ڈرون حملوں کے کنفیوژن سے آزاد کیوں نہیں ہو رہے، ہماری پولیس بہتر کام کیوں نہیں کر رہی۔
ہم ملک کو کرپشن سے پاک کیوں نہیں کر پا رہے اور ہم اپنی معیشت کو سنبھالا کیوں نہیں دے رہے؟ اس کا جواب ایک لفظ میں چھپا ہے اور وہ لفظ ہے اہمیت۔ ہم نے آج تک ان مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی چنانچہ اہمیت نہ ملنے کی وجہ سے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنی، پالیسی نہ بننے کی وجہ سے ہم نے ایماندار، وژنری اور ماہر ٹیم کا بندوبست نہیں کیا اور ماہر ٹیم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسائل حل نہیں ہو رہے، ہم اگر ایک سال میں ڈینگی جیسی وباء کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو ہم ذرا سی توجہ، فوکس اور ہمت سے ملک کے دوسرے مسئلے بھی حل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام مسائل وبائوں سے بڑے نہیں ہیں، ہم اگر فوکس، اچھی ٹیم، میرٹ اور احتساب کے ذریعے وباء کو شکست دے سکتے ہیں تو یہ مسئلے ہرگز ہرگز بڑے نہیں ہیں۔
ہم اگر متحد ہو جائیں اور اچھے قابل لوگوں کا انتخاب کریں تو یہ مسائل چند ماہ میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے مگر بدقسمتی سے ہم لوگ مسائل اور ایشوز پر اکٹھا ہونے کے بجائے تقسیم در تقسیم اور شکوک و شبہات کے عمل سے گزر رہے ہیں، ہمارا ہر آنے والا دن ہمیں مزید تقسیم کر رہا ہے اور ہمارا ہر ادارہ دوسرے اداروں کو ملک دشمن سمجھ رہا ہے۔ آپ میڈیا، عدلیہ، سیاست اور فوج کی موجودہ لڑائی کی مثال ہی لے لیجیے، یہ چاروں ادارے اس وقت ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے بے انتہا اہمیت رکھتے ہیں، دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ کا حتمی فیصلہ ہے کوئی بھی ملک آزاد، خود مختار اور بے خوف عدلیہ کے بغیر نہیں چل سکتا، ہمیں تاریخ کے اس نتیجے تک پہنچنے میں ساٹھ سال لگ گئے، 2007میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری باوردی آمر کے سامنے کھڑے ہوئے، عوام اور میڈیا دونوں ان کے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔
اس وقت افتخار محمد چوہدری کے ساتھی ججوں اور وکلاء نے بھی ان کا ساتھ دیا، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن بھی اس تحریک میں شامل ہو گئیں، فوج عوام، سیاستدانوں، میڈیا اور عدلیہ کا رد عمل دیکھ کر نیوٹرل ہو گئی چنانچہ جج بحال ہو گئے، جنرل پرویز مشرف یونیفارم اتارنے پر مجبور ہوئے، الیکشن ہوئے، نئی جمہوری حکومت بنی اور عدلیہ اور میڈیا نے سیاستدانوں پر کام شروع کر دیا، عدلیہ نے بدعنوانی، ظلم اور زیادتی کا جو مسئلہ اٹھایا، میڈیا نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں سیاست کا گند صاف ہوتا چلا گیا، آپ این آر او کا ایشو لے لیجیے، این آئی سی ایل کا اسکینڈل لے لیجیے، حج اسکینڈل، رینٹل پاور اسکینڈل، ایفی ڈرین اسکینڈل، میمو اسکینڈل اور ایبٹ آباد کا سانحہ دیکھ لیجیے، آپ مسنگ پرسنز کا ایشو بھی لے لیجیے اور آپ آخر میں کراچی اور بلوچستان میں بدامنی کے ایشوز کا مطالعہ بھی کر لیجیے، ملکی تاریخ کی پہلی آزاد عدلیہ یہ ایشوز اٹھاتی رہی، میڈیا اس کا ساتھ دیتا رہا، فوج نیوٹرل رہی اورسیاستدان قانون کے دائرے میں آتے چلے گئے لیکن پھر میڈیا اور عدلیہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔
انسان کے دو ایسے جذبے ہیں جن کی کوئی لمٹ نہیں ہوتی، انسان آزادی اور محبت دونوں میں انتہا کو چھونا چاہتا ہے، میڈیا اور عدلیہ کی آزادی میں بھی یہی ہوا، عدلیہ آزاد ہوئی تو یہ آزاد ہوتی چلی گئی اور میڈیا بے خوف ہوا تو یہ بھی بے خوف ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کے کسی دور دراز علاقے کے کسی گائوں کے نلکے میں پانی نہ آئے تو عوام کسی چینل کو فون کر دیتے ہیں، عدلیہ میڈیا کے اس کردار کو سراہتی رہی لیکن پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے کا اسکینڈل آگیا، رئیل اسٹیٹ ٹائی کون ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان افتخار پر الزام لگایا، ملک ریاض نے نصف درجن اینکرز اور کالم نگاروں کومبینہ ثبوت دکھائے اور میڈیا نے اس ایشو کو بھی اٹھا لیا، میڈیا کی یہ " حرکت" جوڈیشری کے ہمدردوں کو پسند نہ آئی اور یوں میڈیا عدلیہ کی گڈ بکس سے خارج ہو گیا، یہ ردعمل میڈیا کے لیے حیران کن تھا۔
ہم یہ سمجھتے تھے ہم اگر آزاد ہیں تو پھر ہم ہر سیکٹر میں آزاد ہیں، ہم اگر بے خوفی سے صدر آصف علی زرداری کے مبینہ چھ ملین ڈالر کا ذکر کر سکتے ہیں، ہم اگر شریف فیملی کی ملک سے باہر موجود جائیداد پر انگلی اٹھا سکتے ہیں، ہم اگر ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کی بات کر سکتے ہیں، ہم اگر کیری لوگربل کا ایشو اٹھا سکتے ہیں، ہم اگر ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں، ہم اگر حسین حقانی کا میمو اسکرین پر لا سکتے ہیں اور ہم اگر دو مئی2011کو موضوع بنا سکتے ہیں تو ہم ڈاکٹرارسلان افتخار کی بات کیوں نہیں کر سکتے؟ مگر ہماری اس دلیل کے باوجود عدلیہ ہم سے ناراض رہی۔
سپریم کورٹ نے 19 اکتوبر کو اصغر خان پٹیشن کا فیصلہ دے دیا، اس فیصلے میں تاریخ میں پہلی بار سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم ہوا، میڈیا نے اسے بھی اٹھایا، اس سے قبل این ایل سی کے تین جرنیلوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر اور میجر جنرل (ر)خالد ظہیر اختر کا ایشو سامنے آچکا تھا، میڈیا نے اس پر بھی سوالیہ نشان لگائے تھے اور اس کے بعد نیب نے ریلوے کی زمین لیز پر دینے کے ایشو پر تین جرنیلوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید ظفر اور میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ کے خلاف کارروائی شروع کر دی، میڈیا نے جنرل جاوید اشرف قاضی کا شٹ اپ اور ایڈیٹ بھی قوم کو دکھادیا، ان تینوں ایشوز پر فوج بھی میڈیا کے ساتھ ناراض ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کیا میڈیا واقعی سیاستدانوں، عدلیہ اور فوج کا دشمن ہے، اگر یہ دشمن ہے تو پھر یہ 2007 میں اس وقت سیاستدانوں کا ہیرو کیوں تھا جب یہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف لڑ رہا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف انھیں جمہوریت کا محسن قرار دے رہے تھے، یہ ارسلان افتخار کا ایشو آنے تک اس عدلیہ کا کیوں ہیرو تھا جس کی بحالی کے لیے اس نے مار بھی کھائی، دھمکیاں بھی سہیں اور بے روزگاری بھی دیکھی، یہ ممبئی حملوں، جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ ائیر بیس اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں کے دوران ذمے دار اور محب وطن کیوں تھا اور یہ گیاری سیکٹر کے سانحے کے دوران شہیدوں کا محسن کیوں تھا، اگر ہم ماضی میں اچھے تھے توپھر ہم ڈاکٹر ارسلان افتخار اور اصغر خان فیصلے کے بعد برے کیوں ہو گئے۔
میڈیا اب اس ریاست کا اہم ستون ہے اور یہ ریاست اب اس ستون کے بغیر نہیں چل سکے گی، آپ مہربانی فرما کر اس ستون کو تسلیم کر لیں، آپ اسے اپنا حصہ سمجھیں، مسائل کی فہرست بنائیں اور عدلیہ، فوج اور حکومت میڈیا کو اپنے ساتھ شامل کرے اور ہم سب ملک کر ملک کے مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم اگر اس طرح ایک دوسرے کو غیر محب وطن، نادان اور ایڈیٹ کہتے رہیں گے تو یہ ملک نہیں بچے گا اور جب ملک نہیں رہتے تو پھر سیاستدان، عدلیہ اور فوج بھی قائم نہیں رہتی، گری ہوئی عمارت تلے دب کر سب فوت ہو جاتے ہیں۔