مینڈک جیسی زندگی
آپ نے ابن بطوطہ اور مارکو پولو کا نام سنا ہو گا، یہ کون تھے؟ یہ عام سے بھی کم تر لوگ تھے، ابن بطوطہ طنجہ کا منحنی سیاہ فام شخص تھا، ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا، تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، کام کوئی آتا نہیں تھا، جسمانی کم زوری کی وجہ سے فوج میں بھی بھرتی نہ ہو سکا۔
1325ء میں پیدل حج پر روانہ ہوا تو خاندان نے شکر ادا کیا جان چھوٹی، ابن بطوطہ 24سال دنیا کے مختلف ملکوں میں پھرتا رہا، 1349میں واپس طنجہ آیا تو یہ معلومات اور علم کا خزانہ تھا، بادشاہ اسے اپنے پاس بٹھاتے تھے اور مراکو کے رئوساء علم کے لیے اپنے بچے اس کے پاس بھجواتے تھے، یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ قیروان میں پروفیسر بھی بنا دیا گیا اور یہ آج انتقال کے 643برس بعد بھی طنجہ کی پہچان ہے، لوگ مراکو کو بھی ابن بطوطہ کا مراکو کہتے ہیں۔
ابن بطوطہ کو یہ علم، یہ مرتبہ، یہ عزت کہاں سے ملی؟ اللہ کے کرم کے بعد اس کا واحد سورس سفر تھا، یہ اگر سیاحت نہ کرتا تو یہ طنجہ کے ہزاروں لوگوں کے ساتھ گم نام مر جاتا اور آج اس کی داستان تک نہ ہوتی داستانوں میں۔ مارکو پولو بھی اس حقیقت کی شان دار مثال ہے، یہ وینس کا چھوٹا سا دکان دار ہوتا تھا، والدنکولو پولواور چچا میفیو پولوتاجر تھے، یہ 1260میں سفر پر روانہ ہوئے اور 9برس بعد واپس آئے۔
مارکو پولو نے سفر کی داستانیں سنیں تو وہ بھی ان کے ساتھ روانہ ہو گیا، وہ نالائق بھی تھا، سست بھی اور کند ذہن بھی لہٰذا وہ سفر کے دوران والد کی جھڑکیاں سنتا رہتا تھا، والد نے اسے چین کے بادشاہ قبلائی خان کے پاس گروی بھی رکھ دیا لیکن یہ نالائق شخص بعدازاں پوری دنیا میں وینس کی نشانی بن گیا، وینس آج اپنی پانی کی گلیوں اور گنڈولوں سے اتنا نہیں پہچانا جاتا جتنا یہ مارکو پولو کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، یہ بھی عالموں کا عالم بنا اور اس پر بھی ہزاروں کتابیں اور مقالے لکھے گئے، مارکو پولو کے دور کے تاجر، رئیس حتیٰ کہ بادشاہ تک فنا ہو گئے، ان کے محل، جائیدادیں اور جاگیریں بھی ختم ہو گئیں اور ان کے نام بھی تاریخ کی کتابوں سے اڑ گئے لیکن مارکو پولو اور اس کا گھر آج بھی سلامت ہے۔
لوگ آج بھی گنڈولوں میں بیٹھ کر وینس کی گلیوں میں مارکو پولو کو یاد کرتے ہیں اور اس کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے ہیں، یہ ہے سفر اور سیاحت کا کمال، یہ آپ کو علم بھی دیتی ہے، عزت بھی، شہرت بھی، رزق بھی اور مرتبہ بھی، یہ آپ کو بادشاہوں کا بادشاہ اور پروفیسروں کا پروفیسر بنا دیتی ہے، میں بار بار عرض کرتا رہتا ہوں سیاحت علم کا بہترین سورس ہے، آپ سفر کی عادت ڈال لیں، آپ کے پاس لائبریریوں سے زیادہ علم جمع ہو جائے گا، سفر آپ کو کچھ بھی نہ دے تو بھی یہ آپ کو یہ ضرور بتا دیتا ہے آپ کتنے صحت مند ہیں، یہ آپ کی میڈیکل رپورٹ، آپ کا میڈیکل ٹیسٹ ضرورت ثابت ہوتا ہے اور یہ سفر کا سب سے چھوٹا تحفہ ہے۔
میں ہر سفر سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر واپس آتا ہوں، فن لینڈ سے بھی بیشمار نئی چیزیں سیکھیں مثلاً سکینڈے نیوین ملکوں میں مدت سے استحکام ہے لہٰذا حکومتوں اور عوام کو سوچنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے، یہ لوگ انفرادیت پر کام کرتے ہیں، آپ بجلی کی مثال لے لیں، پولینڈ کوئلے سے بجلی بناتا ہے۔
سکینڈے نیوین ملک سردیوں میں پولینڈ سے بجلی لے لیتے ہیں اور گرمیوں میں جب ان کی آب شاریں، ندیاں اور دریا بہنے لگتے ہیں تو یہ پولینڈ کو بجلی واپس کر دیتے ہیں، یہ بارٹر سسٹم یورپ اور سکینڈے نیوین دونوں خطوں کی زندگی بہتر بنا رہا ہے جب کہ ہم چین، افغانستان، ایران اور ازبکستان جیسے ہمسایوں سے بھی بجلی لینے کے لیے تیار نہیں ہیں لہٰذا ہم پوری گرمیاں مچھر اور پت مار کر گزار دیتے ہیں، پورے فن لینڈ میں سڑکوں کے کنارے لائیٹس تھیں، ان کی ہر سڑک برف باری میں بھی روشن تھی، پتا چلا یہ علاقے برف باری میں انتہائی مشکل ہو جاتے ہیں چنانچہ حکومت ہر حال میں بجلی کی فراہمی جاری رکھتی ہے۔
میں آدھا مری کا باسی ہوں، آپ یقین کریں بارش اور برف میں سب سے پہلے بجلی غائب ہوتی ہے اور پھر ہفتہ ہفتہ نہیں آتی، فن لینڈ کے لوگ سردیوں میں گاڑیوں میں ونٹر ٹائر لگا لیتے ہیں، ان کی وجہ سے برف باری میں حادثے نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ پاکستان میں ونٹر ٹائر سرے سے موجود نہیں ہیں، کیا ہماری حکومت برف کے علاقوں میں ونٹر ٹائرز بھی متعارف نہیں کرا سکتی؟
پورے فن لینڈ میں ہیٹنگ سسٹم کے بغیر کوئی عمارت نہیں بن سکتی چنانچہ سردیاں ان کے لیے کھیل کی حیثیت رکھتی ہیں جب کہ ہم گرمیوں میں گرمی اور سردیوں میں سردی کی وجہ سے مرتے ہیں، ہماری حکومت اور لوگ آج تک دونوں شدید موسموں کا حل تلاش نہیں کر سکے۔ یہ لوگ پانی کے جگوں میں تازہ فروٹ کاٹ کر ڈال دیتے ہیں اور سارا دن یہ پانی پیتے رہتے ہیں، یہ اسے ٹانک واٹر کہتے ہیں، یہ اچھی روایت ہے، اس سے لوگ صحت مند رہتے ہیں یہ، بچوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں، تعلیم کا بجٹ دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے، کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں بچے قوم کا اصل دفاع ہوتے ہیں جب کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔
یہ ناشتے میں فروٹ اور بیج ضرور استعمال کرتے ہیں، واک، جاگنگ اور کشتی رانی ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے، یہ برف باری کے موسم میں ونٹر اسپورٹس کرتے ہیں اور پورا ملک سکینگ، اسکیٹنگ اور آئس ہاکی کھیلتا ہے جب کہ ہم پہلا چھینٹا پڑتے ہی اندر گھس جاتے ہیں اور پھر اپریل میں باہر نکلتے ہیں، ہمیں چار دن میں کسی جگہ پولیس دکھائی نہیں دی لیکن اس کے باوجود ہر چیز قاعدے کے مطابق چل رہی تھی، حکومت نے نارتھ پول تک سڑکیں، ہوٹل اور ریستوران بنا کر پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، لوگ گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں اور نارتھ پول تک پہنچ جاتے ہیں، پورے ملک میں رین ڈیئر اور ہسکی کتوں کے فارم ہیں۔
یہ رین ڈیئرز کا گوشت، سینگ، ہڈیاں اور کھال بیچتے ہیں، ہسکی کتے بھی بکتے ہیں اور ان کی رائیڈز بھی ہوتی ہیں، یہ لوگ صرف سانتا کلاز ویلج سے ہماری کل برآمدات کے برابر رقم کما لیتے ہیں، پورے ملک میں فلائیٹس، بحری جہاز، کشتیاں اور ہیلی کاپٹرز چلتے ہیں، آپ کوئی بھی ذریعہ استعمال کر کے ملک کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں، اوگلو تک پورے شمالی حصے میں بکھرے ہوئے ہیں، لوگ آتے ہیں اور برف کے درمیان شیشے کے کمروں میں ناردرن لائیٹس کو انجوائے کرتے ہیں، لکڑی کے گھر بنانے کی صنعت بھی نقطہ کمال کو چھو رہی ہے، میں وہاں سے درجن بھر نئے ڈیزائن لے کر آیا ہوں، برف باری میں ہوائی جہاز بھی اڑ رہے ہیں، ٹرک بھی چل رہے ہیں۔
بحری جہاز بھی، بسیں بھی اور گاڑیاں بھی، پورا ملک شدید موسم میں بھی رواں دواں ہے، کوئی چیز معطل یا بند نہیں، میں فن لینڈ میں گھومتے گھومتے بار بار سوچ رہا تھا یہ لوگ اگر شدید برف باری اور منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کو بزنس کے لیے شان دار موقع بنا سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں، ہم کیوں سردیوں اور گرمیوں دونوں میں سرنگوں میں بند ہو جاتے ہیں؟ ہم آج تک ہمالیہ کو نہیں بیچ سکے۔
ہم فیری میڈوز کو سڑک سے نہیں جوڑ سکے اور ہم گرمیوں میں بھی سکردو اور گلگت کی فلائیٹس یقینی نہیں بنا سکے جب کہ فن لینڈ نے بچوں اور بوڑھوں کو نارتھ پول تک پہنچا دیا، لوگوں کو بحری جہازوں میں بٹھا کر منجمد سمندروں میں اتار دیا اور یہ اپنی آنکھوں سے برف ٹوٹتے اور جہاز کو آگے بڑھتے دیکھنے لگے، کیا یہ کمال نہیں! ہمارا آئس بریکر شپ برف میں کھڑا تھا، لوگ اس کی نوک کے سامنے کھڑے ہو کر رسا تھام کر تصویریں بنوا رہے تھے، نوک اور رسے کے درمیان چند میٹر کا فاصلہ تھا، یہ فاصلہ ثابت کرتا تھا برف کی تہہ اتنی مضبوط ہے کہ یہ دس بیس پچاس لوگوں کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے۔
کیا یہ کسی دوسری دنیا کے انسان ہیں؟ یہ اگر اسی زمین کے لوگ ہیں تو پھر ہم ان جیسے کیوں نہیں ہیں، ہم موسموں، بیماریوں اور غربت کے ہاتھوں کیوں یرغمال ہیں؟ ہم اپنے حالات تبدیل کیوں نہیں کر پا رہے؟ میں جب بھی یہ سوچتا تھا مجھے ایک ہی جواب ملتا تھا ہم نے دنیا میں کچھ نہیں دیکھا، ہم دنیا کو دیکھیں گے تو تبدیل ہوں گے لہٰذا خدا کے لیے اللہ کی زمین اور اللہ کی دنیا دیکھیں، آپ کو پھر اپنے قد، کاٹھ اور حماقتوں کا اندازہ ہو گا ورنہ آپ بھی اپنے بزرگوں کی طرح کنوئیں کا مینڈک بن کر مر جائیں گے اور آپ کے بچے بھی اسی طرح کنوئیں کو کائنات سمجھ کر اکڑتے رہیں گے، آپ بے شک ابن بطوطہ یا مارکوپولو نہ بنیں لیکن آپ کم از کم انسان تو بن جائیں، آپ کم از کم مینڈک جیسی زندگی تو نہ گزاریں۔