جس دن (1)
اسکردو پاکستان کا خوبصورت ترین ضلع ہے، آپ اگر قدرتی حسن دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو زندگی میں ایک بار، کم از کم ایک بار اسکردو شہر، شنگریلا، کچورا جھیل، خپلو، شگر اور دیوسائی ضرور جانا چاہیے کیونکہ ان کے بغیر دنیا کا حسن مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی قدرت کی صناعی۔ میری خواہش ہے میں زندگی کے آخری دن شنگریلا میں کچورا لیک کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر گزار دوں اور میں اس عالم میں فوت ہو جائوں تو مجھے شنگریلا کے کسی گم نام قبرستان میں دفن کر دیا جائے تاکہ میری قبر سردیوں میں برف میں گم ہو جائے، بہار آئے تو بادام کے نیم سفید پتے قبر کو ڈھانپ لیں، گرمیوں میں انگور کی بیلیں اس پر سایہ کر دیں اور خزاں کے موسموں میں چنار کے سرخ پتے قبر کے دائیں بائیں دوڑتے رہیں، چاند کی لمبی راتوں میں جب چاند کچورا لیک میں غسل کے لیے آئے تو وہ ایک لمحے کے لیے، ہاں صرف ایک لمحے کے لیے میری قبر پر رک جائے اور اس کے بعد جو بھی عذاب آئے، آئے اور ہوائیں جب دنیا کے بلند ترین صحرا کی ریت ساتھ لے کراڑیں تو یہ بھی چند سکینڈ کے لیے وہاں رک جائیں اور میں چند لمحوں کے لیے ہی سہی اڑتے ہوئے تیز ذروں کی سائیں سائیں محسوس کروں اور جب سردیوں کی ٹھنڈی بدمست ہوائیں آنے والے دنوں کی نمی لے کر دوڑیں، یہ نمی بھی ایک پہر کے لیے قبر کی سل پر ٹھہر جائے اور میرا متروک، بے جان اور بے رنگ بدن اس نمی کو محسوس کرے اور اس کے ساتھ ہی گئے زمانوں کے سارے ذائقے اپنی خوشبو کے ساتھ قبر میں زندہ ہو جائیں اور کوئی شخص، گزرتا ہوا کوئی سیاح قبر کے ساتھ بیٹھ کر کافی پیئے اور جاتے ہوئے کافی کا خالی مگ وہاں بھول جائے جس طرح میں 2006ء میں اپنا مگ ایک بے نام قبر کے سرہانے بھول آیا تھا اور یہ مگ مجھے آج بھی سات سال پیچھے لے جاتا ہے، ان سات سالوں میں جب میں نے زندگی میں پہلی بار کچے بادام کا ذائقہ چکھا تھا، کھٹے انگور کھائے تھے اور جب میں نے اپنی سرخ شرٹ کا جھنڈا بنا کر قبر کے پائوں میں گاڑھ دیا تھا، سیاحت، حسن اور یاد شنگریلا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اسکردو کا شنگریلا پہلے بوسے کی طرح ہے جسے انسان نوے سال کی عمر میں بھی بھول نہیں سکتا۔
میں 2006ء میں اسکردو گیا اور اپنا بچا کھچا دل وہیں کہیں چھوڑ آیا لیکن میرا دل، اس کی بچی کھچی حسرتیں اور خپلو، شگر اور دیوسائی کی صبحیں، دوپہریں اور شامیں اور راستے کے ٹینٹ ہوٹلوں کی بد ذائقہ چائے اور دریائے سندھ کی بدمست لہریں اور اسکردو کی جھیلوں میں سلیٹی پہاڑوں کے سائے یہ ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع اسکردو میں پروان چڑھنے والی سوچ ہے، میں 2006ء میں وہاں گیا، مقامی لوگوں نے پی ڈی سی میں شام سجائی، موضوع "طالبان" تھا، میں گفتگو شروع کرنے لگا تو اسکردو کے نوجوان ڈی سی میرے کان پر جھکے اور آہستہ آواز میں مشورہ دیا " آپ اپنی گفتگو میں ایک شخصیت کا بہت ذکر کرتے ہیں، آپ یہاں یہ ذکر نہ کیجیے گا" میں نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا، انھوں نے بتایا " حاضرین شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بعض اوقات " ری ایکٹ" کر دیتے ہیں اور یوں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جاتا ہے، آپ مہربانی کر کے کوئی متنازعہ بات نہ کیجیے گا" میرے دل کے اندر دور گہرائی میں کوئی چیز ٹوٹ گئی اور میں گفتگو کے دوران اس ٹوٹی ہوئی چیز کی کرچیاں جمع کرتا رہ گیا، میں اس سے اگلے سال فیصل آباد گیا، وہاں چناب کلب میں احباب جمع تھے، میں گفتگو شروع کرنے لگا تو مقامی دوست نے کان میں مشورہ دیا، آپ بار بار شعیہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہاں اس سے پرہیز کیجیے گا، میں نے حیرت سے پوچھا " کیوں " اس نے جواب دیا، حاضرین میں اہل حدیث اور بریلوی حضرات کی اکثریت ہے، یہ لوگ جھنگ، چنیوٹ اور سرگودھا سے آئے ہیں، ان کی شیعہ کمیونٹی کے ساتھ لڑائی چل رہی ہے، مجھے خطرہ ہے آپ کویہ کہیں شیعہ یا شیعوں کا حامی نہ سمجھ لیں اور یوں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جائے گا، میرے اندر ایک بار پھر کوئی چیز ٹوٹی اور میں آج تک اس کی کرچیاں بھی جمع کرتا رہا ہوں۔
میں سولہ سال سے کالم لکھ رہا ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کالم لکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، لوگ کالموں میں کالم نگاروں کا فرقہ تلاش کرتے ہیں اور انھیں جوں ہی اس کے سنی، اہل حدیث، بریلوی، وہابی، دیوی بندی یا شیعہ ہونے کا احساس ہوتا ہے یہ اسے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں، میرے تمام دوست، میرے زیادہ تر قارئین اصرار کرتے ہیں میں کالموں اور گفتگو میں اسلام، مقدس ہستیوں اور قرآن کا حوالہ نہ دوں، میں ان سے پوچھتا ہوں کیا اللہ تعالیٰ اسلام، نبی اکرمؐ اور قرآن مجید پر میرا کوئی حق نہیں، یہ لوگ اس جواب پر مائینڈ کر جاتے ہیں، میں قرآن مجید کا ترجمہ اٹھاتا ہوں تو لوگ مترجم کا نام دیکھ کر مجھے کسی نہ کسی فرقے کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں، مجھے نماز کے دوران یہ اندیشہ رہتا ہے کہیں میرے رکوع و سجود پر کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے، مجھے روز شیعہ کمیونٹی اور سنی مکتبہ فکر کی طرف سے درجنوں متنازعہ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں، اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت مجھے کافر، منافق، دہریہ، لادین، امریکی ایجنٹ اور گستاخ قرار دے سکتا ہے اور میں دل پر ہاتھ رکھنے اور اپنے اللہ سے شکوے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا، میں 42 سال کی عمر اور 22 سال کی مسلسل صحافت کے باوجود آج تک خود کو مسلمان، پاکستانی اور پڑھا لکھا ثابت نہیں کر سکا، لوگ مجھے سفر کرنے، کتابیں پڑھنے، فلمیں دیکھنے، موسیقی سننے، شیو کرنے، سوٹ پہننے، جاگنگ کرنے، ریستوران میں کھانا کھانے اور کافی شاپ میں کافی پینے پر گالی دیتے ہیں، لوگوں کے لیے میرا مسلمان ہونا کافی نہیں، یہ مجھے کسی پیر صاحب کی بیعت میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں، یہ میرے سر پر سیاہ یا سبز پگڑی بھی چاہتے ہیں، یہ مجھے رائے ونڈ کے اجتماع، داتا صاحب کے مزار، محرم کے تعزیئے اور گیارہویں کی نیاز میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور میں اگر اللہ، اس کے رسولؐ اور قرآن مجید کو اپنے لیے کافی سمجھتا ہوں یا پھر اللہ کے حکم پر دین میں تحقیق کی کوشش کرتا ہوں تو یہ مجھے گالی بھی دیتے ہیں، میں پانچ ہزار سال سے اس خطے میں رہ رہا ہوں، میری سیکڑوں ہزاروں نسلوں نے اس مٹی میں جنم لیا اور اس کا رزق بن کر ختم ہوگئیں لیکن میں، میرا ایمان اور میرے خیالات اس خطے میں محفوظ نہیں ہیں، میں لوگوں کے چہرے، حلیے اور خیالات دیکھ کر گفتگو کرتا ہوں اور یہ میرے ملک میں میری صورتحال ہے لیکن قوم اس شاہ رخ خان کو بھی پاکستان شفٹ ہونے کی دعوت دے رہی ہے جس نے امریکی جریدے آئوٹ لک ٹرننگ پوائنٹس میں اپنے ایک آرٹیکل میں فرسٹریشن میں کہہ دیا میں ہندوستان میں ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں تنگ ہوں، یہ مجھے پاکستانی جاسوس سمجھتے ہیں اور مجھے انڈیا چھوڑ کر پاکستان جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
شاہ رخ خان مسلمان ہے، یہ اگر پاکستان میں آ جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہ ہے، کیا ہمارے لیے صرف مسلمان شاہ رخ خان کافی ہو گا، کیا اسے پاکستان آنے کے بعد اپنی بریلویت، وہابیت، سنیت اور شیعت کا امتحان پاس نہیں کرنا پڑے گا، کیا ہم اس کی ہندو بیوی اور مسلمان ہندو بچے قبول کر لیں گے، کیا اسے اپنا اسلام ثابت کرنے کے لیے پہلے شلوار کا سائز، داڑھی کا رنگ اور ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کر نماز پڑھنے کا فیصلہ نہیں کرنا ہو گا، کیا اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ اس کا شناختی کارڈ نہیں کرے گا اور کیا اسے پہلے حرام فلموں کی حرام کمائی کا حساب نہیں دینا ہو گا؟ ہم شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا یہ پاکستان آ کر کرے گا کیا؟ یہ وحشی گجر کے نام سے بننے والی کسی فلم میں کام کرے گا؟ کیا یہ لہری کی طرح علاج کو ترستا ہوا مرے گا، کیا یہ لوگوں کی شادیوں میں ناچ کر گھر چلائے گا یا پھر یہ ٹی وی ڈراموں میں کام کرے گا اور معاوضے کے لیے در در بھٹکے گا، ہم چاہتے ہیں یہ اس بھارت سے جس نے اسے دنیا کا بڑا اسٹار بنایا اس پاکستان میں آ جائے جس میں آج بھی راحت فتح علی خان، علی ظفر، عاطف اسلم، عدنان سمیع خان، غلام علی اور شفقت امانت علی کو روزی کمانے کے لیے سرحد پار کرنا پڑتی ہے، جس میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا موسیقی حرام ہے یا حلال، جس کا قومی ترانہ ساز اور آواز میں ہے لیکن موسیقی حرام ہے، جس میں آج بھی کوئی غیر مسلم پاکستان کا وزیراعظم یا صدر نہیں بنا، جس میں عیسائیوں کی پوری پوری بستیاں جلا دی جاتی ہیں، جس میں تین برسوں میں تھرپارکر کے چار ہزار خاندان مسلمانوں کے جبر کے ہاتھوں بھارت نقل مکانی کر گئے اور جس میں میلاد اور محرم کے جلوسوں کو بچانے کے لیے موبائل سروس بند کرنا پڑتی ہے اور جس میں لوگ نماز کے لیے مسجد جانے سے ڈرتے ہیں اور جس میں لوگوں نے صحابہ کرام ؓ بھی آپس میں تقسیم کر لیے ہیں۔
آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے اور جواب دیجیے اگر دلیپ کمار، شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان اور اے آر رحمان پاکستان میں ہوتے تو کیا یہ اتنے ہی بڑے اسٹار ہوتے؟ اور وہ بھارت جس میں چار مسلمان صدر گزرے ہیں اور جس میں اس وقت سکھ وزیراعظم، اطالوی خاتون کانگریس کی چیئرپرسن، سکھ آرمی چیف، مسلمان چیف جسٹس اور مسلمان وزیر خارجہ ہے، کیا وہ سماجی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے ہم سے بہتر نہیں؟ کیا ہم کسی پاکستانی ہندو، عیسائی یا پارسی کو اپنا صدر یا وزیراعظم برداشت کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا پھر ہمیں شاہ رخ خان سے ہمدردی کا کوئی حق ہے؟ وہ مسلمان ہو کر ہندو بیوی کے ساتھ ہندوستان میں رہ رہا ہے، ہندو پروڈیوسرز کی فلموں میں کام کر رہا ہے اور کروڑوں ہندو شائقین اس کی فلمیں دیکھتے ہیں، کیا یہ کافی نہیں؟ ہم نے جس دن اس ملک میں شیعہ کوسنی اور سنی کو شیعہ سے بچا لیا اور لبرل سے مولوی اور مولوی سے لبرل کو بچا لیا، ہمیں اس دن کسی شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دینا پڑے گی، یہ لوگ اور ان کے ہندو خاندان سرحد پار کرنے میں چند سکینڈ لگائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک شاہ رخ خان کو ہندوستان رہنا چاہیے کیونکہ یہ ہندوستان میں ہندوئوں سے بچ جائے گا لیکن پاکستان میں مسلمانوں سے نہیں بچ سکے گا۔