انڈیا صرف مودی کا ہے
بھیل چند کا تعلق کراچی کے ساتھ تھا، یہ ہیلتھ میں ڈپلومہ ہولڈر تھا، کلینک میں ایڈمنسٹریٹر کی جاب کرتا تھا، زندگی بہت اچھی چل رہی تھی لیکن پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہندو پاکستانیوں پر حملوں کی خبریں آنے لگیں، بھیل چند پریشان ہو گیا، یہ لوگ صدیوں سے سندھ کے باسی تھے، خاندان کے بے شمار لوگ 1947 میں بھارت شفٹ ہو گئے لیکن بھیل چند کے والد نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا، یہ لوگ بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر ملک کے حالات خراب ہوتے چلے گئے، دوسری طرف 2014میں نریندر مودی بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔
یہ کٹر ہندو ہے اور یہ بھارت میں ہندو غلبے کا حامی ہے، بھیل چند مودی کا فین تھا، یہ اس کی تقریریں سنتا رہتا تھا، اس نے محسوس کیا مجھے اب خاندان سمیت اپنے اصل وطن بھارت چلے جانا چاہیے، اس نے اپنی زمین جائیداد، گھر بار بیچا، خاندان کو ساتھ لیا اور یہ تھر ایکسپریس کے ذریعے 2014میں بھارت چلا گیا، بھارتی حکومت نے پاکستانی مہاجرین کے لیے جودھ پور میں کیمپ بنا رکھا ہے، یہ خاندان سمیت امیگریشن آفس پہنچا اور امیگریشن افسر نے اسے جودھ پور کیمپ بھجوا دیا، کیمپ دیکھ کر بھیل چند کا دل بیٹھ گیا، کیمپ سرکنڈوں، درختوں کی شاخوں اور پلاسٹک کی چادروں کی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔
پانی اور بجلی تک کا کوئی بندوبست نہیں تھا، کیمپ کی گلیاں بارش کے بعد جوہڑ بن جاتی تھیں اور یہ جوہڑ ایک آدھ دن میں کیچڑ کی دلدل میں تبدیل ہو جاتا تھا، بھیل چند پریشان ہو گیا لیکن اب پریشانی کا کوئی حل نہیں تھا، بھیل چند اور اس کا خاندان پچھلے پانچ برسوں سے اس کیمپ میں پڑا ہے، بیوی ہاتھ سے سندھی چادر (رلی) سیتی ہے، بھیل چند یہ چادریں مارکیٹ میں بیچ دیتا ہے، حکومت بھی تھوڑا سا وظیفہ دے دیتی ہے اور یوں بھیل چند کا دال دلیہ چل جاتا ہے لیکن یہ اور اس کے بچے روز پاکستان کو یاد کرتے ہیں، بھیل چند نے اپنا میڈیکل ڈپلومہ دیوار پر لگا رکھا ہے، ڈپلومے میں پاکستان کا جھنڈا اور حکومت پاکستان جلی حروف میں چھپا ہے۔
یہ بار بار کہتا ہے "پاکستان میں صرف دو مذہب کے لوگ ہیں، مسلمان اور ہندو لیکن مجھے بھارت آ کر پتا چلا یہاں ہندو بھی چار قسم کے ہیں، میں بھیل ہوں، ہندوؤں کی چوتھی ذات، میں نے مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی، مجھے برہمنوں نے روک دیا لہٰذا میں مندر کی دہلیز پر بھی قدم نہ رکھ سکا، میرا ایک بھیل دوست کنوئیں سے پانی نکالنے کی غلطی کر بیٹھا، برہمنوں نے اسے خوف ناک تشدد کا نشانہ بنایا، میں یہاں انڈیا میں بھیل بھی ہوں اور پاکستانی بھی چناں چہ مجھے یہاں کوئی انسانی حق حاصل نہیں، مجھے روز محسوس ہوتا ہے میں نے پاکستان چھوڑ کر غلطی کی، میرا ملک وہ تھا یہ نہیں "۔
بھیل چند کون تھا، یہ کراچی کیوں چھوڑ کر گیا اور یہ آج جودھ پور کے مہاجر کیمپ میں کیسی زندگی گزار رہا ہے، ہم شاید کبھی نہ جان پاتے لیکن نیویارک ٹائمز کی رپورٹر ماریہ ایبی حبیب کا بھلا ہو، یہ جودھ پور کیمپ گئی، بھیل چند جیسے لوگوں سے ملی اور پھر ہم سب کی آنکھیں کھول دیں، نیویارک ٹائمز نے جودھ پور کیمپ کی تصویریں بھی شایع کیں، امیگریشن کی قطار میں بھیڑ بکریوں کی طرح کھڑے لوگوں کی روداد بھی لکھی اور بھیل چند کی کہانی بھی تحریر کی، بھیل چند نے انٹرویو کے آخر میں کہا "میرے والد 1947 میں پاکستان میں رہ گئے، وہ سمجھتے تھے میرے بچے کبھی نہ کبھی کہیں گے میں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا، میں انڈیا آ گیا۔
میں بھی آج سوچتا ہوں شاید میرے بچے کل یہ کہیں ہمارے والد نے انڈیا شفٹ ہو کر اچھا کیا تھا مگر سردست میں پچھتا رہا ہوں " نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں گھوٹکی کے کمار کے تاثرات بھی درج ہیں، کمار کا کہنا ہے بھارت میں 1992 میں انتہا پسندوں نے بابری مسجد گرا دی، ہم ہندوؤں کو پاکستان میں اس کا بہت نقصان ہوا، ہم مسلمانوں کی نفرت کا نشانہ بننے لگے، نریندر مودی نے اقتدار میں آ کر پاکستانی ہندوؤں کے لیے امیگریشن پالیسی نرم کر دی، ہم میں سے بے شمار لوگوں نے اس پالیسی کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، سندھ کے لاتعداد خاندان بھارت شفٹ ہو گئے لیکن یہ وہاں جا کر پچھتا رہے ہیں، ان میں سے بے شمار لوگ واپس پاکستان بھی آ رہے ہیں۔
کمار کی بات درست تھی، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 2014میں پاکستانی ہندوؤں کو لانگ اسٹے ویزے دینا شروع کر دیے تھے، یہ ویزے بھارت میں امیگریشن میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں، بھارتی ہائی کمیشن نے 2016ء میں 2298 لانگ اسٹے ویزے جاری کیے، یہ تعداد 2017 میں 4712 اور 2018ء میں 12732 ہو گئی، یہ اعدادو شمار ثابت کرتے ہیں بھارت جان بوجھ کر پاکستانی ہندوؤں کو بھارت شفٹ ہونے کی ترغیب دے رہا ہے لیکن یہ لوگ انڈیا جا کر کیا کیادکھ دیکھتے ہیں یہ کوئی نہیں بتاتا، بھارتی حکومت انھیں پاکستانی جاسوس سمجھتی ہے، یہ ان پر مستقل نظر رکھتی ہے جب کہ بھارتی ہندو پاکستانی ہندوؤں کے مذہب کو مکمل نہیں سمجھتے، یہ لوگ انھیں مسلمانوں میں رہنے کی وجہ سے "ملیچھ" سمجھتے ہیں۔
بھارت شفٹ ہونے والے زیادہ تر ہندو دلت یا بھیل ہیں، یہ لوگ ہندومت میں جانوروں سے بھی بدتر سمجھے جاتے ہیں، برہمن اپنے مندروں پر ان کا سایہ تک برداشت نہیں کرتے، یہ ان کے ساتھ بیٹھ بھی نہیں سکتے، ریستوران میں کھانا نہیں کھا سکتے اور ان کے نلکوں اور کنوؤں سے پانی نہیں پی سکتے چناں چہ یہ لوگ بھارت پہنچ کر اپنے ملک، جائیداد، عزت، شناخت اور روزگار ہر چیز سے محروم ہو جاتے ہیں، لوگ نفرت سے انھیں پاکستانی بھی کہتے ہیں چناں چہ یہ لوگ روز جی جی کر مرتے ہیں اور مر مر کر جیتے ہیں، یہ اپنے رشتے داروں کو بھی پیغام بھجواتے ہیں آپ پاکستان میں خودکشی کر لینا لیکن بھارت نہ آنا، بھارت کے سارے دانت دکھانے کے ہیں، شائننگ انڈیا پوری دنیا میں دکھائی دیتا ہے لیکن یہ انڈیا میں موجود نہیں، یہ یہاں کسی جگہ نہیں پایا جاتا۔
پاکستان بے شک مذہبی پولرائزیشن کا شکار ہے، ہم لوگ مذہب میں تقسیم در تقسیم ہیں، ہمارے ملک میں سنیوں، وہابیوں اور شیعہ کی بھی دس دس پندرہ پندرہ شاخیں ہیں اور ہر شاخ خود کو اصل درخت قرار دیتی ہے اور ہم غیر مسلمانوں سے بھی نفرت کرتے ہیں لیکن ہم اس انتہائی بدترین ماحول میں بھی بھارت سے بہت اچھے ہیں، بھارت عیسائیوں پر تشدد میں 10 بدترین ممالک میں شامل ہے، بھارت میں 2018میں مسیحی برادری پر حملوں کے 12000 واقعات رپورٹ ہوئے، درجنوں چرچ بھی جلادیے گئے اورسیکڑوں عیسائی قتل بھی کر دیے گئے، گائے کا گوشت فروخت کرنے کے "جرم" میں گزشتہ پانچ سالوں میں 104 مسلمان شہیدکر دیے گئے۔
آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 66دن ہو چکے ہیں، بھارت اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے 80لاکھ لوگوں پر مسلسل کرفیو لگا رکھا ہے چناں چہ پاکستان ان برے ترین حالات میں بھی سماجی، مذہبی اور معاشی لحاظ سے بھارت سے بہت اچھا ہے، گھوٹکی میں ستمبر میں توہین رسالت کے الزام میں ایک ٹیچر اور اسکول پر حملہ ہوا لیکن آپ پورے ملک کا رد عمل دیکھیے، وزیراعظم تک نے اس کا نوٹس لیا اور صوبائی حکومت پوری طرح ایکٹو ہوئی، پاکستان پیپلز پارٹی ہندو کمیونٹی کے سلسلے میں بہت حساس ہے، سندھ حکومت نے فروری2016میں ہندو میرج بل پاس کیا۔
بلاول بھٹو ہندوؤں کے تمام اہم تہواروں میں بھی شریک ہوتے ہیں جب کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں بھی ہندو، عیسائی، سکھ اور پارسی موجود ہیں، ہماری پارلیمنٹ میں 10اقلیتی ارکان ہیں جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2019کے الیکشن میں کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا، بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا میں کل 545ارکان ہیں، ان میں صرف 10 فیصدغیر ہندو ہیں گویا نریندر مودی کا بھارت غیر ہندوؤں کو اپنا شہری ہی نہیں سمجھتا، بھارتی سسٹم اور دل دونوں اس قدر تنگ ہیں یہ پاکستانی ہندوؤں کو بھی ہندو نہیں سمجھتے، یہ لوگ بھارت کی "محبت" میں اپنے آبائی وطن ترک کرنے والوں کو بھی مرنے کے لیے کیمپوں میں چھوڑ دیتے ہیں، ہمارے نظام میں بے شمار خامیاں ہیں۔
ہم معمولی باتوں پر ڈنڈے، پتھر اور اینٹیں لے کر باہر نکل آتے ہیں، پاکستان میں جوزف کالونی اورگوجرہ جیسے واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں اور یہ ہمارے چہرے پر کالک بھی مل دیتے ہیں لیکن ہم جب اس صورت حال کو بھارت کے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں دونوں ملکوں میں دس اور سو کا فرق دکھائی دیتا ہے، ہمارے انتہائی تنگ دل لوگ بھی کسی انسان پر کنوئیں کا پانی بند نہیں کرتے، ہم ہندوؤں کو آج بھی برابر بٹھاتے ہیں اور ان کے ہر جائز مطالبے پر اپنی حکومت کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں، آپ پاکستانیوں کا ظرف دیکھیے گھوٹکی کے واقعے کے بعد گھوٹکی کے مسلمانوں نے ہندو مندر کی حفاظت کا اعلان کیا تھا اور یہ مندر میں جا کر بیٹھ گئے تھے۔
آج بھی پاکستان کی اکثریت کسی ہندو کو زبردستی مسلمان بنانے کی مخالف ہے، یہ معاشرہ ہندو لڑکیوں کے اغواء یا اپنی مرضی سے شادی کرنے پر بھی جاگ اٹھتا ہے، یہ ان اور ان کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے چناں چہ مسلمان ہو، ہندو ہو، سکھ ہو یا عیسائی ہو پاکستان کی سرحدوں کے اندر پیدا ہونے والا ہر پاکستانی صرف اور صرف پاکستانی ہے، یہ یہاں ہے تو اس کی عزت ہے یہ یہاں سے جب بھی جائے گا یہ اپنی زندگی مشکل بنا لے گا۔
میری پاکستانی ہندوؤں سے درخواست ہے آپ اگر بھارت شفٹ ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو پہلے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پڑھ لیں، آپ جودھ پور کیمپ میں پڑے پاکستانی مہاجرین سے رابطہ کریں اور پھر سوچ لیں، نریندر مودی کا وہ بھارت جو اپنے شہریوں کو شہری ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ آپ کے لیے کون سا دروازہ کھولے گا، وہ آپ کو کیا عزت دے گا، پاکستانیوں کا صرف ایک ہی ملک ہے اور اس ملک کا نام ہے پاکستان اور پاکستان کو چھوڑنے والا کوئی شخص چاند پر بھی چلا جائے وہ وہاں خوش نہیں رہ سکے گا، خوشی اسے صرف یہیں ملے گی، پاک سرزمین پر۔