Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Helsinki Mein Chand Ghantay

Helsinki Mein Chand Ghantay

ہیلسنکی میں چند گھنٹے

ہمیں ہیلسنکی میں زیادہ وقت نہیں ملا، ہم نے صبح اولو سے فلائٹ لی، نو بجے ہیلسنکی پہنچ گئے اور شہر میں نکل کھڑے ہوئے، ہیلسنکی صاف ستھرا اورمنظم شہر تھا، سڑکیں چوڑی، عمارتیں خوب صورت اور مارکیٹوں میں سلیقہ تھا، ٹریفک بھی نظم میں چل رہی تھی اور فضا میں طراوت تھی۔

ہیلسنکی کا بڑا حصہ سمندر کے کنارے آباد ہے، آپ گھنٹوں کوسٹل لائین پر ڈرائیو کر سکتے ہیں، سمندر بے شمار جگہوں سے شہر میں داخل ہو جاتا ہے، ساحل کے ساتھ آبادیاں، فلیٹوں کی بلڈنگز، کافی شاپس، ریستوران، سینما اور بیچز ہیں، یہ شہر سردی میں برف میں نہانے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

ہم نے سینٹر سٹی میں "اوپن باتھ" دیکھے، باتھ سمندر کے کنارے بنے تھے، ان کے دو حصے تھے، ان ڈور اور آؤٹ ڈور، چھت کے اندر اسٹیم باتھ اور سوانا تھا، لوگ اندر جاتے تھے، سوانا لیتے تھے اور پھر نیم برہنہ حالت میں باہر آ جاتے تھے، باہر منجمد سوئمنگ پول تھا، یہ پول میں داخل ہو کر ایڑی سے برف توڑتے تھے اور پھر برفیلے پانی میں چھلانگ لگا دیتے تھے، لوگوں کو شدید سردی میں برف میں نہاتے دیکھ کر ہمیں کپکپی لگ گئی لیکن یہ لوگ شاید برف میں غسل کے عادی تھے، شاید ان کا خیال تھا گرم سوانا اور پھر برف میں غسل یہ دونوں صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں جب کہ ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں وہاں ایسی صورت حال کو گرم سرد کہا جاتا ہے۔

ہم سردی میں اگر گرم کمرے سے باہر نکل جائیں تو ہمیں "گرم سرد" ہو جاتا ہے اور ہم بستر مرگ پر پہنچ جاتے ہیں جب کہ یہ لوگ شدید سردی میں روزانہ گرم سرد کا تجربہ کرتے ہیں اور مزید صحت مند ہو جاتے ہیں، مجھے وجہ سمجھ نہیں آئی، ہم شاید اس معاملے میں بھی نفسیاتی اور طبی مغالطے کا شکار ہیں۔

ہم ہیلسنکی کے سینٹر پہنچ گئے، ہماری پہلی منزل ہیلسنکی کا مین چرچ (Helsinki Cathedral)تھا، یہ فن لینڈ کا پرانا اور معتبر چرچ ہے، فن لینڈ کا صدر اور کابینہ اسی چرچ میں حلف لیتی ہے، پارلیمنٹ کا سالانہ سیشن شروع ہونے سے پہلے پارلیمنٹیرینز بھی اس چرچ میں حاضری دیتے ہیں، میں زندگی میں سیکڑوں پرانے اور شان دار چرچ دیکھ چکا ہوں لہٰذا مجھے یہ ان کے مقابلے میں انتہائی سادہ محسوس ہوا، یہ چرچ فن لینڈ کے لوگوں کی سادہ اور کفایت شعار طبیعت کی علامت ہے، میں نے آدھی دنیا دیکھنے کے بعد سیکھا آپ نے اگر کسی قوم کا مزاج اور مستقبل دیکھنا ہو تو آپ ان کی عبادت گاہیں، پرائمری اسکول، لائبریریاں اور کھیل کے میدان دیکھیں، آپ کو چند سیکنڈ میں قوم کا مزاج اور مستقبل دونوں معلوم ہو جائیں گے۔

آپ اپنے ملک کی مسجدیں، اسکول، لائبریریاں اور میدان دیکھ لیں، ہماری مسجدیں کبھی مکمل نہیں ہوتیں، ہر مسجد میں چندے کا ڈبا بھی موجود ہوتا ہے اور ہم مسجد کی ظاہری خوب صورتی پر زیادہ اور اندرونی سہولتوں پر کم توجہ دیتے ہیں، یہ ثابت کرتا ہے ہم ذہنی طور پر بھکاری ہیں، ہم ظاہری نمود اور نمائش جیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار بھی ہیں، ہمارے پرائمری اسکول بھی کلاس رومز، میدان، باتھ رومز اور پنکھوں سے محروم ہوتے ہیں۔

یہ ثابت کرتے ہیں ہم اپنے بچوں کو شروع ہی میں بتا دیتے ہیں تمہارا کوئی مستقبل نہیں اور بچے اسے پلے باندھ لیتے ہیں، ہمارے ملک میں لائبریریوں کا بھی کوئی کلچر نہیں، بڑے شہروں میں بھی گنتی کی لائبریریاں ہیں اور وہاں بھی الو بول رہے ہوتے ہیں اور پیچھے رہ گئے کھیل کے میدان توپورے ملک کے میدان چائنہ کٹنگ کا رزق بن چکے ہیں جب کہ فن لینڈ میں یہ چاروں خوبیاں نقطہ کمال کو چھو رہی ہیں، پورے ملک میں کھیل کے میدان ہیں، لوگ فٹ پاتھوں پر بھی جاگنگ کرتے نظر آتے ہیں، فن لینڈکے تعلیمی نظام کو دنیا کا بہترین ایجوکیشن سسٹم مانا جا تا ہے، حکومت بچوں کو اسکول میں خوراک، یونیفارم، کتابیں اور کھلونے تک دیتی ہے۔

ہیلسنکی میں کیمپن (Kampin) کے نام سے ایک نیا چیپل بنایا گیا ہے، یہ دارالسکوں کہلاتا ہے، عمارت کے اندر خاموشی اور سکون ہے، چرچ لکڑی کا بنا ہوا ہے، ہم بھی چیپل میں داخل ہوئے اور بینچ پر بیٹھ گئے، اندر واقعی سکون تھا، ہمارے دائیں بائیں بیٹھے لوگ مراقبے میں تھے، ہم بھی چند لمحوں کے لیے مراقبے میں چلے گئے، ہیلسنکی کی پبلک لائبریری پوری دنیا میں مشہور ہے، یہ اوڈی (Oodi) کہلاتی ہے، ہم کیمپن چیپل سے اوڈی کی طرف چل پڑے، لائبریری کی عمارت باہر سے سمندری جہاز محسوس ہوتی ہے لیکن اندر اف خدایا، میں نے دنیا میں اس سے خوب صورت لائبریری نہیں دیکھی، یہ گوگل، فیس بک اور ایپل کی کارپوریٹ عمارتوں سے بھی زیادہ خوب صورت اور جدید عمارت تھی، لائبریری میں کوئی بھی شخص کوئی بھی کتاب یا میگزین پڑھ سکتا ہے، اپنی مرضی کی فلم دیکھ سکتا ہے، ویڈیو گیم کھیل سکتا ہے، لائبریری میں میٹنگ رومز بھی ہیں۔

آپ ان رومز میں میٹنگ بھی کر سکتے ہیں، ایونٹس بھی ہوتے ہیں، آپ اس کے اسٹوڈیو میں میوزک بھی بنا سکتے ہیں، پردے بھی سی سکتے ہیں، اپنا لباس بھی ڈیزائن کرسکتے ہیں، اپنا گھر، اپنا دفتر بھی سکیچ کر سکتے ہیں اور لائبریری میں درجنوں تھری ڈی پرنٹر بھی لگے ہیں، آپ ان سے اپنی مرضی کا پرنٹ بھی لے سکتے ہیں، لنچ، ڈنر اور کافی کے لیے دو شان دار ریستوران ہیں، آرٹ رومز بھی ہیں اور چھوٹے بچوں کا ان ڈور پلے ایریا بھی، لائبریری میں سیکڑوں کمپیوٹر پڑے ہیں، آپ کسی کمپیوٹر پر "لاک ان" ہوں اور سارا دن کام کریں، آرام دہ صوفے اور کرسیاں ہیں، آپ سارا دن بیٹھ یا لیٹ کر پڑھتے رہیں، آرام کی جگہ بھی موجود ہے، یہ اسٹیڈیم جیسی سیڑھیاں ہیں، سیڑھیوں پر کشن پڑے ہیں، آپ بے شک کشن پر لیٹ کر سو جائیں، میں نے دنیا بھر میں باتھ رومز دیکھے ہیں لیکن اس لائبریری سے زیادہ خوب صورت اور صاف ستھرے باتھ کسی فائیو اسٹار بلکہ سیون اسٹار ہوٹل میں بھی نہیں تھے۔

صرف ہاتھ دھونے کے لیے پورا ہال ہے اور اس ہال میں بچوں کے لیے چھوٹی وینٹیز بھی لگی ہیں، سیڑھیاں، لفٹیں اور برقی سیڑھیاں بھی کمال ہیں، عمارت کے اندر چاروں طرف بیس بیس فٹ اونچے شیشے ہیں، آپ کتاب پڑھتے ہوئے چاروں طرف سے شہر کو دیکھ سکتے ہیں، میں نے لوگوں کو سوٹ کیس لے کر لائبریری میں آتے اور سارا دن آرام کر کے واپس جاتے دیکھا، مائیں چھوٹے بچوں کے ساتھ لائبریری آ جاتی ہیں، یہ بچوں کو پلے ایریا میں چھوڑ دیتی ہیں، خود کتابیں پڑھتی رہتی ہیں، کمپیوٹر پر کام کرتی ہیں اور بچے سارا دن پینٹنگز کرتے رہتے ہیں، ویڈیو گیم کھیلتے رہتے ہیں، کھلونوں سے لڑتے جھگڑتے اورکارٹون کریکٹر دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں اور شام کو ماؤں کے ساتھ گھر واپس چلے جاتے ہیں۔

ہم نے وہاں سے کافی بھی لی اور اسنیکس بھی، دونوں کی کوالٹی اعلیٰ تھی، فن لینڈ کی حکومت نے ایک ایسی جگہ بنا دی جہاں اگر گدھے بھی پہنچ جائیں تو وہ علم کے بغیر نہیں رہ سکیں گے، مجھے وہاں جا کر معلوم ہوا ہیلسنکی میں 37 لائبریریاں ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے، باقی لائبریریاں بھی آرٹ کا نمونہ ہیں، ہم وہاں سے کراکری میوزیم آ گئے، حکومت نے شہر کے عین درمیان کراکری میوزیم بنا رکھا ہے، یہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا عجائب گھر ہے، اس کا ایک حصہ عربی کراکری اور دوسرا اطالوی کراکری کے لیے مخصوص ہے، ہمیں وہاں جا کر پتا چلا سرائمیکس عربیوں کی ایجاد تھی جب کہ کرسٹل کے برتن اٹلی میں بننا شروع ہوئے تھے۔

میوزیم میں 1873 سے 2020 کے برتن رکھے ہیں، یہ کپ، پلیٹیں اور گلاس ہیں، ایک حصے میں ورکشاپ ہے، آپ ورکشاپ سے اپنی مرضی کا کوئی بھی برتن بنوا سکتے ہیں، مجھے عجائب گھر میں جا کر اپنے ماضی کے بے شمار سفر یاد آ گئے، سرائمیکس کا کام مصر، شام، اردن اور مراکو میں ہوتا تھا، ایران، ازبکستان اور ترکی میں بھی سرائمیکس کی بہت بڑی انڈسٹری تھی، میں نے وہاں کوزہ گروں کے ہزار ہزار سال پرانے محلے، خاندان اور پرانی فیکٹریاں دیکھی تھیں، کرسٹل کا کام وینس سے شروع ہوا تھا، دنیا کی قدیم ترین کمپنیاں اور بھٹیاں آج بھی وہاں موجود ہیں، وینس کی ایک کمپنی کو پندرہ سو سال ہو چکے ہیں، یہ آج بھی قائم ہے اور کرسٹل کے برتن بنا رہی ہے چناں چہ برتنوں کی انڈسٹری کا میوزیم یہ بھی اچھا اور مفید فیصلہ تھا۔

ہم وہاں سے ہیلسنکی کے "آئی کان" کی طرف آ گئے، دنیا کے ہر شہر کی کوئی نہ کوئی شناختی علامت ہوتی ہے جیسے کراچی میں مزار قائد ہے اور لاہور میں مینار پاکستان، ہیلسنکی کا آئی کان سیبلیس( Sibelius) مانومنٹ ہے، مانومنٹ 1967میں بنا تھا اور یہ فن لینڈ کے مشہور موسیقار جین سیبلیس کی یاد میں بنایا گیا تھا، سیبلیس 1957 میں فوت ہوا، حکومت نے دنیا بھر کے آرکی ٹیکٹس میں مقابلہ کرایا اور آخردس سال میں ایلا ہیل تونین (Eila Hiltunen) کا ڈیزائن پسند کرلیا، یہ ڈیزائن لوہے کے مختلف سائز کے پائپس پر مشتمل ہے اور یہ میوزک کی نمایندگی کرتا ہے۔

دیوار پر سیبلیس کی لوہے کی تصویر بھی تھی، ہم مانومنٹ کے قریب رک گئے، لمبا سانس لیا، سامنے جھیل تھی اور لوگ جھیل کے پل پر پانی کی طرف جا رہے تھے، میرا دل چاہا میں ان کو آواز دے کر پوچھوں تم کیسے لوگ ہو، تم نے ایک موسیقار کا مانومنٹ بنا دیا، کیا تمہیں یہ بھی پتا نہیں تھا گانے بجانے والے مراثی بھی ہوتے ہیں اور جہنمی بھی، میں ان سے یہ نہیں پوچھ سکا لیکن دل ہی دل میں کہا، یہ لوگ جہنمی ہیں یا نہیں لیکن یہ طے ہے دنیا کا کوئی معاشرہ آرٹ، کلچر، کتاب اور امن کے بغیر جنتی نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنا ہی عبادت گزار کیوں نہ ہو جائے اور ہم اسی کیٹگری میں آتے ہیں۔

نوٹ: آپ مندرجہ ذیل لنک پر جا کر چیپل، لائبریری، سرائمیکس میوزیم اور اوڈی لائبریری دیکھ سکتے ہیں۔

http://www.ibex.com.pk/videos/

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad