چلانے کے لیے بھی اکٹھے ہوجائیں
یہ بودھ مت کی قدیم کہانی ہے اور یہ کہانی صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سمیت دنیا کے ہر اس لیڈر کے لیے لکھی گئی جو زندگی میں سیدھے کان کو الٹے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور آخر میں کان بچتا ہے اور نہ ہی ہاتھ اور اس کے ساتھ نام اور عہدہ بھی تاریخ کے کباڑ خانے میں گم ہو جاتا ہے، بودھوں کا ایک بزرگ لکڑی کے خشک تنے پر بیٹھ کر عبادت کر رہا تھا، گیان کے اس عالم میں اسے بیس سال گزر گئے، ان بیس برسوں میں اس پر بارشیں بھی برسیں، اسے برف نے بھی ڈھانپا، اس کے دائیں بائیں جنگلی بوٹیاں، جھاڑیاں اور بیلیں بھی اگیں، وہ خزاں کا شکار بھی ہوا اور اس پر تپتی دوپہریں اور گرم دنوں کی گرمیاں بھی اتریں مگر وہ اسی جگہ بیٹھ کر گیان کرتا رہا، ایک دن ایک دنیا دار کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے بودھ بزرگ کو دیکھا، اس کا انہماک دیکھ کر حیران ہوااور لوگوں سے پوچھا " یہ بزرگ یہاں کیوں بیٹھے ہیں "لوگوں نے بتایا" یہ بیس سال سے اس خشک تنے پر بیٹھ کر عبادت کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے اللہ تعالیٰ جس دن ان کی عبادت سے خوش ہو گا اس دن یہ خشک تنا ہرا ہو جائے گا" وہ دنیا دار شخص بزرگ سے بہت متاثر ہوا، اس نے ان کے ہاتھوں کو بوسا دیا، اپنا گھر بار چھوڑا، خشک لکڑی کا تنا لیا اور بزرگ سے چند فٹ کے فاصلے پر رکھ کر بیٹھ گیا اور عبادت شروع کر دی۔
اسے بیٹھے ہوئے چند دن گزرے تھے کہ اس نے شور سنا، اس نے سر اٹھا کر دیکھا، سامنے ندی میں چھ سات برس کی ایک بچی ڈوب رہی تھی اور بچی کی رشتے دار خواتین مدد کے لیے چلا رہی تھیں، دنیا دار شخص کا دل تڑپ اٹھا، اس نے بزرگ کو بچی کی طرف متوجہ کیا اور عرض کیا " حضور ہمیں بچی کو بچانا چاہیے" بزرگ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا، منہ پر انگلی رکھی اور کہا " یہ بچی بچی نہیں، یہ دنیا کے وہ فریب ہیں جو ہماری توجہ خدا سے بھٹکا رہے ہیں، تم خدا سے لو لگائو اور صرف اور صرف عبادت پر دھیان دو" دنیا دار نے آنکھیں بند کیں اور دوبارہ گیان میں گم ہو گیا لیکن بچی کی چیخوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا، اس نے گیان توڑا، اپنی جگہ سے اٹھا، دوڑتا ہوا ندی تک گیا، پانی میں چھلانگ لگائی، بچی کو باہر نکالا، اسے ماں کے حوالے کیا اور واپس گیان میں ڈوب گیا، اسے اچانک اپنے دائیں بائیں سرسراہٹ محسوس ہوئی، اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو وہ حیران رہ گیا، اس کی خشک لکڑی پر سیکڑوں کونپلیں پھوٹ چکی تھیں، اس کی تمنا کا خشک تنا سبز ہو چکا تھا، اس نے پریشان ہو کر بیس سال سے گیان میں ڈوبے بزرگ کی طرف دیکھا، وہ ابھی تک اپنے گیان کو خدا سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا، دنیا دار شخص نے قہقہہ لگایا، اپنا تھیلا اٹھایا اور دنیا داری میں واپس چلا گیا۔
یہ کہانی میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری سمیت دنیا کے ہر اس لیڈر کے لیے مشعل راہ ہے جو جمہوریت کی خشک لکڑی کو صرف گیان سے ہرا کرنا چاہتے ہیں، جمہوریت دنیا کا بہترین سسٹم ہے، انسان دس ہزار سال کی دن رات کی محنت کے بعد اس سسٹم تک پہنچا، یہ سسٹم دنیا کے 245 میں سے دو سو ملکوں میں رائج ہے جب کہ باقی 45 ملکوں میں جمہوریت کی جنگ جاری ہے، دنیا میں جس طرح پانی، ہوا اور سبزا بُرا نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جمہوریت بھی بری نہیں ہو سکتی مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے جمہوریت ہمیشہ اس ڈوبتی ہوئی بچی کو بچانے سے شروع ہوتی ہے جو آپ کے سامنے پانی میں غوطے لے رہی ہے، آپ صرف جمہوریت کی مالا جپ کر مرادوں کی شاخ ہری نہیں کر سکتے، آپ کی اپروچ، آپ کا طریقہ کار غلط ہے اور آپ اگر اس طرح مزید 65 سال بھی عبادت کرتے رہے تو بھی آپ کی شاخ ہری نہیں ہو گی، بات بہت سیدھی اور سادی ہے، علامہ طاہر القادری 13 جنوری کو لانگ مارچ لے کر نکلے، یہ 14جنوری کو وفاقی دارالحکومت پہنچے اور 17 جنوری تک اسلام آباد میں رہے، ان پانچ دنوں نے قیادت کو گھبرا دیا چنانچہ میاں نواز شریف نے رائے ونڈ میں اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی اور صدر آصف علی زرداری نے اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلا لیا، اپوزیشن کی 10 جماعتوں کا 16جنوری کو اجلاس ہوا اور ان جماعتوں نے شام کے وقت دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کر دیا۔
یہ اپوزیشن جماعتوں کا جمہوریت کے حق میں اعلان جہاد تھا، حکومت کے اتحادیوں نے بھی یہی فیصلہ کیا اور یوں حکومت اور اپوزیشن کا جمہوری جہاد ایک نقطے پر جمع ہو گیا اور یہ متفقہ نقطہ آگے چل کر لانگ مارچ کے خاتمے کا باعث بنا، یہ جمہوری جہاد ثابت کرتا ہے اگر میاں نواز شریف جمہوریت بچانے کے لیے ان تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے گھر جمع کر سکتے ہیں جو عام حالات میں ایک دوسرے سے سلام تک لینا پسند نہیں کرتیں، اگر صدر آصف علی زرداری حکومت کے خاتمے کے قریب پہنچ کر بھی اپنے ان اتحادیوں کو ایک نقطے پر اکٹھا بٹھا سکتے ہیں جو اگلے الیکشن کے لیے نئے اتحادیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو کیا یہ لوگ جمہوریت چلانے کے لیے اکٹھے نہیں ہو سکتے؟ یہ جمہوریت کو ثمر آور اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ یہ بجلی، گیس، روز گار، دہشت گردی، انڈسٹری، کرنسی کے استحکام، قومی یکجہتی اور تعلیم کے لیے اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ یہ اگر مل کر جمہوریت بچا سکتے ہیں تو کیایہ مل کر جمہوریت نہیں چلا سکتے؟ اگر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں ہم جمہوریت کے خلاف ہر اقدام کا مل کر مقابلہ کریں گے تو کیا یہ لوگ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔
ہم میں سے جس شخص نے ٹیکس بچایا یا ٹیکس چھپایا ہم اسے پارٹی اور سیاست دونوں سے فارغ کر دیں گے، ہم میں سے جس نے میرٹ کی خلاف ورزی کی، جس نے قانون توڑا، جس نے دہری شہریت لی، جس نے اپنا سرمایہ اور اپنے بچے ملک سے باہر سیٹل کرائے، جس نے تیسری بار پارٹی کی قیادت سنبھالی، جس نے پارٹی قیادت اپنے خاندان کے اندر رکھنے کی کوشش کی، جس نے غلط ایف آئی آر کٹوائی، جس کے خلاف سچا مقدمہ قائم ہوا، جس نے کرپشن کی، جس نے قرضہ معاف کیا، جس نے ایفی ڈرین کا کوٹہ بیچا، جس نے رینٹل پاور پلانٹس میں کمیشن کھایا، جس نے این آئی سی ایل کے پیسے لوٹے، جس نے میمو لکھا، جس نے ریلوے، پی آئی اے اور اسٹیل مل برباد کی، جس نے عدنان خواجہ اور توقیر صادق جیسے لوگوں کو تعینات کیا، جس نے عدالت کا فیصلہ نہ مانا، جس کی غلط پالیسی کی وجہ سے سستی روٹی جیسے منصوبے تباہ ہوئے، جس نے امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دی اور جس نے نااہل لوگوں، جعلی ڈگری ہولڈروں اور دہری شہریت کے مالک امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہم ان تمام لوگوں کو سیاست اور پارٹی سے فارغ کر دیں گے اور کوئی سیاسی جماعت اس کے بعد انھیں اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرے گی، کیا یہ لوگ مل کر کشمیر کے مسئلے، افغانستان کے ساتھ ایشوز اور ایران کے ساتھ تنازعوں کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکتے؟ کیا یہ لوگ ملک کے لیے پچیس سال کا معاشی روڈ میپ تشکیل نہیں دے سکتے اور کیا یہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کا کوئی ٹھوس حل تلاش نہیں کر سکتے؟ یہ لوگ اگر جمہوریت کی پرفارمنس، یہ جمہوریت کے سقم دور کرنے، یہ اپنی اپنی ٹوکری کے گندے انڈے نکالنے اور ملکی نظام کی خرابیاں دور کرنے کے لیے اکٹھے ہونے کے بجائے صرف اور صرف علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ پر اکٹھے ہوں گے تو کیا یہ خود کو لوگوں سے مزید دور کر لیں گے، کیا لوگ انھیں ایسا مفاد پرست نہیں سمجھیں گے جو عام حالات میں ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں لیکن جوں ہی ان کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچنے لگتا ہے تو یہ ذاتی اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت وہ خشک لکڑی ہے جو صرف اس وقت ہری ہوتی ہے جب جمہوریت زادے عام انسانوں کو بچانے کے لیے اپنی کرسی چھوڑ دیتے ہیں، یہ ایسا خشک تنا ہے جس سے نعروں اور دعوئوں سے کونپلیں نہیں نکلتیں، اس کے لیے عام آدمی پر رحم کھانا پڑتا ہے، میاں صاحب اور زرداری صاحب نے جمہوریت بچالی، انھیں اب جمہوریت چلانے کے لیے بھی اکٹھا ہونا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں جمہوریت کے خشک تنے میں پنپنے والی دیمک انھیں بھی چاٹ لے گی، یہ بھی آہستہ آہستہ لکڑی کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔