Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Afghan Safeer Ki Beti

Afghan Safeer Ki Beti

افغان سفیر کی بیٹی

نجیب اللہ علی خیل پاکستان میں افغانستان کے سفیر ہیں، ان کی 27سالہ بیٹی سلسلہ علی خیل کے ساتھ جمعہ 16 جولائی کو ایک حیران کن واقعہ پیش آیا، سلسلہ نے دعویٰ کیا"میں اپنے گھر سیکٹر ایف سیون ٹو سے اپنے بھائی کے لیے گفٹ خریدنے بلیو ایریا میں تہذیب بیکری آئی، گفٹ خریدا اور واپس ٹیکسی میں بیٹھ گئی تو ایک شخص ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا، میں نے احتجاج کیاتو وہ میری طرف مڑا اور نفرت سے بولا، خاموش ہو جائو، کمیونسٹ باسٹرڈ کی بچی، میں نے شور مچایا، اس نے مجھے زدوکوب کیا، میں بے ہوش ہو گئی، ہوش آیا تو میں ایف سیون میں پڑی تھی، میں نے ایک ٹیکسی رکوائی، ایف نائین پارک گئی، ڈرائیور سے منت سماجت کر کے فون لیا اور ایمبیسی کا سٹاف مجھ تک پہنچ گیا"۔

پولیس لڑکی کو پمز لے گئی، میڈیکل چیک اپ کرایا، لڑکی کی کلائیاں اور ٹخنے سوجے ہوئے تھے، ان پررسیوں کے نشان بھی تھے اور ان میں درد بھی تھا، یہ واقعہ خوف ناک تھا، جمعہ کے دن تاشقند میں افغان صدر اشرف غنی اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان گرما گرمی ہوئی تھی، عین اسی دن اسلام آباد میں بلیو ایریا جیسے بارونق علاقے میں ایوان صدر سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر افغان سفیر کی بیٹی کا اغواء ہو جانا یہ بہت بڑا سوالیہ نشان تھا اور یہ نشان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھا پاکستان سفیروں کے خاندانوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اورغیر ملکی سفارت خانے اس واقعے کی بنیاد پر اسلام آباد کو "نان ریذیڈنٹ سٹیشن" قرار دے سکتے تھے جس سے ملک مزید معاشی، سماجی اور سفارتی تنہائی کا شکار ہو سکتا تھا۔

بھارتی سفارت خانے کا عملہ پہلے ہی اپنے بال بچے بھارت بھجوا چکا ہے، امریکا نے اڑھائی سال سے پاکستان میں اپنا سفیر تعینات نہیں کیا" یہ "چارج ڈی افیئر" سے کام چلا رہا ہے، جوبائیڈن کو حلف اٹھائے چھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن اس نے نیٹو فورسز کے انخلاء کے وقت بھی ہمارے وزیراعظم کو فون نہیں کیا، دنیا یہ پوائنٹ سیریس لے رہی ہے، یورپ کے80 فیصد سفارت کاروں کے خاندان پاکستان میں نہیں رہتے، یورپ کا سفارتی عملہ ہر دو ماہ بعد خاندان سے ملاقات کے لیے اپنے ملک واپس چلا جاتا ہے، ہمسایوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات انتہائی خراب ہیں، بھارت اور ہم دشمن ہیں۔

افغانستان میں دو طاقتیں ہیں، حکومت اور طالبان، ہمارے دونوں کے ساتھ تعلقات ناخوش گوار ہیں، ایران اور پاکستان کے تعلقات بھی آئیڈیل نہیں ہیں، یو اے ای، قطر اور سعودی عرب بھی ہم سے دور ہیں، پیچھے رہ گیا چین، صرف یہ ہمارا دوست تھا اور یہ ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیتا تھا لیکن 14جولائی کو داسو ڈیم کی سائیٹ کے قریب چینی ورکرز کی وین پر حملہ ہوا اور اس میں 9چینی ورکرز ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، چین سی پیک پر سست روی کی وجہ سے پاکستان سے پہلے ہی ناراض تھا، اس واقعے کے بعدچینی کمپنی نے داسو ڈیم پر کام بند کر دیا جب کہ چینی حکومت نے "جوائنٹ انویسٹی گیشن" کا مطالبہ کر دیا اور ان حالات میں افغان سفیر کی بیٹی بھی اغواء ہو گئی اور اس پر تشدد بھی ہو گیا لہٰذا پاکستان کو مشکلات میں اضافہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔

پولیس نے سیکورٹی کیمروں کی مدد سے تفتیش شروع کی تو کہانی پلٹ گئی، یہ پتا چلا سلسلہ علی خیل اپنےگھر سے گاڑی پر نہیں نکلی تھی، یہ بات عجیب تھی، گھر میں گاڑیاں کھڑی ہیں لیکن سفیر کی بیٹی باہر آئی، ٹیکسی لی اور جی سیون کی کھڈا مارکیٹ چلی گئی اور عدنان ڈیکوریشن سے گاڑی کے شیشے پر لٹکانے کے لیے چھوٹی سی دعا لی اور ٹیکسی بدل کر راولپنڈی چلی گئی، خفیہ اداروں نے کیمروں کی مدد سے سلسلہ کو ٹریک کیا تویہ آخری مرتبہ راولپنڈی کی تہذیب بیکری کے کیمروں میں دکھائی دی، اس نے تہذیب سے جوس لیا اور پھر غائب ہو گئی۔

یہ اس کے بعد تیسرے ٹیکسی ڈرائیور کودامن کوہ میں ملی، پولیس نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو بھی گرفتار کر لیا، اس نے بتایا، یہ دامن کوہ سے میری ٹیکسی میں بیٹھی تھی اور پریشان تھی، میں نے اسے ایف نائین پارک کے گیٹ نمبر تین پر ڈراپ کیا، پولیس نے سلسلہ سے پوچھا "کیا آپ راولپنڈی بھی گئی تھیں " لڑکی نے جواب دیا "میں کبھی راولپنڈی نہیں گئی" یہ جواب حیران کن تھا، ایجنسیوں نے موبائل ڈیٹا کا تجزیہ کیا تو پتا چلا یہ اکثر اوقات راولپنڈی جاتی تھی۔

یہ اس دن بھی بیکری کے ساتھ ساتھ جی پی او کے کیمروں میں دکھائی دی تھی، اس سے دامن کوہ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اس سے بھی انکار کر دیا جب کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ ڈیٹا آن ہوا تھا، بہرحال قصہ مختصر اتوار کی شام افغان سفیر اور اس کی بیٹی کو تھانے بلایا گیا، ان سے سوال کیے گئے اور انہوں نے جواب دینے کی بجائے صدر اشرف غنی کو فون کیا اور افغان صدر نے سفیر سمیت اپنا اہم سفارتی عملہ واپس بلوا لیا۔

یہ سارا واقعہ مشکوک ہے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی حرکت ہے، پاکستان بظاہر اس معاملے میں بے قصور ہے اور یہ ایشو با لآخر لڑکی کا ذاتی معاملہ نکلے گا یا پھر انڈیا اور افغانستان کی سازش ثابت ہو گا لیکن یہ سوال اس کے باوجود بہت اہم ہے یہ واقعہ جمعے کو پیش آیا اور ہم سوموار تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، پوری دنیا ہمارے خلاف ڈھول بجاتی رہی اور ہم اپنے میڈیا سے خبریں چھپاتے رہے، سفارتی علاقے کے سفارت کار گھروں میں بند ہو گئے لیکن وزیراعظم اور وزیرداخلہ میرپور کے جلسے میں سابق حکومتوں کو چور ثابت کرتے رہے اور پاکستان اور افغانستان کا رہا سہا سفارتی تعلق بھی ختم ہو گیا مگر ہم ملبہ ایک دوسرے پرڈالتے رہے، کیا یہ رویہ ٹھیک ہے؟

ہم اگر سلسلہ علی خیل کے واقعے کے سفارتی نقصانات سائیڈ پر رکھ دیں تو بھی یہ واقعہ پاکستانی امیج کے لیے خطرناک ہے، اسلام آباد میں چند دن قبل نوجوان لڑکے اور لڑکی پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی اور اس نے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج برباد کر دیا، یہ واقعہ اب چوٹ پر چوٹ ثابت ہو رہا ہے، ہم واقعہ روک نہیں سکتے تھے لیکن ہم چار پانچ گھنٹوں میں تفتیش تو مکمل کر سکتے تھے! کیا ملک میں اس سے بھی زیادہ اہم کام تھے؟

میرے دوست سمجھتے ہیں میں حکومت کی مخالفت برائے مخالفت کرتا ہوں، میرا دل کئی بار چاہتا ہے میں کسی دن حکومت کی اندھا دھند حمایت کر کے یہ داغ دھو دوں لیکن پھر میرا ضمیر اور ملک سے محبت میرا ہاتھ تھام لیتی ہے اور میں سچ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہوں، حکومت کے قول اور فعل کا تضاد اب اتنا واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندھے سپاہی بھی ہاتھ جوڑ کرقوم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں۔

آپ تضاد دیکھیے، بھارت نے 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کیا، اس سانحے کو دو سال ہوچکے ہیں، بھارت دو برسوں سے کشمیر کا جغرافیہ بدل رہا ہے، یہ جموں کا سائز بڑھا رہا ہے اور وادی کو چھوٹا کر رہا ہے تاکہ مسلمان اکثریت اقلیت میں بدل جائے اور یوں کشمیری بھارت کی سوا ارب آبادی میں آٹے کےنمک کی طرح جذب ہو جائیں جب کہ ہم جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کر کے خاموش بیٹھ گئے، ہم نے ہر جمعے کو سڑکوں پر احتجاج کرنا تھا، ہم دو تین ہفتے سرسری سا احتجاج کرتے بھی رہے لیکن پھر ہم مصروف ہو گئے لہٰذا آج وہ وفود کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا تھااور وہ سنٹرز بھی کدھر ہیں جو ہم نے اپنے سفارت خانوں میں بنانے تھے؟

وزیراعظم ایک طرف تاشقند میں بھارتی صحافی کو"آر ایس ایس کا نظریہ بیچ میں آ جاتا ہے" کا طعنہ دے کر ٹویٹر پر شاباش وصول کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈائیلاگ بھی چل رہے ہیں، ہم بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول تک سے مذاکرات کر چکے ہیں، اگر بھارتی صحافی کو جواب ہماری قومی پالیسی ہے تو پھر ہم خفیہ مذاکرات کیوں کر رہے ہیں اور اگر خفیہ مذاکرات ہماری پالیسی ہے تو پھر ہم "آر ایس ایس" کا طعنہ دے کر مذاکرات کو سبوتاژ کیوں کر رہے ہیں؟

ہم یہ بھی کیوں نہیں مانتےہم کشمیر کھو چکے ہیں، مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے ضم کر لیا ہے اور آزاد کشمیر کو اب ہم صوبے کا سٹیٹس دے رہے ہیں، ہم پہلے اسے گلگت بلتستان کی طرح عارضی صوبہ بنائیں گے اور پھر آہستہ آہستہ مکمل صوبہ بنا دیں گے، ہم آخر کب تک قوم کو اندھیرے میں رکھیں گے؟ ہم آخر کب تک نریندر مودی کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے رہیں گے اور ساتھ طعنے بھی دیتے رہیں گے؟

ملک میں آخر کب تک کرپشن کے خلاف جہاد بھی چلتا رہے گا اور پنجاب میں عثمان بزدار کھل کر کرپشن کا کھیل بھی کھیلتے رہیں گے، آخر کب تک عوام کا درد بھی رہے گا اور چینی بھی 110 روپے کلو، آٹا 70 روپے کلو، گھی 340 روپے کلو، دال 260 روپے کلو اورپٹرول 118 روپے لیٹر ملتا رہے گا، آخر کب تک ایک طرف "میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا" کا اعلان ہوتا رہے گا اور دوسری طرف وزراء بھی چینی، آٹے، ادویات اور رنگ روڈ میں کھربوں روپے بنا کر کابینہ میں بیٹھے رہیں گےاور وزیراعظم آخر کب تک "میں کسی کا دبائو قبول نہیں کروں گا" کے دعوے بھی کرتے رہیں گے اور بجٹ کے ووٹ کے بدلے شاہ زین بگٹی کو بھی ایڈجسٹ کرتے رہیں گے۔

مونس الٰہی کو بھی وزارت دے دیں گے اور جی ڈی اے کو بھی مزید نوازتے رہیں گے، ملک کی حالت یہ ہے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود اور کلیکٹر وسیم تابش حوالات میں ہیں جب کہ ان کی مہربانیوں کے بینی فیشری کابینہ میں بیٹھے ہیں اور وزیراعظم خفیہ اکائونٹس کی فائل اپنی میز پر رکھ کر کرپشن کے خلاف تقریریں فرما رہے ہیں، تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ بھی انہوں نے لے لیا اور یہ لوگ معصوم بھی ہیں! آخر یہ کب تک چلے گا؟ ہم آخر لوگوں کو کتنی دیر دھوکے میں رکھ لیں گے؟

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed