آپ جنرل مشرف کا کمال دیکھیے
یہ کہانی ایک گالی سے شروع ہوئی تھی، یہ 13سال سے مسلسل چل رہی ہے اور یہ شاید مزید 13 سال بھی چلتی رہے۔
سن تھا 2006 اور ایشو تھا کراچی اسٹیل ملز، وزیراعظم شوکت عزیز نے مارچ 2006 میں روس کے ایک کنسورشیم کے ہاتھوں کراچی اسٹیل ملز 21 ارب67 کروڑ روپے میں فروخت کردی، لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم اس وقت اسٹیل ملز کے چیئرمین تھے، یہ اس ڈیل کے خلاف تھے، اخبارات میں خبریں شایع ہوئیں، ٹیلی ویژن پر شو ہوئے اور یہ ایشو سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گیا، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سوموٹو نوٹس لے لیا اور ڈیل رک گئی، شوکت عزیز یہ ڈیل مکمل کرانا چاہتے تھے۔
ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی تھی، مجھے ایم کیو ایم کے وزراء نے بتایا کہ اس ڈیل میں "کک بیکس" لی گئی ہیں لہٰذا ہر صورت یہ سودا کروایا جائے گا، شوکت عزیز نے صدر جنرل پرویز مشرف کے کان بھرنا شروع کر دیے، جنرل صاحب اس زمانے میں انا، تکبر اور طاقت کے گھوڑے پر سوار تھے، یہ چیف جسٹس تک کو بلا لیا کرتے تھے، ایوان صدر نے چیف جسٹس کے دفتر فون کیا اور 9 مارچ 2007 کو افتخار محمد چوہدری کو آرمی چیف ہاؤس راولپنڈی "طلب" کر لیا، ملاقات وقت پر شروع ہوئی، جنرل پرویز مشرف پوری یونیفارم میں صوفے پر بیٹھے تھے۔
چیف جسٹس کو سامنے بٹھا دیا گیا، صدر نے افتخار محمد چوہدری کو سمجھانا شروع کیا، چوہدری صاحب سمجھنے والے انسان بھی نہیں تھے اور انھیں نہ سمجھنے کا مشورہ بھی دے دیا گیا تھا لہٰذا تکرار شروع ہوئی اور بات بحث سے آگے نکل گئی، جنرل مشرف غصے میں آ گئے، انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو بلایا اور افتخار محمد چوہدری کی طرف اشارہ کر کے کہا "اس۔۔۔۔ کو سمجھاؤ" افتخار محمد چوہدری نے جواب میں کہہ دیا "۔۔۔۔ ہو گے تم" اور پھر یہاں سے وہ سلسلہ شروع ہو گیا جو بڑھتے بڑھتے کنٹرول سے باہر ہو گیا، رخ چیف جسٹس کے استعفے کی طرف مڑ گیا۔
ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی بلا لیا گیا اور باقی سہولت کار بھی پہنچ گئے، یہ تمام چیف جسٹس پر استعفے کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، دباؤ ڈالنے والوں میں صرف ایک شخص تھا جس نے اپنے ہاتھ پر نو لکھا ہوا تھا، وہ بار بار اپنا ہاتھ چیف جسٹس کے سامنے لہرا دیتا تھا، وہ ہاتھ اور وہ دو حرف چیف جسٹس کی واحد طاقت تھے چناں چہ یہ ڈٹ گئے، 9 مارچ 2007 کی شام اسی ہاتھ نے افتخار محمد چوہدری کو آرمی چیف ہاؤس سے نکالا اور چیف جسٹس ہاؤس میں ہاؤس اریسٹ کرا دیا۔
یہ ہاتھ اس کے بعد 11 دسمبر 2013 تک افتخار محمد چوہدری کی مدد کرتا رہا، یہ وکلاء کی تحریک کے دوران بھی ججوں کے ساتھ تھا اور اس نے 2009 میں افتخار محمد چوہدری کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا، چیف جسٹس بھی گاہے بگاہے اس ہاتھ کی قانونی اور آئینی مدد کرتے رہے بہرحال قصہ مختصر جنرل پرویز مشرف کی ایک گالی نے ان کا ریت کا سارا محل گرا دیا، وکلاء تحریک شروع ہوئی، میڈیا نے کھل کر ججز بحالی تحریک کا ساتھ دیا۔
لال مسجد کا واقعہ پیش آیا، جنرل پرویز مشرف کم زور سے کم زور ہوتے چلے گئے اور یہ تاریخ کا سبق ہے آمر جب کم زور ہوتے ہیں تو یہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں، جنرل پرویز مشرف نے بھی غلطیوں کی لائین لگا دی، یہ محترمہ بے نظیربھٹو سے ملاقات پر بھی مجبور ہوئے، این آر او بھی کیا، شاہ عبداللہ کے دباؤ پر میاں نواز شریف کو پاکستان آنے کی اجازت بھی دی، وردی بھی اتاری، پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کو بھی تسلیم کیا اور آخر میں یہ صدارت سے مستعفی ہونے پر بھی مجبور ہو گئے۔
فوج کے نئے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انھیں بچانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن جنرل مشرف ہواؤں کی تبدیلی کے باوجود خود کو بین الاقوامی لیڈر سمجھتے تھے چناں چہ یہ جنرل کیانی سے بھی بگاڑ بیٹھے جس کا انجام ایک طویل خواری اور عبرت کی شکل میں نکلا، میری 2011 میں دوبئی میں ان کے ساتھ ایک لمبی میٹنگ ہوئی تھی، اس میٹنگ میں جنرل پرویز مشرف نے تسلیم کیا "میں ٹریپ ہو گیا تھا، مجھے جان بوجھ کر افتخار محمد چوہدری کے ساتھ لڑا دیا گیا تھا، لڑائی کا مقصد مجھے فارغ کرنا تھا" جنرل مشرف نے یہ بھی کہا " میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جنرل کیانی کو مشورے کے لیے بلاتا تھا، یہ دو دو گھنٹے میرے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔
میں بولتا رہتا تھا اور یہ چپ چاپ سگریٹ پیتے رہتے تھے یہاں تک کہ میں تھک کر خاموش ہو جاتا تھا، یہ اٹھتے تھے، مجھے سیلوٹ کرتے تھے اور چپ چاپ نکل جاتے تھے" جنرل مشرف اس زمانے میں جنرل کیانی سے بہت ناراض تھے، یہ سمجھتے تھے جنرل کیانی اگر مجھے فارغ کرانے کی سازش میں شامل نہیں تھے تو بھی انھوں نے میری مدد نہیں کی تھی، یہ اگر چاہتے تو یہ مجھے بچا سکتے تھے۔
ہم انسان دنیا میں ہر چیز تبدیل کر سکتے ہیں مگر ہم گزرے وقت کو تبدیل نہیں کر سکتے، انگریزی کا محاورہ ہے ماضی کو قدرت بھی تبدیل نہیں کر سکتی تاہم انسان آج کے زمانے میں بیٹھ کر ماضی کا تجزیہ ضرور کر سکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف اگر 9 مارچ 2007 کو طاقت کے گھوڑے پر نہ بیٹھے ہوتے، یہ تکبر کا شکار نہ ہوتے، یہ چیف جسٹس کو نہ بلاتے اور اگر بلاتے تو ان کے منہ سے گالی نہ نکلتی اور یہ اگر چیف جسٹس کے اختلاف کو قانونی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے تو آج شاید تاریخ مختلف ہوتی، جنرل مشرف کوایمرجنسی نہ لگانا پڑتی، ہماری تاریخ کے ماتھے پر این آر او کا دھبہ بھی نہ لگتا، پی سی او ججز کا حلف بھی نہ ہوتا، لال مسجد کا سانحہ بھی نہ ہوتا، بے نظیر بھٹو بھی شہید نہ ہوتیں، تحریک طالبان پاکستان بھی نہ بنتی، ملک میں خودکش حملے بھی شروع نہ ہوتے، 70 ہزار پاکستانی بھی شہید نہ ہوتے، ملکی معیشت، صنعت اور کاروبار بھی برباد نہ ہوتا، یوسف رضا گیلانی بھی ڈس کوالی فائی نہ ہوتے، میاں نواز شریف بھی آج اسپتال میں نہ ہوتے، آصف علی زرداری بھی اتنے بیمار نہ ہوتے، جنرل مشرف کو سزا بھی نہ سنائی جاتی اور آج جوڈیشری اور فوج کے درمیان لائین بھی نہ کھینچی جا رہی ہوتی، ہم اگر آج ماضی کا تجزیہ کریں تو ہمیں پچھلے 13 برسوں کے تمام اہم واقعات کے پیچھے جنرل پرویز مشرف کے منہ سے نکلے تین حرف ملیں گے۔
یہ اگر اس وقت اپنا غصہ کنٹرول کر لیتے تو یہ آج بھی ملک میں ہوتے اور ملک بھی بہت آگے جا چکا ہوتا لیکن کیا کریں تاریخ بتاتی ہے بادشاہوں کے منہ سے نکلے لفظ تاریخ کے سارے دھارے بدل دیا کرتے ہیں، قوموں کے ہر عروج وزوال کے پیچھے بادشاہوں کا تکبر ہوتا ہے۔
میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے حکم پر دسمبر 2013 میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ بنایا تھا، وزیراعظم کے حکم پر سیکریٹری داخلہ شاہد خان مدعی بنے، خصوصی عدالت نے 24 دسمبر2013 کو مقدمہ شروع کیا، 31 مارچ 2014 کو فرد جرم عائد ہوئی۔
یہ مقدمہ چھ سال چلا، 125 سماعتیں ہوئی، چھ بار بینچ ٹوٹا اور بنا، سات ججوں نے مقدمہ سنا، عدالت نے چھ بار جنرل پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کا موقع دیا مگرجنرل پرویز مشرف صرف ایک بار عدالت میں پیش ہوئے، 15اکتوبر 2018 کو انھیں ویڈیو لنک کی سہولت تک دے دی گئی مگر جنرل پرویز مشرف نے بیان دینے سے انکار کر دیا، جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے 2014 میں حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، دھرنے بھی شروع ہوئے، جنرل راحیل شریف نے انھیں اے ایف آئی سی میں بھی رکھا اور ملک سے باہر بھی بھجوایا، یہ اس وقت علیل بھی ہیں، ان کی ہڈیوں کی پروٹین ان کے خون میں گھل جاتی ہے جس سے ان کی ہڈیاں چھوٹی اور پتلی ہو رہی ہیں، یہ بار بار اسپتال بھی پہنچائے جاتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود مسائل پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ آج بھی اداروں کے ٹکراؤ کی وجہ بن رہے ہیں، یہ وہ کانٹا ہیں جو سسٹم کے حلق میں پھنس چکا ہے، عدالت اگر فیصلہ نہ دیتی تو یہ کیس عدالت کے چہرے کا دھبہ بن جاتا اور اگر فوج اپنے سابق آرمی چیف کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو فوج کی عزت پر حرف آتا چناں چہ عدالت نے 17 دسمبر کو فیصلہ سنا دیا اور فوج نے اسی شام غم، غصے اور اضطراب کا اظہار کر دیا، غم اور غصے کا یہ سلسلہ اگر رک جائے تو اچھا ہے لیکن یہ اگر اس سے بھی آگے جاتا ہے تو ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا، ملک کے دو مقتدر ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور حکومت درمیان میں آ کر پس جائے گی، حکومت اگر فوج کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی تو یہ فوج کی ہمدردی کھو دے گی اور یہ اگر عدلیہ کا ساتھ نہیں دیتی تو یہ اخلاقی مدد سے محروم ہو جائے گی۔
عمران خان پوری زندگی کہتے رہے ہیں قومیں اور ملک انصاف سے چلتے ہیں، یہ اپنی ہر دوسری تقریر میں نبی اکرمؐ کے اس فرمان کا حوالہ دیتے تھے " تم سے پہلے امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ وہ طاقتور کو چھوڑ دیتی تھیں اور غریب کو پکڑ لیتی تھیں " یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران سرونسٹن چرچل کا وہ قول بھی دہراتے ہیں "اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں توبرطانیہ کو کچھ نہیں ہوگا" لہٰذا یہ اگر آج عدالتوں کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیتے ہیں تو یہ اپنی بچی کھچی کریڈیبلٹی بھی کھو بیٹھیں گے چناں چہ چھری اوپر گرے یا نیچے بہرحال نقصان خربوزے کا ہو گا، مجھے خطرہ ہے حکومت اس ایشو کو بھی بحران بنا دے گی، بس عمران خان کا بابرکت ہاتھ لگنے کی دیر ہے اور آپ اس ڈور کو بھی گنجل بنتا دیکھیں گے، یہ بھی پانی پت کی لڑائی بن جائے گا۔
آپ جنرل پرویز مشرف کا کمال دیکھیے یہ 12سال بعد بھی، آئی سی یو میں لیٹ کر بھی ملک کو چلنے نہیں دے رہے، یہ آج بھی وکٹ بن کر کھڑے ہیں۔