قومی وطن پارٹی کی جدوجہد
ایک خبر کے مطابق قومی وطن پارٹی کے چیئرمین اور PDMکے سینئر نائب صدر، جناب آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے ایک بیان میں عمران خان کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ طالبان اصل میں پختون قوم پرست ہیں اور یہ پختونوں کی تحریک ہے، ان کے بیان کے مطابق "وزیراعظم پختونوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں، دنیا جانتی ہے کہ پختون امن پسند ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پختونوں نے قربانیاں دی ہیں، حکمران قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں، پوری دنیا جانتی ہے کہ پختون امن پسند اور محب وطن ہیں "۔
انھوں نے مزیدکہا کہ خطے میں قیام امن کے لیے پختونوں نے ہزاروں کی تعداد میں جانوں کی قربانی دی ہیں جب کہ لاکھوں نقل مکانی کرکے بے گھر ہوئے۔ عمران خان پختونوں کی قربانیوں اور تاریخ سے ناواقف ہے اور الٹے سیدھے بیانات سے ان کی تاریخ اور شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو قابل تشویش امر ہے، انھوں نے کہا کہ پختونوں کو کسی صورت میں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جائے گا اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا راستہ روکنے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا"۔
17اکتوبر2012کو قائم ہونے والی قومی وطن پارٹی کا نواں یوم تا سیس، 22 اکتوبر 2021کو منایا جا رہا ہے۔ پاکستان پنجابی، سندھی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی اور سرائیکی اکائیوں پر مشتمل ایک کثیر القومی و لسانی ریاست ہے، ان کے علاوہ یہاں گوجری، کھوار (چترالی)، ارمر، گلگتی، بلتی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جب کہ اردو کو قومی اور رابطے کی زبان کا درجہ حاصل۔ سرکاری معاملات کے لیے انگریری استعمال کی جاتی ہے۔ اس پارٹی کے قیام کا مقصد، بنیادی طور پر پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا ہے، جس میں چھوٹی قومیتوں خاص کر پختونوں کے جائز حقوق محفوظ ہوں۔
بدقسمتی سے پہلے سے موجود روایتی قوم پرست پارٹیاں، با وجود لاتعداد قربانیوں کے، اپنی سمجھوتہ بازیوں کی وجہ سے ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیں۔ پختونوں (پشتو) کے چند اہم سیاسی مسائل میں سب سے اہم یہ سمجھا گیا کہ پاکستان میں موجود پشتو بیلٹ کے بکھرے ہوئے حصوں کو متحد کرکے ایک صوبہ بنانا تھا، روایتی قوم پرست ان اہم مقاصد کے حصول میں ناکام رہے، حالانکہ ان کو تین اہم مواقع ملے۔ جب ون یونٹ ختم کیا گیا۔
اس وقت زور لگایا جاتا تو نہ صرف پختونوں کو ایک متحد صوبہ مل جاتا بلکہ میانوالی اور اٹک کو بھی پشاور ڈویژن کے ساتھ صوبہ سرحد میں شامل کرایا جا سکتا تھا، اس وقت کی کمزوری کا نقصان یہ ہو ا کہ جنوبی پشتو بیلٹ کو بلوچستان کے نئے قائم ہونے والے صوبے میں شامل کرلیا گیا اور فاٹا کو بھی الگ رکھا گیا، دوسرا موقعہ وہ تھا جب 1973کا آئین بن رہا تھا، یہ پہلا موقعہ تھا کہ سیاسی اور جمہوری قیادت با اختیار ہو گئی تھی۔
اس وقت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت کی سخت ضرورت تھی کیونکہ پاکستان کے دو صوبوں میں پیپلز پارٹی اور دو صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی کو اکثریت حاصل تھی، اس وقت پختونوں کے ایک متحدہ صوبے کی ڈیمانڈ پوری ہونے کا امکان تھا لیکن پختون روایتی قومی لیڈرشپ اس مسئلے پر خاموش رہی، یہی صور ت حال اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے وقت تھی، خیبرپختونخوا" کے نام کے لالی پاپ پر قیادت رضامند ہوگئی۔
اب سب آوازیں لگا رہے ہیں کہ پختونوں کا ایک متحدہ صوبہ ہونا چائیے لیکن ماضی کی ناکامیاں روایتی قوم پرستوں کے گلے میں پڑی ہیں۔ اب دنیا میں قوم پرستی کا دور ختم ہوچکا ہے کیونکہ کسی ایک ملک، صوبے یا شہر میں کسی ایک قوم کو مکمل اکثریت حاصل نہیں رہی ہے، اسی لسانی تفریق بھی بہت بڑھ گئی ہے، جیسے پنجاب میں سرائیکی کی بات کی جاتی ہے، ویسے ہی سندھ میں اردوبولنے والوں کی بات ہوتی ہے، ویسے ہی خیبر پختونخوا میں ہندکو، گوجری اور کھوار کی بات ہوتی ہے۔ بلوچستان میں پشتو، براہوی کی بات ہوتی ہے۔
ویسے بھی اب گلوبلائزیشن اور ملٹی پولر دنیا کا زمانہ ہے، اب پرانے نعروں سے عوام مطمئن نہیں، اس لیے پرانی روایتی نیشنلزم کی بجائے، نئے زمانے کی نیشنلسٹ نظریے" نیو نیشنلزم "کا پرچم لے کرقومی وطن پارٹی میدان میں آئی تاکہ پختونوں اور دیگر چھوٹی قومیتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ملک میں ایک "نئے عمرانی معاہدے" کے لیے مثبت جدوجہد کی جائے، جس میں ملک کے لیے ایک "نیا بیانیہ" سیکیورٹی ریاست کے بجائے ایک "فلاحی ریاست" کا قیام، ایک "حقیقی وفاقی جمہوری ریاست "اور" قومی حقوق "کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
قومی وطن پارٹی کو اپنے قیام کے فوراً بعد 2013کے انتخابات کا سامنا رہا، جن میں پارٹی کو کامیابی ملی، 2018کے انتخابات میں " مقتدر قوتوں " نے ایک پارٹی کو سلیکٹ کر کے حکومت دلوادی، اس کے نتیجے میں پوری ماڈریٹ پختون قیادت سیاسی میدان سے باہر ہوگئی، حالانکہ ایک طرف افغانستان سے تعلقات کی بحالی، فاٹا کا خیبر پختونخوا میں ادغام اور دہشت گردی کے مسائل حل کرنے کے لیے ان سیاسی قوتوں کی کامیابی ضروری تھی۔
قومی وطن پارٹی نے2018کی شکست کی داخلی اور خارجی عوامل جاننے کے علاوہ آیندہ کے لیے پختون قومی مسائل کے حل کے لیے وسیع تر مشاورت کے سلسلے میں پارٹی سیکرٹریٹ "وطن کور، میں مختلف کانفرنسوں کا اہتمام کیا، اس میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے صوبے کے نامور دانشور وں، ادیبوں، صحافیوں، فنکاروں اور معاشیات اور تعلیم کے ماہرین کو دعوت دی گئی اور ان سب کو کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا گیا، ہر کانفرنس کے بعد چیئرمین جناب آفتاب شیر پاؤ امید ظاہر کرتے کہ ان خیالات اور مشوروں سے پارٹی مستفید ہوگی۔
سیاسی پارٹیاں اور تحریکیں ایک انتخابی شکست سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ جب تک انسانی مسائل اور سماج موجود ہے تو سیاست کا عمل بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے گا، اسی لیے قومی وطن پارٹی پورے زور و شور سے کارکنوں اور پختون قوم کے لیے ایک متحرک اور قابل عمل منزل کی نشاندہی کررہی ہے۔ پختون خطہ خاص کر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے، ایک طرف افغانستان میں طالبان نے حکومت پر قبضہ کرلیا ہے اور باوجود ان کے دعووں کے امن کا خواب ابھی دور نظر آرہا ہے کیونکہ طالبان قیادت پرانے طریقوں سے اکیلے حکومت چلانا چاہتی ہے، دوسری طرف فاٹا کے ادغام کے خلاف قوتیں مصروف عمل ہیں، حکومت بھی ادغام کے موقعہ پر کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے، ان حالات میں پختون قومی، سیاسی اور مذہبی قیادت کو سیاسی میدان سے نکال کر خطے کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کردیا گیا ہے، اب اس سازش کے پس پردہ دوسرے مقاصد بھی ظاہر ہورہے ہیں، اٹھارویں ترمیم کی مخالفت اور صوبوں کے ایوارڈ میں حصوں میں کمی کی سازش ہورہی ہے۔ وفاقیت سے مفادات حاصل کرنے والی اشرافیہ کو صوبوں کو دیے گئے کچھ اختیا رات بھی قابل قبول نہیں، اٹھارویں ترمیم میں دیے گئے اختیارات کی مثال لالی پوپ کی ہے جس سے نچلے اور درمیانے طبقات کو دھوکہ دیا گیا ہے، اس لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ان حالات میں قومی مسائل اور قومی امنگوں سے بے خبر ایک بے ہنگم ہجوم کو جمہوریت کے نام پر صوبے اور مرکز پر مسلط کرا کے ملک میں ہائی بریڈاور کنٹرولڈ جمہوریت کا نظام نافذ کردیا گیا ہے۔ موجودہ صورت حال سے ملک کو نکالنے کے لیے ملک کی تمام جمہوری قوتوں نے (PDM) پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا ہے، اس اتحاد کا مقصد ملک سے غیر جمہوری حکومت کا خاتمہ اور فوری نئے انتخابات ہیں، ایک جمہوری پارٹی ہونے کے ناطے قومی وطن پارٹی بھی اس اتحاد کا حصہ ہے، پارٹی کے مرکزی چیئرمین اس اتحاد کے سینئر نائب صدر منتخب ہوئے ہیں، پارٹی پرعزم ہے کہ وہ اس جمہوری جدوجہد میں بھرپور اندازمیں حصہ لے گی، کیونکہ موجودہ حکومت نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔