پی ڈی ایم کے جلسے پر رد عمل؟
پی ڈی ایم نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک دوبارہ شروع کردی ہے، اس سلسلے میں پہلا جلسہ سوات منگورہ میں ہوا، عام تاثر یہ تھا کہ خیبرپختونخوا میں اے این پی کے بغیر کامیاب جلسہ نہیں ہوسکتا لیکن جلسہ بڑا تھا، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے بغیر یہ پہلا بڑا جلسہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عوام اب بھی پی ڈی ایم کوحکومت مخالف تحریک سمجھتے ہیں۔
ہر پارٹی کے رہنماء نے اس جلسے سے خطاب کیا، آفتاب شیرپاؤ، محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹرطاہر بزنجو نے بھی اپنے خطاب میں افغانستان کی صورت حال پر روشنی ڈالی، وہاں پر طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی اور وہاں ایک وسیع البنیاد عوامی جمہوری حکومت کے قیام کی حمایت کی، مقررین کا زیادہ زور پاکستان کی حکومت کے غیر جمہوری اقدامات پر تھا۔ آخری خطاب مولانا فضل الرحمان کا تھا، انھوں نے بھی افغانستان کے بارے میں اپنی پارٹی کا موقف بیان کیا اور طالبان کو فاتح اور امریکا کو شکست خوردہ بیان کیا، چونکہ پی ڈی ایم کا اتحاد موجودہ حکومت کے خاتمے اور دوبارہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے کم از کم پروگرام پر ہے، اس لیے اس سے زیادہ اپنی پارٹی کے پروگرام کے متعلق بات کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، جب مخالفین کو اور کوئی بہانہ یاکمزوری نہیں ملی تو اب مولانا کی تقریر کو بنیاد بناکر پی ڈی ایم کی پوری تحریک کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس تنقید میں ہمارے بائیں بازو کے دوست بھی شامل ہیں جواپنی آرام پسندی اور بے عملی کی وجہ سے پہلے ہی سیاسی میدان سے باہر ہو گئے ہیں، ان کا سوشل میڈیا کے سوا کسی بھی تحریک میں کوئی کردار نہیں ہے، فیس بک اور ٹویٹر کے میدان میں انھوں نے مولانا کی تقریر کی آڑ میں پی ڈی ایم کی پوری تحریک کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے اور پوری جمہوری تحریک کو طالبان نواز ثابت کرنے میں لگ گئے، حالانکہ اگر وہ ذرا تکلیف کرکے جلسے میں آتے تو تمام لیڈروں کی تقریریں سن کر کوئی اندازہ لگا لیتے، جن رہنماؤں نے افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کی مخالفت کی تھی اور افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، ان تقاریر پر جمعیت کے کسی فرد نے تو اعتراض نہیں کیا تھا۔
شاید جلسے کی کامیابی پر سب سے زیادہ پریشانی اے این پی کو ہوئی، حالانکہ جب وہ پی ڈی ایم کے ممبر تھے تب بھی مولانا کا لہجہ یہی ہوتا تھا لیکن انھوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ سب کو معلوم ہے کہ مولانا کے والد مفتی محمود کو وزیر اعلیٰ بھی نیپ نے بنایا تھا اس وقت بھی مولانا کے والد اسلامی نظام کا نعرہ لگاتے تھے۔ اب جب کہ ملک دو واضح کیمپوں میں تقسیم ہوگیا ہے، ایک طرف حکومت کے حامی اور دوسری طرف حکومت مخالف کھڑے ہیں تو یہ پتہ نہیں لگتا کہ اے این پی کس کیمپ کے ساتھ کھڑی ہے؟ سیاست میں غیر جانبداری نہیں ہوتی، یا آپ حکومت کے مخالف ہیں اور اگر نہیں تو پھر آپ حکومت کے حامی ہیں، اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ اے این پی اور ان کی پارٹنر پیپلز پارٹی عمران خان کی حکومت کو مضبوط کرنے کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں، یہ عجیب امر ہے کہ میاں افتخار نے پی ڈی ایم کے سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت میں اعلان کیا تھا کہ "سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مسلم لیگ کا ہوگا اور چیئرمین پیپلز پارٹی کا ہوگا"۔ جب یہ معاہدہ توڑا گیا تو بجائے اپنے اعلان کا دفاع کرنے، اے این پی اتحاد سے الگ ہوگئی، جس طرح پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم، صدر اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں پی ٹی آئی حکومت کو سہولت فراہم کی تھی اور اب کشمیر اور اس سے قبل گلگت بلتستان کے انتخابات میں حزب اختلاف کا مشترکہ امیدوار لانے کے بجائے اپنا امیدوار کھڑا کرکے تحریک انصاف کو جیتنے کا موقع دیا، اسی طرح اے این پی نے نوشہرہ کے ضمنی انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرکے پرویز خٹک کوجیتنے کا پورا موقع دیا لیکن قسمت کو ان کا منصوبہ منظور نہیں تھا اور اے این پی نے کم ترین ووٹوں کا ریکارڈ قائم کردیا۔
قوم پرستی کسی خاندان یا فرد کی میراث نہیں ہوتی، ہر وہ انسان جو اپنی قوم سے محبت کرتا ہو اور اس کی فلاح کے لیے جدوجہد کرتا ہو وہ قوم پرست ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آفتاب شیرپاؤ، خیبر پختونخوا کے وسائل اور مسائل پر پورا عبور رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کا نقصان شیرپاؤ خاندان کو بھی ہوا ہے، آفتاب شیر پاؤ کے بڑا بھائی حیات محمد خان شیرپاؤ دہشت گردی کا شکار ہوئے، خود ان پر چار حملے ہوئے، ان کا بیٹا شدید زخمی ہوا، ان کی پارٹی کے سیکڑوں ممبران ان حملوں میں زخمی اور شہید ہوئے، ان حادثات کے بعد کون توقع کرسکتا ہے کہ آفتاب شیرپاؤ دہشت گردی کی حمایت کریں گے۔
سیاست میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی پارٹی یا سیاسی لیڈر دوسروں کی کمزوریوں پر کامیاب نہیں ہوسکتا، کامیابی کے لیے اپنی خوبیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، اس وقت پختون قوم میں اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ بہت بڑے خطرات سر اٹھا رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پختون قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سنجیدگی سے آنے والے حالات اور خطرات کا جائزہ لیں اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بندوبست کریں۔ یہ سوچ تو اب ہونی چاہیے کہ سیلاب جب آتا ہے تو چند مخصوص گھر اس کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ پوری قوم اس کا نشانہ ہوتی ہے۔ قومی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اور دیگر بائیں بازو کی پارٹیوں کے کندھوں پر تاریخ نے بہت بڑی ذمے داری ڈالی ہے، یہ سب پارٹیاں ایک حقیقت ہیں، محترم ایمل خان کو مضبوطی سے قوم کے تحفظ کا سوچنا ہوگا، یہ کیا پالیسی ہے کہ کوئی فرد شہید ہوجائے، ہم صرف اس کا جنازہ پڑھائیں، فیس بک پر تعزیت کریں اور کبھی کبھی ان کی برسی منائیں، اب ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ بہت بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔ ایک دوسرے پر تنقید کا وقت انتخابات کا ہوتا ہے بحران کے وقت آپس میں بھائی چارہ لازمی ہے۔