خیبرپختونخوا کی محرومیاں
آج کے کالم میں خیبرپختونخوا کی داستان غم۔ خیبرپختونخوا پانی سے سستی اور ماحول دوست بجلی کا 65 فی صد پیدا کرتا ہے، تربیلہ ڈیم، جبن اور ورسک کے علاوہ بہت تاخیر سے بھاشا، داسو اور مہمند ڈیم شروع کیے گئے ہیں۔ واپڈا کے ویژن کے مطابق صرف بھاشا ڈیم کے چند فوائد۔ اس ڈیم کا بنیادی مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا، آبپاشی اور بجلی کی پیداوار ہے۔
4500میگاواٹ ماحول دوست اور صاف پانی سے بجلی پیدا ہوگی۔ اس ڈیم میں اضافی8، 500، 000ایکڑ فٹ (10.5km-3)پانی جمع ہوگا، یہ پانی ملک میں پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ایوبی دور میں مشرقی دریاؤں کو انڈس واٹر معاہدے کے تحت ہندوستان کے ہاتھ بیچ دینے کے بعد ہمارے پاس صرف مغربی پہاڑوں سے آنے والے دریا ہی باقی بچے ہیں، اس لیے پانی کے ذخیروں کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے۔
مٹی اور ریت کو روک کر نیچے کی طرف واقع تربیلہ ڈیم کی عمر میں 35سال کا اضافہ ہوگا، تربیلہ اور منگلا تقریباً 30فی صد سے زیادہ ریت اور مٹی سے بھر چکے ہیں اور اندیشہ ہے کہ آیندہ پانچ سے دس سال میں ان ڈیموں کی گنجائش آدھی رہ جائے گی۔
سیلابی سیزن میں دریائے سندھ کے پانی سے ہونے والی تباہی کو روکے گا، بھاشا ڈیم کا ذخیرہ آب کافی بڑا ہوگا اور وہ سیلاب کے سیزن میں اضافی پانی کو اوپر روک لے گا، اگر بھاشا کا ذخیرہ ہوتا تو 2010 کے سیلاب کی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔ جس موسم میں پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے، اس دوران بھی آبپاشی کے لیے اضافی 6، 400، 000ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا، سردیوں میں برف پگھلنا بند ہوجاتی ہے اور پانی کا بہاؤ کم ہونے سے تربیلہ ڈیم میں پن بجلی کی پیداوار بہت کم ہوجاتی ہے، بھاشا ڈیم کے ذخیرہ آب کی وجہ سے پانی کا بہاؤ کم نہیں ہوگا اور اس طرح بجلی کی پیداوار میں کمی نہیں ہوگی، اس ڈیم کا پانی نہ صرف تربیلہ، غازی بھروتہ اور، چشمہ وغیرہ کو فائدہ دے گا بلکہ اس کی وجہ سے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ میں بھی بجلی کی پیداوار پورے سال برابر رہے گی۔
سستی پن بجلی کی پیداوار کا ایک اور ماحول دوست اور قابل اعتماد ذریعہ پیدا ہوجائے گا۔ مہنگی اور ماحول دشمن تھرمل بجلی پر انحصار کم ہوجائے گاجس کی وجہ سے ماحول بھی صاف ہوگا اور قیمتی زر مبادلہ بھی بچے گا۔ روزگار کے عارضی اور مستقل مواقع بڑھیں گے، خاص کر مقامی لوگوں کے لیے۔ اس ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں بہت بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تعمیر ہوگی جس سے اس دشوار گزار اور ناقابل رسائی علاقے کے عوام کی سماجی اور معاشی معیار زندگی بلند ہوگی۔ ان عوامل کی وجہ سے، دعوے کیا جا سکتا ہے کہ بھاشا ڈیم کو کالاباغ ڈیم پرہر حالت میں فوقیت حاصل ہے۔
اس وقت جب ملک دہشت گردی، کرپشن اور خراب طرز حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہے، ہمیں یہ بھی سوچنا چائیے کہ ہماری خراب اقتصادی صورت حال کی بنیادی اور بڑی وجہ بجلی کی کمی اور اس کی زیادہ قیمت ہے، اس ملک میں اب تک معلوم ہائیڈرو الیکٹرک کے ذرائع کی صلاحیت 100، 000میگاواٹ ہے اور یہاں پر غیر متنازع پراجیکٹس کی صلاحیت 61، 000 میگاواٹ ہے۔
تین اہم امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو اگلے 15سال میں سسٹم میں کم از کم 50، 000 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہوگا، دوسرا یہ کہ اس وقت ملک میں 1000سے زیادہ ایسے ہائیڈل پراجیکٹ ہیں جہاں سے مسلسل، سستی، صاف اور بہتر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ا س وقت 87بڑے اور چھوٹے پن بجلی کے منصوبے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں، ان میں 11بڑے منصوبوں میں، 4500 میگاواٹ کا دیامر بھاشا ڈیم، 4320میگاواٹ کا داسو ڈیم، 7100میگاواٹ کا بونجی ڈیم، 2800میگاواٹ کا پٹن ڈیم، 2800میگاواٹ کا تھاکوٹ ڈیم، 2800میگاواٹ کا یلبو ڈیم، 2100میگاواٹ کا تنگس ڈیم، 960میگاواٹ کا ڈوڈنیال ڈیم، 969 میگاواٹ کا نیلم جہلم ڈیم، 1100میگاواٹ کا کوہالہ ڈیم، 1410 میگاواٹ کا تربیلہ فور اور اتنی ہی صلاحیت کا تربیلہ فائیو، کے علاوہ منگلا توسیعی منصوبہ شامل ہیں۔
ان تمام منصوبوں سے کل 40، 749 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اوریہ تمام منصوبے واپڈا کے ویژن 2025کا حصہ ہیں۔ ان منصوبوں میں زیادہ ترمنصوبے خیبر پختونخوا میں واقع ہیں، اس طرح قدرت نے پاکستان کے خیبرپختونخوا کو ہر نعمت سے نوازا ہے، بس کسی چارہ گر کی تلاش ہے، آج بھی خیبر پختونخوا بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے، صنعتوں کے لیے سستی بجلی نہیں ملتی، پن بجلی کے منافع کا وعدہ بھی ابھی تک وفا نہ ہوسکا۔
اس خطے میں، تیل اور گیس کے کس قدر وسیع ذخائر موجود ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جولائی2004میں شکردرہ کوہاٹ، جنوری 2005 میں گرگری کرک اور جنوری2006میں مکوڑی کرک کے آئل اینڈ گیس فیلڈ سے صرف ایک ایک سال کے وقفے میں کمرشل پیداوار شروع ہوئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلاہے اور کوہاٹ کرک سمیت مختلف علاقوں میں مزیدذخائر دریافت ہوئے، کچھ عرصہ قبل ایک خبر آئی کہ خیبرپختونخوا میں لکی کے مقام پر تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے میں گیس اور تیل کے کتنے وسیع ذخائر موجود ہیں، باخبر ذرائع کے مطابق حکومت کو ان ذخائر کا پہلے سے بھی معلومات تھیں لیکن بعض نا معلوم وجوہات کی بناء پر ان ذخائر کو زیر زمین رکھا گیا، اب تو صورت حال یہ ہے کہ جہاں پر کھدائی ہوئی وہاں کامیابی حاصل ہوئی۔ تیل اور گیس کے ذخائر کے باوجود خیبر پختونخوا کا بڑا علاقہ آج بھی گیس سے محروم ہے۔ مضبوط اندازوں کے مطابق پختونخوا میں گیس کے کل ذخائر 19ٹریلین مکعب فٹ ہیں اور تیل کے کل ذخائر 600ملین بیرل ہیں، افسوس کہ خیبر پختونخوا کے عوام اپنی دولت سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔
پہاڑوں کے دامن میں کوئلے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں، معدنیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں سونے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں، ماربل سمیت لاتعداد معدنی ذخائر خیبر پختونخوا میں موجود ہیں اور ان کی کھدائی بھی شروع ہے، یہ سارا خام مال ملک بھر میں جاتا ہے کیونکہ خیبر پختونخوا میں ماربل کٹنگ، فنشنگ اور پولش کے لیے صنعتیں موجود نہیں ہیں۔ محترم آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی کوششوں سے قائم شدہ گدون امازئی صنعتی بستی کی مراعات ختم کرکے ان صنعتوں کا گلا گھونٹا گیا، اس وقت صوبے میں مسلم لیگ اور اے این پی کی مشترکہ حکومت تھی، یہ کھنڈرات ابھی تک حکومت کی نظر التفات کی منتظر ہیں، 2008کے انتخابات میں کامیاب ہو نے والی اے این پی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں تو بہت سی صنعتیں تباہ ہوگئیں، غرض ایسا لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا صنعتوں کا ایک عظیم قبرستان ہے، ہر طرف کارخانوں کے کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں۔
آج کل وزیر اعظم عمران خان کا زیادہ زور سیاحت پر ہے۔ خوش قسمتی سے سیاحت کے بڑے مراکز اور خوبصورت علاقے خیبر پختونخوا میں ہیں، لیکن سیاحت کے لیے جو لوازمات لازمی ہوتے ہیں، وہ موجود نہیں، سڑکیں اچھی ہیں نہ رہائشی بندوبست سیاحوں کے لیے سازگار ہے، مذہبی اور سماجی بندشیں بھی سیاحت کی راہ میں رکاؤٹیں ہیں۔ اس عید میں ملاکنڈ اور ہزارہ سمیت دیگر علاقوں میں سیاحوں کو گاڑیوں میں راتیں بسر کرنی پڑیں کیونکہ سڑکیں تنگ ہیں اور روڈ بلاک ہوجاتی ہے۔ غرض کہاں تک سناؤں، خیبر پختونخوا جنت نظیر علاقے کی مثال ہے لیکن اس کو آج تک اپنے وسائل کے استعمال کا موقع نہیں ملا، اس لیے پختون روزگار کے سلسلے میں اپنی جنت جیسے علاقوں کو چھوڑ کر پاکستان اور باہر کے ملکوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔