حکومت کی آمدنی بڑھانے کا آسان منصوبہ
عمران خان کو شوکت ترین جیسے وزیر خزانہ کی تلاش تھی جو روپیہ جمع کرنے کا ماہر ہے، جب سے وزیر بنا ہے کوئی دن مہنگائی اور ٹیکس میں اضافے کے بغیر نہیں گزرتا، ویل ڈن ترین صاحب، وزیر اعظم کو خوش کردیا اور اب آپ سینیٹر بننے کے لائق ہوگئے ہیں۔
ہر روز صبح اٹھ کریا رات کو سوتے وقت خبروں کی سرخیاں ضرور سنتا ہوں، ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ حکومت کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہ کرتی ہو، تحریک انصاف کی تو حکومت ہے لیکن اس کے ساتھ، باپ پارٹی، شیخ رشید، مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی مومنٹ بھی بطور اتحادی، مہنگائی کا سونامی لانے میں برابر کی حصہ دار ہیں، حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی اخباری بیانات کے سوا اس مسئلے پر خاموش رہتی ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ مہنگائی کے خلاف حزب اختلاف کوئی مشترکہ قدم اٹھائے لیکن جماعت اسلامی سو پچاس افراد کا جلوس فحاشی کے خلاف نکال کر عوام کے غصے اور ایک مشترکہ جدوجہد کے غبارے سے ہوا نکال دیتی ہے، دوسری پارٹیاں تو یہ تکلف کم کرتی ہیں، حکومت بڑے مزے سے قیمتوں میں اضافے پر اضافہ کر رہی ہے، آج تک کبھی بھی اسمبلی میں اس مسئلے پر کوئی ٹھوس بات یا واک آؤٹ نہ ہوسکا۔ خبر آئی ہے کہ نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے، صوبے کے نام کی تبدیلی پر جشن منانے والوں سے فریاد ہے کہ خیبر پختونخوا کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، کیا 18ویں ترمیم کے بعد بھی ہماری پیداکردہ سستی بجلی ہماری قسمت میں نہیں ہے، آخر اس ترمیم کا فائدہ کیا ہوا؟
میرا ایک دوست ہے جو ہر وقت مہنگائی کا رونا روتا رہتا ہے، میاں بیوی، پانچ بچے، بوڑھے والدین اور تھوڑی سی زمین کسی سرکاری محکمے میں ملازم ہے، چند ہزار تنخواہ حالانکہ وہ اچھا خاصا تعلیم یافتہ بھی ہے۔ وہ ہر وقت منصوبے بناتا رہتا ہے، بظاہر اس کے منصوبے بڑے عام فہم اور سادہ ہوتے ہیں لیکن خدا جانے اس کے منصوبے موجودہ حالات میں قابل عمل بھی ہیں کہ نہیں، تاہم یہ بات طے ہے کہ اس کے منصوبے ذاتی کے بجائے عوامی بہبود اور ملکی بہتری کے ساتھ زیادہ وابستہ ہوتے ہیں۔
وہ ایک درد دل رکھنے والا ایسا پاکستانی ہے جو اپنی تمام تر مالی پریشانیوں کے باوجود منصوبے بناتے وقت اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ پاکستان کی بھلائی اور بہتری کے لیے سوچتا ہے، بس اس کے سارے معاملات میں ایک ہی خرابی ہے کہ اس کے ہر منصوبے میں فساد فی الا رض کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے، اس کا ایک رشتہ دار انکم ٹیکس میں ملازم ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت مالدار ہو گیا ہے، ایک خبر پڑھی کہ FBRکو زیادہ خودمختاری دی جارہی ہے۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد کہنے لگا کہ ملک کی معاشی اور اقتصادی بدحالی کا سب سے بڑا سبب تو یہی ہے، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو کہنے لگا کہ تمہیں تو علم ہوگا کہ ملکی مالی وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس ہیں، میں نے کہا تم درست کہتے ہو، وہ دوبارہ پوچھنے لگا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ پاکستان میں ٹیکس کی وصولیاں درست طرح سے ہو رہی ہیں؟ میں نے جواباً انکار میں سر ہلادیا۔ کہنے لگا کہ ایک تو ہمارے ہاں ٹیکس قوانین احمقانہ ہیں، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس وصولی پرمامور افسران اپنی ذات سے آگے نہیں سوچتے، تیسرا یہ کہ ٹیکس دہندگان بھی ٹیکس ادائیگی کے بجائے مک مکا پر یقین رکھتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے، ایک کاروباری گروپ لاکھوں روپے رشوت دے کر کروڑوں کا ٹیکس بچا لیتا ہے، دوسرا بڑا فائدہ اٹھانے والا ٹیکس وصولی پر مامور سرکار کا ملازم ہے، جو گورنمنٹ کو کروڑوں روپے کا چونا لگانے کے عوض لاکھوں روپے اپنی جیب میں ڈال کر سارے ٹیکس کے نظام کو ملیا میٹ کر رہا ہے اور نقصان صرف حکومت کا ہو رہا ہے۔ ہر سال پاکستان میں کئی ہزار ارب روپے کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے اور ٹیکس وصولی کا جو ٹارگٹ ہر سال مقررّکیا جاتا ہے وہ بھی پورا نہیں ہوتا۔
بھلے وقتوں میں ہر چیز کا بجٹ میں سالانہ طے کر لیا جاتا تھا اور ہر شخص اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سال کا بجٹ بنالیتا تھا، اب ہر پندرہ دن کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمت طے ہوتی ہے، ہر تیسرے دن ایل پی جی اور سی این جی کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوتا ہے، ہر مہینے کئی ماہ قبل استعمال کی گئی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بقایا جات وصول کیے جاتے ہیں، چینی، گھی، چاول اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں دکاندار اور ذخیرہ اندوز اپنی مرضی سے اضافہ کرتے ہیں، غریب اور سفید پوش لوگوں پر ہر روز کوئی نہ کوئی اضافہ بم گرایا جاتا ہے۔
صرف نوکری پیشہ لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیتے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ ان کی تنخواہ میں سے یہ ٹیکس د فتر میں ہی کاٹ لیا جاتا ہے، ٹیکس وصولی کا سب سے بڑا ذریعہ اب کاروباری یا پیشہ ور حضرات وغیرہ نہیں بلکہ موبائل فونز، ٹیلی فون اور اسی قسم کے حکومتی اور غیر حکومتی سہولتوں پر کاٹا جانے والا ایڈوانس ٹیکس ہے، جب ٹیکس ہر چیز پر اور ودہولڈنگ کے نام پر خواہ مخواہ کاٹا جاتا ہے تو اس صورت حال میں FBR نامی محکمے کی ضرورت کیا ہے؟ پاکستان کا ہر فرد روزانہ ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس ادا کرتا ہے، اس کے باوجود حکومت کا رونا ہے کہ بہت کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں، شاید وہ ودہولڈنگ ٹیکس اور مختلف قسم کے سرچارجوں کو ٹیکس نہیں سمجھتی، ظلم یہ ہے کہ روزانہ کادھاڑی دار مزدور بھی موبائل اور اشیائے ضروریہ پر مختلف ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا یہ باتیں تو ٹھیک ہیں مگر اس سے معاشی اور اقتصادی بہتری کا پہلو کہاں سے آگیا؟ وہ کہنے لگا کہ وہ میں اب بتاتا ہوں کہنے لگا کہ حکومت کو چاہیے کہ بجلی 97.89 روپے فی یونٹ، پٹرول 618.44روپے فی لیٹر، ڈیزل 800.25 روپے فی لٹر، ایل پی جی 597.93 روپے فی کلوگرام اور گیس کی قیمت جو اس وقت قریباً 1300روپے ہے کو بڑھا کر ایک ہی بار 6724.70روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردے۔
اس کے علاوہ ہر سفر کرنے والے شخص پر ایک کلومیٹر پر دس روپے ٹیکس، ہر شادی پر 10000روپے اور ہر پیدا ہونے والے بچے پر 20ہزار روپے ٹیکس لگا دے، ہر طالبعلم پر بھی 1لاکھ روپے ٹیکس لگایا جا سکتا ہے، اسپتالوں میں مریضوں کو بھی5000روپے ٹیکس دینا چاہیے، آخر وہ بھی حکومتی سہولیات استعمال کر رہے ہیں، اس سے حکومت کو اتنا ٹیکس مل جائے گا کہ ادھر ادھر سے مانگے تانگے کی، چھوٹے چھوٹے لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، اس کے ساتھ ساتھ FBR کا جواز بھی ختم ہوجائے گا۔
غریب سہولیات سے توبہ کرلے گا، امیر آدمی یہ سہولتیں استعمال کرے گا اور ادائیگی کرے گا۔ حکومت کو اسکول اور کالج بنانے پڑیں گے اور نہ اسپتالوں پر فضول پیسہ ضایع ہوگا۔ گاڑیوں کی امپورٹ بند ہوجائے گی، بجلی کی لوڈشیڈنگ تو رہی ایک طرف ہم فالتو بجلی بھارت کو بیچنے کے قابل ہوجائیں گے۔
چاروں طرف خوشحالی کی لہر بہر ہوجائے گی، میں نے کہا غریب کیا کرے گا؟ وہ کہنے لگا روز روز کے مرنے سے ایک بار کا مرنا بہتر ہے، ویسے بھی جو لوگ اس معاشرے پر بوجھ ہیں، جتنا بھی کم ہوجائیں، بہتر ہے ڈارون کا قول ہے کہ "فطرت میں وہ نسلیں زندہ رہتی ہیں، جن میں بدلتے حالات کے ساتھ مقابلے کی سکت ہو"اس کو وہ "survival of the fittest "کہتا ہے، ہٹلر نے کہا تھا کہ " کمزور کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے"۔ اس ملک کے غریبوں کو واقعی جینے کا حق نہیں ورنہ ضرور اپنے حق کے لیے لڑتے۔
میں نے پوچھا اس پر تو بڑا ہنگامہ ہوگاوہ کہنے لگا کہ مجھے پتہ ہے کہ ہنگامہ کیا ہوگا؟ ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دے گی، لیکن پھر وہ بجلی کی قیمت چودہ پیسے فی یونٹ، پٹرول کی قیمت ترانوے پیسے اور ڈیزل کی قیمت ستانوے پیسے فی لٹر، سی این جی اٹھارہ پیسے اور ایل پی جی تینتیس پیسے فی کلوگرام اور گیس ایک روپے نو پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو کم کرنے پر دوبارہ راضی ہوجائے گی۔ اے این پی کے پریس سیکریٹری ایک مذمتی بیان جاری کریں گے اور بس، مریم اورنگ زیب اور احسن اقبال ایک گرما گرم پریس کانفرنس کریں گی، مولانا صاحب اعلان کریں گے کہ جمعیت کا سیلاب دس دن میں پوری حکومت کو ختم کر دے گا۔ سراج الحق صاحب کہیں گے کہ کل ہم پورے ملک میں مظاہرے کریں گے اور اسلامی نظام لاکر نرخ کم کریں گے۔
اسی طرح دوسری پارٹیاں بھی مہنگائی کے خلاف کم اور اپنی پارٹی کی مشہوری کے لیے، سو دو سو افراد کے ساتھ سڑک پر آجائیں گی۔ میں نے پوچھا تم نے ہر چیز کے نرخ میں پیسے کیوں لگائے ہیں، سیدھا سادا روپوں میں کیوں نہیں رکھا، کہنے لگا آخر حکومت کو نرخ کم کرنے کے لیے کوئی مارجن تو دینا ہوگا، جب حزب اختلاف احتجاج کرے گی تو حکومت کیا کم کرے گی، آپ یقین کریں میں اس کے منصوبے سے سو فی صد متفق ہوں، میں سوچ رہا تھاکہ ہم ان سہولتوں کے متعارف یا ایجاد ہونے سے پہلے بھی زندہ تھے اور گمان غالب ہے کہ زیادہ خوشی اور عزت کے ساتھ زندہ تھے، اب ہم ان سہولتوں کی بنیاد پر قسطوں میں مر رہے ہیں جب مرنا ٹھہرا تو آبرو سے مرنے میں ایک وقار تو ہوتا ہے، اپنے حق کے لیے لڑنا تو ہمارے لیے ناممکن ہے اس لیے مرنے کا آپشن بہتر ہوگا۔