ڈاکٹر قدیر کی خدمات
آج پاکستان یتیم ہوگیا، ڈاکٹر قدیر نے پاکستان کی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، ڈاکٹر قدیر محسن پاکستان ہیں، ڈاکٹر قدیر کی موت پر پورا پاکستان غمزدہ ہے اور ڈاکٹر قدیر کی موت پر آسمان بھی رو رہا ہے۔
ڈاکٹر قدیر کی اچانک موت پر یہ تمام خبریں اور تبصرے میڈیا کی زینت بنے، پورے ملک میں ان کی موت پر غائبانہ نماز جنازے پڑھے گئے، سوشل میڈیا پرہر فرد دوسروں سے زیادہ افسوسناک تبصرے کر رہا تھا اور وزیر اعظم اور صدر کے علاو آرمی چیف اور دوسرے اعلی حکام نے بھی ان کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس دن مجھے قاسمی صاحب کے اس شعر پر یقین آگیا کہ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
ان تبصروں سے ثابت ہوا کہ پاکستان کی قوم کتنی بے حس ہے، اگر ڈاکٹر واقعی محسن پاکستان تھے تو وہ پچھلے 14-15سال سے عملی طور پر نظر بند کیوں تھے، ان پر لوگوں سے ملاقات پر پابندی کیوں تھی، اگر ٹی وی پر کی گئی۔
ان کا اقرار جرم صحیح تھا تو ان پر کیس کیوں نہیں چلا؟ اگر یہ غلط تھا تو پھر ان سے ایسا اقرار کیوں کرایا گیا؟ کن کو بچانے کے لیے ان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا؟ یہ سارے راز ان کے ساتھ دفن ہوگئے لیکن ان سارے واقعات سے پاکستان کے قوم کی بے حسی ثابت ہوتی ہے، ان کی موت تک کسی نے بھی ان کے لیے آواز نہیں اٹھائی، ایک نامورسائنسدان کو ہم نے غیر مسلم کہہ کر بھگا دیا اور دوسرے کو غدار بنادیا، پھر بھی ہم ترقی کے خواب دیکھتے ہیں؟ آج جو لوگ ان کے لیے آنسو بہا رہے ہیں انھوں نے بھی کبھی ان کے لیے کچھ نہیں کیا نہیں کیا۔ بہرحال یہ دکھ بھری خبر کو یہاں روک کر دل کو ہلکا کرنے کے لیے ایک چٹکلہ سناتے ہیں جو ا پنے اندر ہزار معنی لیے ہوئے ہے۔
"میرا مرحوم دوست نورزادہ ان پڑھ ہونے کے باوجودبلا کا حاضر جو اب تھا، انھوں نے ایک کہانی سنائی۔ مکرم خان کا کا اور اس کی بیو ی، گاؤں سے دور ایک چھوٹے سے بانڈہ میں ا یک چھو ٹے سے گھر میں رہتے تھے۔
دونو ں بوڑ ھے تھے، اولاد اپنے اپنے گھروں کی ہو گئی تھی، ا یک سا ل علاقے میں چو ر یا ں زیادہ ہونے لگیں، ا یک د ن بیو ی نے کا کا سے کہا کہ تقریبا ہر ر ا ت کسی نہ کسی کے گھر میں چو ر گھس آ تے ہیں اور گھر و ا لو ں کو ڈرا د ھمکا کر لو ٹ لیتے ہیں، ہما ر ے گھر میں کو ئی ا سلحہ بھی نہیں ہے اس لیے ا حتیا طا ا یک بند و ق خر ید نی چا ہئے، مکر م خان کا کا نے اس بات سے اتفاق کیا، رقم پاس نہیں تھی اس لیے اس نے گا ئے بیچ کر ایک بندو ق خر ید لی، اب ان کے غر بت کے ما رے اس گھر میں سب سے قیمتی چیز یہ بند و ق تھی، دو نو ں میا ں بیو ی نے اس کو صا ف کیا۔
اس کے گر د کپڑا لپیٹا اور اس کو گھر میں پڑ ے ہو ئے صند و ق میں کپڑ وں کے نیچے تہہ میں ر کھ د یا، ا یک رات خد ا کا کر نا کیا ہو ا کہ صحن میں آ ہٹ سنا ئی دی، بڑھیانے شو ہر کو ا ٹھا کر کہا کہ شا ید گھر میں چو ر گھس آ ئے ہیں، اس پر مکر م خان کا کا نے کہا کہ کہیں چو ر بند و ق نہ لے جا ئیں اس لیے ہمیں اس کی حفاظت کرنی چائیے، بڑھیا نے مشورہ دیا کہ ہمیں بند و ق و ا لے صند و ق پر بیٹھنا چا ہیے تا کہ بندو ق کو چو ر وں سے بچایا جا سکے، چور در وازہ تو ڑ کر اندر گھس آ ئے سا ما ن ا ٹھا تے ر ہے اور میا ں بیوی دو نو ں صند و ق پر بیٹھے ان کی منتیں کرتے ر ہے۔
چوروں نے ان کی طر ف تو جہ نہ دی اور گھر کا د یگر ساما ن لے کر چلے گئے، صبح جب پاس پڑوس کے لوگو ں کو پتہ چلا تو و ہ کا کا کے گھر معلو مات کر نے آئے اور کا کا سے ہمدردی کا اظہار کیا، کاکا نے بڑے فخر سے کہا کہ چو ر تو گھر کا صفا یا کر گئے لیکن ہم میا ں بیو ی نے ا پنی عقلمندی سے گھر کی سب سے قیمتی چیز ان سے بچا لی، لو گو ں نے قیمتی چیز کے بارے میں پو چھا تو اس نے جو اب د یا کہ بند و ق جس صند و ق میں ر کھی تھی اس پر ہم میاں بیوی بیٹھے ر ہے اور چوروں نے اس طر ف تو جہ نہ دی"۔
اب ذرا دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی بحران بھی موجود ہے اور انتظامی بحران بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ طاقت وروں میں آویزیش اور کھنچا تانی بھی ہے۔ یہ فلسفہ تو سب معلوم ہے کہ مضبو ط فو ج اور جد ید ا سلحہ ملکو ں کا د فا ع کر سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام، معاشی مضبوط اور قانون کی حکمرانی اور عوام کا ملک سے پیار بھی بہت اہم ہے۔ جہاں یہ چیزیں نہیں ہوگی، صرف اسلحہ ہوگا تو بھی بات نہیں بنے گی۔
مدا ئن اور قا د سیہ کے مید ان اس با ت کے گو ا ہ ہیں کہ سلطنت ا یران وروم کی طا قت ور تر ین افواج کو مٹھی بھر عر ب مسلمانوں نے شکست دی تھی، کیونکہ ا یر ان اور رو م کے با د شا ہو ں نے سرکاری خزانے ذا تی عیاشیو ں پر لٹا د ئیے تھے، ان کی رعایا بددل اور بے حا ل تھی اور بادشاہ اور اس کے درباریوں کو جنگ میں ان کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
ہٹلر کی فو جو ں کی یلغا ر کو لینن گر ا ڈ کے پر عزم اور نہتے شہریوں نے روکا اور اس طر ح 29مہینے کے محا صر ے اور8 لا کھ کی آ با دی میں سے 3 لا کھ شہر یو ں کی مو ت کے بعد جر من فو ج کو پسپا ہونے پر مجبو ر کر د یا گیا۔ عر ا ق پر ا مر یکہ نے دو حملے کیے، دو نو ں د فعہ عر ا ق کی مضبو ط تر ین فو ج نے کوئی مقا بلہ نہیں کیا لیکن جنگ کے بعد عر ا ق کے شہریوں نے جس طر ح مز ا حمت کر تے ہوئے ا مر یکہ اور بر طا نیہ کی فو جو ں کو بد حال اور رسوا کر دیا، اس کی مثا ل نہیں ملتی، عر بو ں کی مضبو ط تر ین افو ا ج کو چھ دن میں شکست فا ش د ینے والے اسرا ئیل کی در گت حز ب ا للہ کے ہا تھوں بنتے ہوئے آ ج بھی ہم د یکھ ر ہے ہیں۔
ا گر کسی ریاست پر حکمر انی ا ور اس کے وسائل صر ف مخصو ص طبقو ں اور اداروں پر خرچ ہو ر ہے ہو ں، ا گر عو ام یہ سمجھنے لگیں کہ مذہب اور حب الو طنی کے نا م پر ا نہیں بے و قو ف بنا یا جا ر ہا ہے تو دل میں ا ک ا یسی بیگا نگی (allienation) پر ور ش پا نے لگتی ہے کہ اسلحہ کے ڈھیر بھی ریاست کا د فا ع نہیں کر سکتے۔
ا گر حکمر ان ا پنے شاہانہ ا خراجات کم کر کے یہ و سا ئل عو ام کی تعلیم، صحت، اور روز گا ر پر خر چ کریں اور عو ام کو یہ ا حساس د لا ئیں کہ یہ ملک ان کا ہے اس پر حکمر انی کا حق ان کا ہے اور حکمر ان ان کے سا منے جو ا بدہ ہیں، ا گر عو ام کو حقیقی معنو ں میں اس ملک کا حکمر ان یا ما لک بنا د یا جا ئے، تو جب بھی ملک پر کڑ ا و قت آ ئے گا تو عو ام اپنی افواج کے ساتھ مل ملک کا د فا ع کر یں گے۔
اب ذرا برصغیر پاک وہند کی طرف آتے ہیں۔ اس پاکستان اور ہند و ستان کو ا نگر یز کی غلامی سے نہتے عو ام نے آ زاد کر ا یا تھا اور اب بھی عو ام ہی اس ملک کے حقیقی محا فظ ہیں، عوام کی حمایت سے محروم حکمران تو ا یک ٹیلیفو ن سننے کے بعد ا پنا قومی مو قف تبد یل کر لیتا ہے۔
دنیا کے مہلک ترین ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور میزائیل رکھنے والی امریکی افواج ان کے جدید تر ین ا سلحے اور بے پناہ و سا ئل کے سامنے فا قہ ز دہ و یتنامی ڈٹ گئے اور ان کو شکست فا ش دی، ہزاروں ایٹم بم اور مضبوط ترین فوج بھی سوویت یونین کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکی۔ مضبوط فوج کے بل پر شہنشاہ ایران ایشیاء کی سپر پاور بننا چاہتا تھالیکن یہ عظیم فوج اس کو ملک سے بھاگتے وقت ائرپورٹ تک بذریعہ سڑک نہ لے جاسکی، مجبوراً شہنشاہ معظم کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مہر آ باد ائر پورٹ لے جانا پڑا۔
ہماری جمہوریت بھی آمریت میں بدل جاتی ہے، ہر وقت ملک کو خطرات کا سامنا ہونے کا نعرہ لگایا جاتا ہے ہر پاکستانی کو ہندوستانی خطرے کے خوف میں مبتلا کرکے نفسیاتی مریض بنادیا گیا ہے۔