جشنِ طرب منائیں گے کہرام کی طرح
جیتنے کو نون لیگ جیت سکتی ہے مگر یہ فتح مہنگی بہت پڑے گی۔
جشنِ طرب منائیں گے کہرام کی طرح
سترہ جولائی کو پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن تقریباً اسی قدر اہم ہو چکے جتنے کہ پانچ برس بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات۔ نون لیگ یہ تاثر دینے میں کسی حد تک کامیاب رہی کہ زور زبردستی سے اکثریت وہ حاصل کر لے گی۔ سیاست میں تاثر کی حیثیت بعض اوقات حقیقت سے بھی زیادہ ہوتی ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ یہ ناچیز ان معدودے چند لوگوں میں شامل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سترہ جولائی کے معرکے میں پی ٹی آئی فاتح بن کے ابھرے گی۔ الیکشن اگر آزا د ہوئے تو تحریکِ انصاف کی فتح یقینی ہے۔ دھاندلی ہوئی تو ایسا ہنگامہ وہ اٹھائے گی کہ خدا کی پناہ۔ اس امر میں کوئی ان کا مد مقابل نہیں۔
تین اعتبار سے نون لیگ کو برتری حاصل ہے اور تین نکات پی ٹی آئی کے حق میں۔ اس سے پہلے مگر رانا ثناء اللہ کے ایک بیان کا تذکرہ۔ کل شب انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہترین کوشش کے باوجود عمران خاں بہت کم لوگ جمع کر سکے۔ پریڈ گراؤنڈ کے جلسہء عام میں صرف پندرہ ہزار افراد شریک ہوئے۔ صرف پندرہ ہزار بھی ہوتے تو نون لیگ کے کسی بھی جلسہء عام سے زیادہ تھے لیکن درحقیقت یہ تعداد بہت بڑی تھی۔ اخبار نویس بدقسمتی سے بٹ چکے ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں جو واقعات کے بیان میں بھی رنگ آمیزی نہیں کرتے۔ دیر تک سوچتا رہا کہ کن صاحب سے بات کروں۔ جلسہ گاہ میں جو خود گئے ہوں اور مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔
اتنے میں اسلام آباد کے ایک سبکدوش کمشنر طارق پیر زادہ سے بات ہوئی، نصف صدی سے جنہیں میں جانتا ہوں۔ اسلام آباد کے وہ ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ اس طرح کے سیاسی اور غیر سیاسی اجتماعات کی اہمیت اور نوعیت کا تجزیہ کرنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خود جلسہ گاہ میں وہ گئے تھے اور اس وقت لوٹے، جب عمران خاں پریڈ گراؤنڈ پہنچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جوق در جوق جلسہ گاہ میں لوگ جا رہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں گویا بہت سی ریل گاڑیوں سے اترے ہوں۔ ہجوم کی ریل پیل میں اپنے ساتھیوں سے وہ بچھڑ گئے۔ واپسی کا راستہ معدوم تو نہ تھا لیکن تنگ بہت تھا۔
پانچ سو برس ہوتے ہیں، ظہیر الدین بابر نے وزیرستان پہ حملہ کیا تو درے اس قدر محدود کر دیے کہ بلندیوں سے پتھر لڑھکا کر حریف کو مات کیا جا سکے۔ یہاں کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ ہجوم کا شدید دباؤ تھا۔
طارق پیرزادہ سے یہ نہیں پوچھا کہ ٹھیک اس وقت، جب خان صاحب خطاب کرنے والے تھے، لوٹ جانے کا فیصلہ انہوں نے کیوں کیا۔ یہ طالبِ علم بھی اکثر ایسا ہی کرتا ہے۔ اس لیے کہ جلسہ گاہ کی نسبت ٹیلی ویژن پر خطاب زیادہ صاف سنائی دیتا ہے۔ اسلام آباد کے کمشنر کی حیثیت سے خوب اچھی طرح انہیں معلوم تھا کہ پریڈ گراؤنڈ میں کتنے لوگ سما سکتے ہیں۔ "ڈیڑھ لاکھ" انہوں نے مجھے بتایا اور اضافہ کیا "جلسہ گاہ کے باہر بھی بہت سے لوگ تھے۔ "ان کے خیال میں سامعین کی تعداد کسی طرح بھی دو لاکھ سے کم نہیں تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہارون خواجہ سے ملنے گیا توروداد کہی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر یہ تعداد پچاس ہزار بھی ہو تو حیران کن ہے۔ اتنے لوگ صرف عمران خاں ہی جمع کر سکتا ہے۔
کمشنر صاحب کو شاید عمران خان سے کچھ ہمدردی ہو۔ ہارون خواجہ غیر جانبدار ہیں۔ سیاست کا ایک طالبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ معیشت، سرمایہ کار اور نہایت عمدہ منتظم۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ مہینے بھر کے بعد کھانے کے تیل کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ منت سماجت کر کے انڈونیشیا سے کچھ منگوا تو لیا گیا لیکن شاید چار پانچ ہفتے سے زیادہ نہیں چلے گا۔ ایک حیران کن بات یہ بتائی کہ نائب صدارت سمیت امریکہ میں پچپن اہم عہدوں پر بھارت نژاد امریکی فائز ہیں۔ خواجہ صاحب کا خیال یہ بھی تھا کہ پاکستان کے مسائل حل ہونے کا وقت آپہنچا ہے "بحران اتنا شدید ہے کہ حقیقت پسندی اختیار کرنا ہی ہوگی۔ اذیت کے مہ و سال کے بعد آخر کار وہ فیصلے صادر کرنا ہی ہوں گے جو ضروری ہیں، جن میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی"۔
نون لیگ کی برتری یہ ہے کہ وہ حکومت میں ہے۔ الیکشن لڑنے کا تجربہ زیادہ طویل ہے۔ تنظیم بھی بہتر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی انہیں حاصل ہے اور ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہمدردیاں بھی۔ اساتذہ، بلدیاتی کارکنوں، پٹواریوں اور تحصیلداروں کو برتنے کا تجربہ بھی۔ پی ٹی آئی مقبول زیادہ ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق اس کے حامیوں کی تعداد 38فیصد ہے۔ نون لیگ کی 32فیصد۔ پیپلزپارٹی کے چار فیصد شامل کر لیے جائیں تو 36فیصد۔ ایک فرق البتہ ایسا ہے، جس کا کوئی علاج حکمراں پارٹی کے پاس نہیں۔ کسی بھی جماعت کے ٹھیک اتنے ہی حامی ووٹ نہیں ڈالتے جتنے کہ سروے میں ثابت ہوتے ہیں۔
1990ء میں گیلپ نے شمالی لاہور کے ایک حلقہء انتخاب کا سروے کیا تھا، جس سے معلوم ہوا کہ پیپلزپارٹی کے چودہ فیصد اورقومی اتحاد کے 31فیصد حامی ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ بعد میں یہ ترتیب الٹ گئی۔ پیپلزپارٹی کے لوگ بد دل ہو کر گھروں میں جا بیٹھے۔ یہی حادثہ جماعتِ اسلامی سے پیش آیا، جس کے حامیوں کی تعداد 9فیصد سے گھٹتے گھٹتے دو فیصد رہ گئی ہے۔ سینیٹر سراج الحق اپنے تحرک سے اسے زندہ کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔ سترہ جولائی کو امتحان کا نتیجہ سامنے ہوگا۔
کہیں ایسا نہ ہو جو چین کے ایک شہری کے ساتھ ہوا۔ سال بھر اپنے بیٹے کو ٹیوشن پڑھواتا رہا۔ نتیجہ نکلا تو ریاضی کے پرچے میں سو میں سے چھ نمبر اس نے حاصل کیے تھے۔ پھوٹ پھوٹ کر وہ رویا اور اس کی تصویریں سوشل میڈیا پر دیکھی گئیں۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب کہیں زیادہ ہوگا۔ ایک وجہ یہ ہے کہ نون لیگ نے جن لوگوں کو ٹکٹ دیے ہیں، ان میں آدھے یازیادہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما ہیں۔ کل لاہور میں محترمہ مریم نواز ایک جلسہء عام سے خطاب کرنے گئیں۔ یہ نذیر چوہان کا حلقہء انتخاب تھا۔ "لوٹا، لوٹا" کے نعرے لگے۔ واضح طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ نون لیگ کے کچھ ووٹر نذیر چوہان کو ٹکٹ دینے پر ناخوش ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ ووٹ ڈالنے نہ جائیں۔
جیتنے کو نون لیگ جیت سکتی ہے مگر یہ فتح مہنگی بہت پڑے گی۔
جشنِ طرب منائیں گے کہرام کی طرح