زبان پر چھالے؟
جھوٹ کا مقابلہ جھوٹ سے نہیں ہو سکتا۔ جھوٹ کا مقابلہ صرف سچ سے ہو سکتا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں جھوٹ کو ایک ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک کشمیری نوجوان کی طرف سے بھارتی سیکورٹی فورسز پر خودکش حملے کے بعد سے بھارتی حکومت پاکستان کو ظالم اور اپنے آپ کو مظلوم بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایک طرف بھارت میں کشمیریوں کیلئے وہ صورتحال پیدا کر دی گئی ہے جو 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف پیدا کی گئی۔ دوسری طرف پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلا خودکش حملہ پلوامہ میں ہوا ہے اور اس حملے میں نائن الیون حملے سے بھی زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے پر زیادہ خودکش حملے ہوئے ہیں اور ان میں سے کئی حملوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا لیکن پاکستان کی سیاسی و فوجی حکومتیں بھارت کے خلاف شور مچانے سے احتراز کرتی رہیں۔ ذرا سوچئے! بھارت کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات ایک ایسے وقت میں لگائے جا رہے ہیں جب عالمی عدالت انصاف میں ایک بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ کلبھوشن یادیو پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کر چکا ہے لیکن بھارت کی طرف سے دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگایا جا رہا ہے۔ پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد وزیراعظم عمران خان کئی روز تک خاموش رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کی وجہ سے خاموش رہے۔ جب محمد بن سلمان پاکستان کا دورہ مکمل کر کے بھارت چلے گئے تو عمران خان نے پاکستانی قوم سے ایک مختصر خطاب کیا اور بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جارحیت کا جواب دینا جانتے ہیں لیکن مذاکرات کیلئے بھی تیار ہیں۔ میں نے عمران خان کا یہ مختصر خطاب بار بار سنا اور سوچا کہ اگر ایسا خطاب نواز شریف کرتے تو عمران خان کا کیا ردعمل ہوتا؟ عمران خان فوراً یہ کہتے کہ اوئے نواز شریف تم نے اپنی تقریر میں کلبھوشن یادیو کا نام کیوں نہیں لیا؟ کلبھوشن کا نام لیتے ہوئے تمہاری زبان پر چھالے کیوں پڑ جاتے ہیں؟
گستاخی معاف! عمران خان کو کلبھوشن یادیو کا نام لیکر دنیا کو بتانا چاہئے تھا کہ سچ یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ بھارت نے ایک اجمل قصاب کو پکڑ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا لیکن وہ پاکستانی ریاست کا نمائندہ نہیں تھا۔ کلبھوشن یادیو بھارتی ریاست کا نمائندہ ہے لیکن عمران خان نے اپنے مختصر خطاب میں کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ذرا احتیاط سے کام لیا تاکہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی مزید نہ بڑھے لیکن یہ وقت بھارت کے جھوٹ کے مقابلے پر پاکستان کا سچ سامنے لانے کا تھا۔ یہ ناچیز پاکستان اور بھارت میں تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے پر یقین رکھتا ہے لیکن مذاکرات کی بھیک مانگنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اگر ہم جھوٹ کے مقابلے پر سچ بولنا شروع کر دیں تو سچائی کی طاقت جھوٹوں کو خودبخود مذاکرات کی میز پر لے آئے گی لیکن افسوس کہ ہم سچائی کی طاقت استعمال نہیں کر رہے۔
بھارت کو چھوڑیئے ہمیں تو اشرف غنی جیسا آدمی بھی بلیک میل کر رہا ہے۔ جی ہاں! افغانستان کا صدر اشرف غنی جس کی حکومت صرف کابل کے صدارتی محل تک محدود ہے۔ اشرف غنی نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور کچھ دن پہلے جرمنی میں امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کو ایک ملاقات میں کہا کہ افغان طالبان کے وفد کو پاکستان جانے سے روکا جائے، اگر افغان طالبان پاکستان گئے تو میں پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دوں گا۔ اشرف غنی یہ دھمکی ایک ایسے شخص کے سامنے دے رہا تھا جو خود قطر اور متحدہ عرب امارات میں طالبان کے ساتھ ملاقاتیں کر چکا تھا۔
آگے چل کر اشرف غنی نے زلمے خلیل زاد سے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے بعد میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان بلائوں گا اور ان کے ساتھ ملاقات کروں گا اور بھارت کے دورے پر بھی جائوں گا۔ زلمے خلیل زاد نے یہ سب باتیں سن کر ایک پیغام کی صورت میں حکومت پاکستان کو بھجوا دیں۔ پاکستانی حکام کو یہ پیغام ملا تو وہ شہزادہ محمد بن سلطان کی آئو بھگت میں مصروف تھے۔ دوسری طرف افغان حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ کو یہ باور کرایا گیا کہ اقوام متحدہ نے طالبان کے کچھ رہنمائوں پر سفری پابندیاں لگا رکھی ہیں لہٰذا ان رہنمائوں کی طرف سے پابندیوں کی خلاف ورزی کا نوٹس لیا جائے۔ اس صورتحال میں افغان طالبان نے ایک بیان جاری کیا اور سفری پابندیوں کو جواز بنا کر 18 فروری کو دورۂ پاکستان ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ افغان طالبان کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت حکومت پاکستان نے دی تھی۔ یہ وہی حکومت پاکستان ہے جس نے افغان طالبان اور امریکی حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کردار کا زلمے خلیل زاد نے بار بار اعتراف بھی کیا لیکن اب یہی زلمے خلیل زاد پاکستان کو اشرف غنی کی دھمکیاں بھی پہنچا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اشرف غنی کی اپنی کیا اوقات ہے؟ کسی کو اچھا لگے یا بُرا لیکن سچائی یہ ہے کہ اشرف غنی کابل میں افغان قوم کا نہیں امریکی دفتر خارجہ کا نمائندہ ہے۔ یہ شخص 1977ء میں افغانستان سے بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں گیا۔ وہاں پر ایک لبنانی خاتون سے شادی کی اور امریکہ چلا گیا۔ جب سابقہ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو جس ملک نے کھلم کھلا اس حملے کی حمایت کی وہ بھارت تھا۔ جس ملک نے افغانوں کا ساتھ دیا وہ پاکستان تھا۔ آج اشرف غنی مشکل وقت میں افغانوں کا ساتھ دینے والے پاکستان کو بلیک میل کر رہا ہے۔ اس شخص نے یہ مشکل وقت ورلڈ بینک کی نوکری میں گزارا اور نائن الیون کے بعد 2002ء میں افغانستان کا وزیر خزانہ بن کر کابل واپس آیا۔ ہمیں یہ تلخ سچائی بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ 2014ء میں افغانستان کے صدارتی الیکشن میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے مقابلے پر اشرف غنی کو پاکستان سے بہت حمایت ملی تھی کیونکہ وہ صدر بننے کیلئے اشرف غنی احمدزئی بن گئے اور سر پر پختون پگڑی بھی سجا لی۔ پھر اس اشرف غنی کو پاکستان بلایا گیا اور جنرل راحیل شریف نے موصوف کو جی ایچ کیو میں سیلوٹ مارا۔ آج یہ اشرف غنی پاکستان کی پیٹھ میں چُھرے گھونپ رہا ہے، صرف اس لئے کہ افغان طالبان اس کو منہ لگانے کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ افغان طالبان اس احسان فراموش شخص کو اپنے ساتھ بٹھا لیں لیکن افغان طالبان نہیں مانے۔ اس سارے معاملے میں زلمے خلیل زاد کے کردار نے اہم سوالات اٹھائے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ مذاکرات کے نام پر افغان طالبان نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ خارجہ میدان میں پاکستان کو درپیش چیلنجز کے بارے میں منتخب پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ان کی اپوزیشن کئی معاملات پر وہ زبان استعمال نہیں کرتی جو عمران خان اپوزیشن میں استعمال کیا کرتے تھے ورنہ آج ہم بھی یہ سن رہے ہوتے اوئے عمران خان کلبھوشن کا نام کیوں نہیں لیتے؟تمہار ی زبان پر چھالے تو نہیں پڑ گئے؟