زمانے کا زیر و زبر
اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور ممتاز قانون دان عابد حسن منٹو کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں لیکن عابد حسن منٹو کے خیال میں سعادت حسن منٹو نے ادب کی دنیا میں اتنا بڑا مقام حاصل کر لیا کہ منٹو کسی خاندان کا نام نہیں رہ گیا بلکہ ایک فرد واحد کی ملکیت بن چکا ہے، لہٰذا انہوں نے اس نام کو نئے حالات کے سانچے میں ڈال کر مَنٹو سے مِنٹو بنا دیا ہے۔ مَنٹو اور مِنٹو میں صرف ایک نسل کا نہیں بلکہ ایک زمانے کا بھی فرق ہے۔ ایک زمانہ جو گزر چکا اور ایک زمانہ جو گزر رہا ہے۔ یہ زمانے کے زیر و زبر کی باتیں بڑی گہری ہوتی ہیں اور یہ صرف گہرے لوگوں کو سمجھ آتی ہیں۔ 19جولائی کو جمعہ کے دن میانوالی کے قریب نمل کالج میں رافع مسرت فائونڈیشن کی طرف سے ہاسپٹل کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر سنتے ہوئے میں بار بار زمانے کے زیر و زبر کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ نمل جھیل کے کنارے واقع اس کالج کا افتتاح 27اپریل 2008کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا اور اس تقریب میں گیلانی صاحب کے وزیر تعلیم احسن اقبال بھی شریک تھے۔ مجھ ناچیز کو اس تقریب کی میزبانی کا فریضہ سونپا گیا تھا اور اس کے بعد بھی متعدد بار میں عمران خان کے ہمراہ اس کالج کی تقریبات میں شریک ہوتا رہا کیونکہ یہ غریب اور مستحق طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا ایک اچھا منصوبہ تھا۔ شاید نمل کالج کے ساتھ اس پرانے تعلق کی وجہ سے عمران خان اور انیل مسرت نے ہاسپٹل کی افتتاحی تقریب میں میرے اور برادرم سہیل وڑائچ کے علاوہ بہت سے ایسے لوگوں کو مدعو کیا جن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں لیکن جنہوں نے شوکت خانم ہاسپٹل اور نمل کالج کے منصوبوں کی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن حمایت و مدد کی۔ یہی وجہ تھی کہ علیمہ خان اور خرم نیازی ان لوگوں کی زیادہ عزت افزائی کر رہے تھے جو پہلے دن سے نمل کالج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ہاسپٹل کے افتتاح کے بعد امریکہ کے دورے پر روانہ ہونا تھا۔ جب وہ اپنی تقریر کے دوران اپوزیشن پر شدید تنقید کررہے تھے تو مجھے وہ دن یاد آیا جب وہ یوسف رضا گیلانی اور احسن اقبال کو لے کر نمل کالج میں گھوم رہے تھے اور وفاقی و صوبائی حکومت سے تعاون کی یقین دہانی حاصل کررہے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے 2008کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ وہ معزول ججوں کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی وکلاء تحریک کے ساتھ کھڑے رہے۔ وکلاء نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے انتخابات میں حصہ لیا اور پھر ان دونوں جماعتوں نے مل کر ایک مخلوط حکومت بنائی۔ مسلم لیگ(ن) کے وزراء نے بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھ کر پرویز مشرف سے حلف لے لیا تھا لیکن جب پیپلز پارٹی نے معزول ججوں کو بحال کرنے میں تاخیر سے کام لیا تو مسلم لیگ(ن) نے مخلوط حکومت کو خیر باد کہہ دیا اور ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ عمران خان بھی اس لانگ مارچ کی حمایت کررہے تھے لیکن پھر نواز شریف نے آرمی چیف جنرل کیانی کی ٹیلی فون کال پر یہ لانگ مارچ ختم کردیا۔ یہ وہ موقع تھا جب عمران خان کو احساس ہوا کہ جن کی ٹیلی فون کال پر نواز شریف نے لانگ مارچ ختم کردیا اصل طاقت انہی کے پاس ہے اور پھر عمران خان نے بھی پاور پالٹیکس شروع کردی۔ زمانے کا زیر و زبر چلتا رہا۔ نمل کالج آگے بڑھتا رہا، اس کالج کی توسیع کے لئے زمین کی ضرورت تھی۔ 2013میں شہباز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ بنے تو نمل کالج کے لئے ایک ہزار ایکڑ اراضی کی منتقلی کی فائل ان کے پاس آئی۔ فی ایکڑ کا پندرہ سو روپیہ ادا کیا جارہا تھا۔ کچھ مقامی لوگوں نے زمین کی فروخت کے خلاف عدالتوں میں مقدمات دائر کر رکھے تھے۔ کچھ مقدمات خرم نیازی کی بھاگ دوڑ سے ختم ہوئے اور کچھ باقی تھے لیکن شہباز شریف نے تعلیم کے فروغ کی خاطر اس فائل کو نہیں روکا اور کالج کو یہ زمین مل گئی۔ 19جولائی کو اسی نمل کالج میں عمران خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر خوب برسے جس نے اس کالج کے افتتاح اور توسیع میں عمران خان کی مدد کی۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ عمران خان کی بےلچک اصول پسندی ہے اور کچھ اہل فکر کے نزدیک یہ زمانے کا زیر و زبر ہے، جو کل زیر تھا آج زبر ہے جو آج زبر ہے وہ کل زیر ہوگا۔ یہ تقریب ختم ہوئی تو وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب سیکورٹی کا حصار توڑتے ہوئے ہمیں وزیراعظم کے پاس لے گئے تو انہوں نے فوراً سہیل وڑائچ صاحب کو یاد دلایا کہ آپ کو یاد ہے نا جب میں نے یہ کالج بنانے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو میں آپ کو یہ جگہ دکھانے کے لئے یہاں لایا تھا جس پر سہیل وڑائچ نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا اور مانچسٹر سے آئے ہوئے صحافی طاہر چوہدری صاحب وزیراعظم کی کمال یادداشت پر مبہوت رہ گئے۔
ایسا نہیں کہ عمران خان کو پرانی باتیں اور پرانے لوگ یاد نہیں رہتے۔ وہ زمانے کے زیر و زبر کو خوب جانتے ہیں اسی لئے انہوں نے اپنے ایک پرانے ساتھی عامر کیانی کو تحریک انصاف کا سیکرٹری جنرل مقرر کردیا ہے۔ کیانی صاحب کو چند ماہ قبل وزارت سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن ہٹانے کی کوئی وجہ بیان نہ کی گئی، ان کے خلاف بہت انکوائریاں ہوئیں لیکن کچھ ثابت نہ ہوا، لہٰذا عمران خان نے انہیں پارٹی کا ایک اہم عہدہ دے کر پارٹی منظم کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عمران خان نے مان لیا ہے کہ عامر کیانی کو وزارت سے ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں انہیں کچھ مزید غلطیوں کا احساس ہوجائے اور وہ اپنی کابینہ میں دوبارہ ردوبدل کریں۔ ان کے لئے اصل امتحان امریکہ سے واپسی پر شروع ہوگا۔ ایک طرف کچھ اہم معاملات میں انہیں عالمی دبائو کا سامنا ہوگا دوسری طرف عوامی دبائو ہوگا۔ انہوں نے امریکہ روانگی سے قبل اپنی اقتصادی ٹیم سے کہا ہے کہ کم از کم آٹا، گھی اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کیا جائے۔ کوئی طریقہ نکل آیا تو عوامی دبائو کا سامنا کرنا آسان ہوگا ورنہ عوام کی بےچینی افراتفری اور انتشار کو بڑھائے گی۔ اس صورتحال میں ریاستی اداروں کو بڑی احتیاط کرنا ہوگی اور آئین و قانون کی بالادستی کے تصور پر قائم رہنا ہوگا۔ ریاست کو واٹس اپ کالوں پر نہیں آئین و قانون کے مطابق چلانا چاہئے۔ ممتاز قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد حسن منٹو نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کئی معاملات زیر التواء ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسوں کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے؟ کیا ان ججوں کے خلاف ریفرنس کو آئوٹ آف ٹرن لینا تعصب کی تعریف میں نہیں آتا؟ کیا یہ تعصب خود مس کنڈکٹ نہیں ہے؟ عابد حسن منٹو کے سوالات ہمیں زمانے کے زیر و زبر کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ زمانہ کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ کل کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آج انکوائریوں کا سامنا ہے۔ کل کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو آج انکوائریوں کا سامنا ہے آج کے صاحبانِ اختیار کے ساتھ کل کو کیا ہوگا یہ صرف اللہ کو پتا ہے۔ اس لئے اللہ سے ڈرو انسانوں سے نہیں۔