یہ معجزہ ہمیں بچا سکتا ہے
بہت سال پہلے ڈاکٹر آغا افتخار حسین کی کتاب "قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ" نظر سے گزری تھی۔ ڈاکٹر آغا افتخار حسین اردو، فارسی، انگریزی اور فرنچ زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اُنہوں نے فلسفہ پڑھ رکھا تھا اور فرانس سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ اُنہوں نے سالہا سال تک مغربی و مشرقی علوم کے مطالعے اور تحقیق کے بعد قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر یہ کتاب جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا دور میں لکھی۔ احمد ندیم قاسمی نے مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام اس کتاب کو شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں آزادیٔ اظہار پر پابندی تھی لیکن آغا صاحب نے لکھا کہ کسی قوم کی اصل طاقت اس کے فوجی ہتھیار یا دولت کی فراوانی نہیں بلکہ اس کی اخلاقی اقدار اور فکری آزادی ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کھو دے وہ اپنی خود ارادیت سے محروم ہو جاتی ہے اور پھر دوسری قوموں کی محتاج بن کر تباہ ہو جاتی ہے۔ اس کتاب میں آغا صاحب نے "قرآن اور عقل" کے نام سے باب میں قرآن پاک کی سورہ الرعد کے ان الفاظ کی تشریح کی کہ "بلاشبہ اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے" آغا صاحب نے لکھا کہ جس دور میں قرآن نازل ہوا یہ جبریت کا دور تھا۔ ہزاروں سال سے مذہبی پیشوا لوگوں کو یہ سمجھاتے رہے تھے کہ انسان یا قوم کا عروج و زوال دیوتاؤں کے اختیار میں ہے، انسان کے ہاتھ میں نہیں۔ قرآن نے کہا کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن قوموں کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اچھے اخلاق و کردار والی قوم کا اچھا مستقبل اور برے کردار والی قوم کا برا مستقبل ہے۔ ڈاکٹر آغا افتخار حسین کی کتاب دراصل ایک وارننگ تھی کیونکہ جنرل ضیاءالحق اسلام کے نام پر قوم سے جو وعدے کر رہے تھے اُنہیں پورا نہیں کیا جا رہا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لئے نسلی و لسانی گروہوں کے علاوہ فرقہ ورانہ تنظیموں کی سرپرستی کی جارہی تھی جو ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہی تھیں۔ آغا صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام حنبلؒ اور امام جعفر صادقؒ نے اپنے اپنے قیاس کے مطابق فقہ کے مسائل پر رائے دی جو ایک دوسرے سے مختلف تھی لیکن یہ سب دراصل ایک ہی قرآن کو ماننے والے تھے اور ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے۔ آغا صاحب نے اپنی کتاب کے ذریعے قوم کو وارننگ دی کی فرقہ ورانہ اور لسانی گروہوں سے دور رہو ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔
کچھ سال گزرے تو سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ کئی پاکستانی سورماؤں نے سوویت یونین کے زوال کا کریڈٹ لینا شروع کر دیا اور کہا کہ اگر پاکستانی ریاست امریکی سی آئی اے کی مدد نہ کرتی تو سوویت یونین نہ ٹوٹتا۔ اُنہی دنوں میں نے ایک دفعہ پھر ڈاکٹر آغا افتخار حسین کی کتاب کو دوبارہ بڑے غور سے پڑھا کیونکہ اُنہوں نے کانٹ، غزالی، ابن خلدون، ہیگل، کارل مارکس اور ٹائن بی سے لے کر علامہ اقبال ؒتک اہم تاریخ دانوں اور فلسفیوں کے نظریات کو سامنے رکھ کر قوموں کے عروج و زوال کی جو وجوہات بیان کی تھیں وہ سوویت یونین پر فٹ بیٹھ رہی تھیں، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار تو تھے لیکن فکری آزادی نہیں تھی۔ اس کتاب کے دوسری دفعہ مطالعہ سے پتہ چلا کہ قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ہماری روزمرہ کی اخلاقی تربیت ہی نہیں کرتا بلکہ ہمیں قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ اور اسباب بھی بتاتا ہے۔ ایٹمی سائنسدان سلطان بشیر محمود کی طرف سے لکھی گئی "قرآن حکیم کی سائنسی تفسیر" کے ذریعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کے حسابی نظام سے کچھ آگاہی ملی۔ قرآن میں دنیا کا لفظ 115 مرتبہ آیا ہے اور آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ آیا ہے۔ شیاطین کا ذکر 88 مرتبہ اور ملائکہ کا ذکر بھی 88 مرتبہ آیا ہے۔ موت کا ذکر 145 مرتبہ اور حیات کا ذکر بھی 145 مرتبہ آیا ہے۔ کفر کا ذکر 25مرتبہ اور ایمان کا ذکر بھی 25 مرتبہ آیا ہے۔ ماہ کا ذکر بارہ مرتبہ اور یوم کا ذکر 365مرتبہ آیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم کی کتاب "قرآن کے جدید سائنسی انکشافات" اور "قرآن حکیم کے معجزات" پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ اگر دینی مدارس کے طلبہ دینی تعلیم کے ساتھ سائنس پڑھنا شروع کردیں اور سائنس کے طلبہ دین پڑھنا شروع کر دیں تو قرآن میں سے بہت سے ایسے راز سمجھ آ سکتے ہیں جن کی طرف پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم نے اشارہ کیا ہے۔
قرآن ہمیں نیکی کی تعلیم دیتا ہے، عدل کا درس دیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور یتیموں مسکینوں کی کفالت کرو۔ قرآن انسانی مساوات کی طرف لے جاتا ہے اور سود کو اللہ تعالیٰ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیتا ہے۔ شاید اسی لئے بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید نے اپنی کتاب "اسلام کا معاشی نظام اور تحریک پاکستان" میں علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار لکھے؎
انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار!
ڈاکٹر آغا افتخار حسین تاریخ و فلسفہ کے استاد تھے، پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیمیکل ٹیکنالوجی پڑھاتے رہے اور شیخ محمد رشید سیاست و معیشت کے میدان سے وابستہ تھے۔ ان تینوں کی کتابوں میں بار بار علامہ اقبالؒ کا ذکر ملتا ہے کیونکہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو قرآن میں غوطہ زن ہو کر جدت کردار پیدا کرنے کا پیغام دیا۔ مجھ جیسے گناہ گار انسان رمضان کے مہینے میں قرآن کے زیادہ قریب آتے ہیں۔ اس رمضان میں مجھے خواجہ عبدالوحید کی کتاب "موضوعات قرآن اور انسانی زندگی" پڑھنے کا اتفاق ہوا جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں ہماری معاشرتی زندگی سے لے کر ثقافتی، معاشی اور سائنسی پہلوؤں کے علاوہ بربادی اقوام کے اسباب کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر مجھے ڈاکٹر آغا افتخار حسین کی کتاب کے ایک دفعہ پھر مطالعے کی طلب ہوئی تو ایسا لگا کہ یہ کتاب 1979 کے پاکستان کے بارے میں نہیں 2019 کے پاکستان کے بارے میں ہے۔
آج پاکستانی ریاست کی ایٹمی طاقت ڈالر کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے کیونکہ فکری آزادی خطرات کا شکار ہے اور اخلاقی اقدار دم توڑ رہی ہیں۔ وہ جو خود کو بادشاہ گر سمجھتے ہیں اور سامنے آئے بغیر حکومتیں بنانے اور گرانے میں مصروف رہتے ہیں ان کے پاس بھی عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے سر جھکانے کے سوا کوئی راستہ نہیں لیکن میں مایوس نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ قرآن کی صورت میں جوتحفہ ہمیں دیا ہے وہ صرف ایک معجزہ نہیں بلکہ اس کے اندر بہت سے معجزے چھپے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمران اس قرآن کی آیتیں سناتے تو ضرور ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ جس دن قرآن کی آیتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم سب اپنے آپ کو بدلنے کا تہیہ کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد ضرور کرے گا۔ ہمیں زوال سے آئی ایم ایف نہیں بلکہ ہمارے رسولؐ کا معجزہ بچا سکتا ہے جس کا نام قرآن ہے۔