پنجرہ
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان عمران خان کے ایک اتحادی کی تقریر کے دوران بار بار ڈیسک بجا رہےتھے اور تحریک انصاف کے وزراء بے بسی کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ میری نظروں کے سامنے ماضی کے بہت سے واقعات کی فلم چلنے لگی اور یہ محسوس ہونے لگا کہ مسلم لیگ (ن) والے ڈیسک نہیں بجا رہے بلکہ اپنا سر پیٹ رہے ہیں اور منہ بھی نوچ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی اکثریت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے چار ووٹوں پر قائم ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا لیکن کابینہ میں شمولیت سے معذرت کی اور کہا کہ وہ ان وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کریں گے جو تحریک انصاف نے ایک تحریری معاہدے کی صورت میں بی این پی (مینگل) کے ساتھ کئے اور تحریری معاہدے کے چھ نکات میں لاپتہ افراد کی بازیابی بھی شامل ہے۔ گزشتہ جمعہ کی دوپہر اختر مینگل قومی اسمبلی میں تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو میرا خیال تھا کہ ایک دفعہ پھر وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کریں گے لیکن جب انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ڈیسک بجانے والوں میں سب سے آگے تھے۔ اختر مینگل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ پارلیمنٹ ہےکوئی مغلیہ دربار تو نہیں اس پارلیمنٹ کے قواعدوضوابط کے مطابق آپ کو فوری طور پر خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنا چاہئے۔ ایک دن پہلے جب شہباز شریف نے یہ مطالبہ کیا تھا تو اسد قیصر نے ایوان کو بتایا تھا کہ وہ وزارت قانون سے صلاح مشورہ کر رہے ہیں لیکن ان کا یہ صلاح مشورہ بہت لمبا ہو چکا تھا۔ اختر مینگل کو اطلاع مل چکی تھی کہ اسد قیصر کو خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ قبول کرکے اس نے جو خاک چاٹی ہے اور ہذیمت اٹھائی ہے وہ خواجہ سعد رفیق کے ایوان میں آنے سے مزید نہ بڑھ جائے۔ اختر مینگل کا خیال تھا کہ اسپیکر صاحب نیب کے ایک ملزم شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر چکے ہیں اب نیب کے دوسرے ملزم خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں کوئی قانونی پیچیدگی نہیں ہے اور یہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے حکومت کو نقصان نہیں بلکہ سیاسی فائدہ ہو گا۔ پارلیمنٹ کی راہداریوں میں یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ رواں اجلاس میں خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہونگے اور شاید اسی لئے اختر مینگل نے وہ سچ بولنے کا فیصلہ کیا جس کی حکومت توقع نہیں کر رہی تھی۔ اختر مینگل نے ایسا ہی ایک سچ 1998ء میں بولا تھا اس وقت نواز شریف وزیر اعظم اور اختر مینگل وزیر اعلیٰ بلوچستان تھے۔
1998ء میں پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کیا تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کو ان دھماکوں سے بے خبر رکھا گیا۔ اس موقع پر اختر مینگل نے یہ شکوہ کیا کہ جس صوبے کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا اس صوبے کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینا کیوں ضروری نہ سمجھا گیا؟ بجائے کہ یہ شکوہ پیار محبت سے دور کیا جاتا وزیر اعظم نواز شریف نے اختر مینگل کو گستاخی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور پیغام بھجوایا کہ وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دو ورنہ تمہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ہٹا دیا جائے گا۔ اختر مینگل نے بمشکل ڈیڑھ سال بھی وزارت اعلیٰ میں پورا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جوڑ توڑ کے ذریعہ حکومت بچانے کی بجائے حکومت چھوڑ دی۔ اختر مینگل کے والد سردار عطاء اللہ مینگل بھی 1972ء میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ یہ وہ حکومت تھی جس نے آتے ہی اردو کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا لیکن صرف نو ماہ کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو بلوچستان کی سرکاری زبان بنانے والی جماعت نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) پر پابندی لگا دی۔ نیپ پر پابندی نہ لگتی تو یہ آج بھی ایک وفاقی جماعت ہوتی لیکن ایک وفاقی جماعت کو ختم کرنے کی کوشش میں بہت سی علاقائی اور صوبائی جماعتیں پیدا کر دی گئیں۔ آج اس کالعدم نیپ کا ایک حصہ بی این پی (مینگل) ہے، ایک حصہ اے این پی ہے، ایک حصہ نیشنل پارٹی ہے، کچھ لوگوں نے سوشلسٹ پارٹی بنالی، کوئی عوامی ورکرز پارٹی میں ہیں، کوئی علیحدگی پسند بن گیا کوئی عسکریت پسند بن گیا۔ وفاق کو کمزور کرنے کی ذمہ داری صرف کسی ایک ڈکٹیٹر یا ایک سیاست دان پر عائد نہیں ہوتی۔
ریاست کے تمام اداروں نے مل کر وفاق کو کمزور کیا ہے۔ آپ اختر مینگل کو بطور ایک مثال دیکھ لیں۔ ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں صرف ایک ادارہ اور ایک پارٹی ملوث نہیں۔ جس کسی کو بھی طاقت اور اختیار ملا وہ ظلم و زیادتی میں برابر کا شریک تھا۔
کچھ لوگ پوچھتے ہیں یہ اختر مینگل کو لاپتہ افراد کی اتنی تکلیف کیوں ہے؟ اس کا بھائی تو ریاست کیخلاف برسر پیکار ہے۔ میں جواب میں پوچھتا ہوں تمہیں وہ بھائی تو یاد ہے جو ریاست کا باغی بن گیا وہ بھائی کیوں یاد نہیں جو ریاست نے 1976ء میں غائب کیا اور آج تک اس کا سراغ نہیں ملا۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں پھر لکھ رہا ہوں جب سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو برطرف کیا گیا تو بلوچستان میں شورش نے جنم لیا۔ اس شورش کو ختم کرنے کیلئے سردار عطاء اللہ مینگل کے برخوردار اسد اللہ مینگل کو کراچی میں بلخ شیر مزاری کے گھر سے اغواء کر لیا گیا۔ جب وزیر اعظم بھٹو نے آرمی چیف جنرل ٹکا خان سے پوچھا کہ اسد اللہ مینگل کدھر گیا تو جنرل ٹکا خان نے کہا کہ وہ گرفتاری کے دوران زخمی ہو گیا تھا اسے کراچی سے کوئٹہ کے درمیان کہیں دفن کر دیا گیا اب تو لاش کا بھی پتہ نہیں آپ خاموشی اختیار کریں ہم کہہ دیں گے وہ افغانستان بھاگ گیا۔ بھٹو صاحب خاموش ہو گئے لیکن جب گرفتار ہو کر جیل پہنچے تو اپنی کتاب "افواہ اور حقیقت" میں ساری کہانی کھول دی۔
بھٹو صاحب کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی عدالت میں پنجرے میں لایا جاتا تھا۔ بہت سال کے بعد پرویز مشرف کے دور میں اختر مینگل کو بھی کراچی کی ایک عدالت میں پنجرے میں پیش کیا جاتا تھا۔ جب اختر مینگل کو آہنی پنجرے میں عدالت میں لایا جاتا تھا تو محمد میاں سومرو، زبیدہ جلال اور شیخ رشید احمد وغیرہ مشرف حکومت میں شامل تھے۔ آج یہ سب عمران خان کی حکومت میں شامل ہیں اور اس حکومت کو اختر مینگل کے ووٹوں نے سہارا دے رکھا ہے۔ اختر مینگل کو ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، نواز شریف اور پرویز مشرف سمیت سب نے زخم لگائے لیکن وہ آج بھی وفاق کی سیاست کرنے کی کوشش میں ہے۔ وہ ماضی کے پنجرے سے نکل کر آزاد فضائوں میں سانس لینا چاہتا ہے لیکن اب تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ پوری پارلیمنٹ ہی پنجرے میں قید ہے۔ وہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو ن لیگ ڈیسک بجاتی ہے لیکن جب لاپتہ افراد کی بات آتی ہے تو مسلم لیگ (ن) خاموش ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی، انہیں جمہوریت اس وقت یاد آتی ہے جب ان کے مفاد پر زد پڑتی ہے لیکن اختر مینگل اکثر اپنا مفاد دائو پر لگا کر ان جماعتوں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر جب یہ جماعتیں اس کے لئے ڈیسک بجاتی ہیں تو مجھے لگتا ہے یہ اپنا سرپیٹ رہی ہیں اپنا منہ نوچ رہی ہیں۔ پنجروں میں بند قیدی اکثر اوقات سر پیٹتے ہیں اور منہ نوچتے ہیں۔