نہر والی یونیورسٹی
زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ چند ہفتے قبل ایشیا یورپ پیپلز فورم کے زیراہتمام بلجیم کی گینٹ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں لائوس سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور سومباتھ سوم فون کی اہلیہ شوئی مِنگ کی تقریر سن کر دل بہت اداس ہو گیا۔ سومباتھ گزشتہ چھ سال سے لاپتہ ہیں۔ ان کی گرفتاری کی ویڈیو فلم موجود ہے لیکن لائوس کی حکومت سومباتھ کی گرفتاری سے انکارکرتی ہے۔ ان کی اہلیہ شوئی مِنگ پچھلے چھ سال سے اپنے خاوند کی بازیابی کے لئے چیخ و پکار کر رہی ہیں۔ گینٹ یونیورسٹی میں ہونے والی کانفرنس میں لنچ بریک ہوا تو میں شوئی مِنگ اور کچھ دیگر مندوبین کے ہمراہ کانفرنس ہال سے نکل کر یونیورسٹی کے اندر سے گزرنے والی خوبصورت نہر کے پل پر جا کھڑا ہوا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کی پی ایچ ڈی اسکالر شہلا رشید نے پل پر کھڑے ہو کرتصویریں بنانا شروع کردیں۔ شوئی مِنگ مجھ سے آمنہ مسعود جنجوعہ کے متعلق پوچھنے لگیں جن کے خاوند مسعود جنجوعہ پاکستان میں 12سال سے لاپتہ ہیں اور وہ اپنے خاوند سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ شہلا رشید میری باتیں بہت غورسے سن رہی تھیں کیونکہ ان کا تعلق سرینگرسے ہے اور ان کے علاقے میں بھی لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سری لنکا کی ایک مندوب نے مجھے کہا کہ کیا آپ اور میں اپنے ملک کی کسی یونیورسٹی میں جا کر اپنے لاپتہ پیاروں کےلئے آواز اٹھا سکتے ہیں؟ میرا سرنفی میں ہلنے لگا توسری لنکا کی تامل مندوب نے کہا کہ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں ہماری یونیورسٹیوں سے اسی لئے آگے ہیں کیونکہ یہاں اظہار کی آزادی ہے۔ ہمارے ایک مقامی میزبان نے گفتگو کا موضوع تبدیل کرنے کے لئےگینٹ یونیورسٹی کے اندر سےگزرنے والی خوبصورت نہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے اس سے زیادہ خوبصورت یونیورسٹی کہیں اور دیکھی ہے؟ اچانک موضوع تبدیل ہو گیا اور میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نیوکیمپس کے اندر سے گزرنے والی نہر کی خوبصورتی بیان کرنے لگا۔ میں اپنے اردگرد کھڑے مرد و خواتین کو بتا رہا تھا کہ مجھے بہت سی یونیورسٹیاں دیکھنے کا موقع ملا ہے اور نہر توبرطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں سے بھی گزرتی ہے لیکن جو خوبصورتی پنجاب یونیورسٹی کی نہر میں ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی، شوئی مِنگ نے پوچھا کہ پنجاب یونیورسٹی زیادہ خوبصورت ہے یااس کی نہر زیادہ خوبصورت ہے؟ میں نے جھٹ سے جواب میں کہا "دونوں بہت خوبصورت ہیں" اچانک میری نظر سینیٹر مشاہد حسین سید پر پڑی۔ وہ بھی کانفرنس ہال سے نکل کر آہستہ آہستہ ہماری طرف آرہے تھے لہٰذا خطر ہ بھانپتے ہوئے مجھے کہنا پڑا کہ جس زمانے میں مجھے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کرنے کاموقع ملا، اس زمانے میں وہاں پربہت پابندیاں ہوتی تھیں لیکن پابندیوں کے باوجود یہ بڑی خوبصورت یونیورسٹی ہے۔ یاد رہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مشاہد صاحب کو یونیورسٹی سے فارغ کردیا گیا تھا۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مندوب کئی دفعہ پاکستان آچکے تھے۔ انہوں نے میرے بلندبانگ دعوے سنے تو کہا میں اگلے سال پاکستان آئوں گا اور آپ کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کی خوبصورتی کانظارہ کرکے مجھے بہت خوشی ہوگی۔ اس ناچیز نے فوری طور پرہامی بھر لی لیکن بعدازاں یہ سوچتارہا کہ یہ فرنچ دانشور واقعی پاکستان آگیاتو اسے پنجاب یونیورسٹی میں کس کے پاس لے کر جائوںگا؟
شکر ہے کہ یہ مشکل اب حل ہوچکی ہے۔ گزشتہ ہفتے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے پنجاب یونیورسٹی ایلومینائی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ یونیورسٹی کے سابق طلباو طالبات کی تنظیم کے قیام کی خبر خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔ میں نے گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی میں صرف دو سال گزارے لیکن اس ادارے کی انتظامیہ سال میں دو یا تین مرتبہ اپنے سابق طلباوطالبات کو ضرور یاد کرتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سےمیں نے مڈل بھی کیا اور ایم اے بھی کیا۔ اس یونیورسٹی میں ایک ادارہ تعلیم و تحقیق ہے جہاں اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے اور جب جنرل ایوب خان کے زمانے میں یوایس ایڈ نے نیوکیمپس بنایا تو ادارہ تعلیم و تحقیق کے اندر ایک مڈل اسکول بھی قائم کیا گیا۔ یہ اسکول ابھی تک موجود ہے اور یہاں زیرتربیت اساتذہ بھی پڑھاتے ہیں۔ آٹھ سال اس اسکول میں گزارے اور پھر ایم اے کرنے کےلئے ادارئہ تعلیم و تحقیق کے تھرڈ فلور پر واقع شعبہ ابلاغیات میں بھی دو سال گزارے۔ کل ملاکر اس کیمپ میں دس سال گزارے لیکن ایلومینائی کے طور پر ہمیں پہلی دفعہ بلایا گیا۔ ایلومینائی کےاجلاس کوکامیاب بنانے کے لئے وائس چانسلرسے لے کر عام اساتذہ تک سب نے اہم کردار ادا کیا۔ ہمارا شعبہ ابلاغیات اب انسٹیٹیوٹ آف کمیونی کیشن اسٹڈیز کہلاتا ہے اور یہ نہر کنارے نئی عمارت میں منتقل ہو چکا ہے جو یونیورسٹی کے قبرستان کے قریب ہے اور اس قبرستان میں شعبہ ابلاغیات سابق سربراہان پروفیسر وارث میر اور ڈاکٹرمسکین علی حجازی بھی دیگربہت سے مرحوم ساتھیوں کے ہمراہ دفن ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ایلومینائی کے اجلاس میں طویل عرصے کے بعد ڈاکٹر مریم الٰہی صاحبہ سے ملاقات ہوئی جو پنجاب یونیورسٹی کی پہلی خاتون استاد تھیں۔
پنجاب یونیورسٹی ایلومینائی کی سربراہی حفیظ خان صاحب کو سونپی گئی ہے جو 1971 میں اسٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ 1971میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا تو حفیظ صاحب اور ان کے سیکرٹری جنرل جاوید ہاشمی کو مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا خیال سوجھا کیونکہ سنسرشپ کے باعث اخبارات میں صرف اچھی اچھی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ یونیورسٹی کےوائس چانسلر نے میرے والد پروفیسر وارث میر کو پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کا وفد ڈھاکہ لے جانے کا فرض سونپا۔ جب یہ وفد ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچا اور پھر اس نے جودیکھا وہ حفیظ خان ہی بتائیں تو زیادہ اچھاہے لیکن کم از کم پنجاب یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو اس یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ نے ڈھاکہ یونیورسٹی کو اکیلا نہیں چھوڑا اور پابندیوں کاسمندر عبور کرکے یہ ڈھاکہ پہنچے اور ٹوٹے دل کے ساتھ واپس آئے۔ 1971میں حفیظ خان نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں پل بننے کی کوشش کی لیکن پنجاب یونیورسٹی ایلومینائی کا صدر بننے کےبعد انہیں پرانے پاکستان اور نئے پاکستان میں پل بننا ہے کیونکہ وہ تحریک ِ انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ ایلومینائی کے اجلاس میں فرید پراچہ، غلام عباس، قمر زمان کائرہ، اجمل نیازی، مجیب الرحمٰن شامی، الطاف حسن قریشی، ناصرہ جاویداقبال، مجاہدمنصوری، مہدی حسن، حفیظ اللہ نیازی، امجد اسلام امجد، سلمان غنی، راجہ منور اور ہمارے بزرگ ڈاکٹر رفیق احمد سمیت کئی اہم لوگ موجود تھے لیکن اگر سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو بھی بلا لیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ وہ شعبہ ابلاغیات سے فارغ التحصیل ہیں۔ حفیظ خان سے گزارش ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کو کراچی یونیورسٹی، پشاوریونیورسٹی اوربلوچستان یونیورسٹی سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے جوڑیں۔ یونیورسٹیوں میں جمہوری کلچر کے فروغ کے لئے اسٹوڈنٹس یونینز بحال کی جائیں لیکن سیاسی و لسانی تنظیموں کی کھینچا تانی سے یونیورسٹیوں کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ تنظیمیں آزادی کی نہیں پابندیوں کی علامت ہیں اور یونیورسٹیاں پابندیوں سے نہیں آزادی سے خوبصورت بنتی ہیں۔