Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Hamid Mir
  3. Murshid Ki Talash

Murshid Ki Talash

مرشد کی تلاش

کسی بادشاہ نے ایک درویش سے کہا کہ اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ درویش نے جواب میں کہا کہ میں اپنے غلاموں کے غلام سے کچھ نہیں مانگتا۔ بادشاہ نے کہا یہ کیسے؟درویش نے کہا میرے دو غلام ہیں جو تیرے مالک ہیں ایک حرص اور دوسری آرزو۔ یہ واقعہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف"کشف المحجوب" میں بیان کیا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کے بارے میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے فرمایا تھا کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو وہ اس کتاب کو پڑھ لے۔ کتاب کے مطالعے کی برکت سے اسے مرشد مل جائے گا۔ ہر سال حضرت داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس پر پوری دنیا سے لاکھوں لوگ لاہور میں ان کے مزار پر اکٹھے ہوتے ہیں لیکن بہت کم لوگ کشف المحجوب کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ داتا گنج بخشؒ دراصل ایک عالم تھے۔ ان سے تصوف کے بارے میں ابو سعید ہجویری کی طرف سے کچھ سوالات پوچھے گئے تو انہوں نے ان سوالات کے جواب میں کتاب لکھنے کا ارادہ کیا۔

کتاب لکھنے سے پہلے انہوں نے استخارہ کیا اور پھر کتاب میں استخارے کی وجہ بھی بیان کی۔ کتاب میں انہوں نے متعدد بار اپنے نام کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک بار ایک صاحب نے میرے اشعار کا دیوان مستعار لیا، پھر میرا دیوان واپس نہیں کیا۔ میرے پاس اس نسخے کے سوا کوئی نسخہ نہیں تھا۔ ان صاحب نے میرے نام کو حذف کرکے اپنے نام سے اس دیوان کو مشہور کردیا اس طرح انہوں نے میری محنت ضائع کردی لیکن داتا گنج بخشؒ نے اپنی کتاب میں اس چور کا نام لکھنے سے گریز کیا بلکہ لکھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ میں نے علم تصوف پر ایک کتاب لکھی جس کا نام"منہاج الدین" تھا۔ ایک چرب زبان شخص جس کا نام میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا اس نے کتاب کے آغاز میں سے میرا نام ہٹا کر اپنا نام درج کردیا اور کہا کہ یہ اس کی تصنیف ہے حالانکہ اس کی قابلیت جاننے والے اس پر ہنستے تھے۔ انہوں نے منصور حلاج کے کلام پر"شرح کلام منصور" سمیت دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں لیکن آج صرف کشف المحجوب ہی محفوظ ہے۔ کچھ لوگ ایک رسالے "کشف الاسرار" کو بھی داتا گنج بخشؒ سے منسوب کرتے ہیں لیکن داتا صاحب کے کئی تذکرہ نگار کشف الاسرار کو مستند تصور نہیں کرتے البتہ کشف المحجوب کو بہت سے غیر مسلم محققین بھی تصوف پر فارسی زبان کی سب سے پہلی اور مستند کتاب قرار دیتے ہیں۔ اس کتاب کی اصل زبان قدیم فارسی تھی۔ کیمرج یونیورسٹی کے استاد پروفیسر ریونالڈ اے نکلسن نے پہلی دفعہ اس کتاب کو قدیم فارسی سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے 1911ء میں برطانیہ سے شائع کیا۔ یہی پروفیسر نکلسن تھے جنہوں نے مثنوی مولانا رومؒ، علامہ اقبالؒ کی اسرار خودی اور شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کے علاوہ بلھے شاہؒ کی شاعری کو بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ علامہ اقبالؒ کیمرج یونیورسٹی میں پروفیسر نکلسن کےشاگرد تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ کشف المحجوب سے نکلسن کا تعارف اقبال کے ذریعے ہوا تھا۔ نکلسن کے علاوہ ایک روسی محقق زوکوفسکی نے بھی داتا گنج بخشؒ کی اس تصنیف پر بڑی تحقیق کی اور اسے روسی زبان میں ترجمہ کیا، پھر ایران میں اس کتاب کا جدید فارسی میں ایڈیشن شائع ہوا لیکن اردو میں کشف ا لمحجوب کا ترجمہ شائع کرنے والے اکثر مصنفین پروفیسر نکلسن کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہیں انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے میں زیادہ آسانی تھی۔

داتا گنج بخشؒ کے ساتھ علامہ اقبال ؒ کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ وہ افغانستان گئے تو غزنی میں وہ جگہ تلاش کی جہاں داتا گنج بخشؒ کے والد گرامی حضرت عثمان علی ہجویریؒ کا مزار تھا۔ اس مزار کی زیارت کی کہانی جسٹس ریٹائرڈجاوید اقبال نے اپنے والد علامہ اقبالؒ کی سوانح "زندہ رود" میں بیان کی ہے اور اسی کتاب میں بیان کردہ تفصیلات کی مدد سے میں نے بھی کچھ سال پہلے غزنی میں حضرت عثمان علی ہجویریؒ کا مزار ڈھونڈا اور وہاں فاتحہ خوانی کی۔ غزنی میں داتا گنج بخشؒ کی والدہ کی قبر اپنے بھائی تاج الاولیاء کی قبر کے قریب ہے۔ داراشکوہ اپنے والد شاہجہان کے ہمراہ افغانستان گیا تو اس نے داتا گنج بخشؒ کے ماموں تاج الاولیاء اور ان کی والدہ کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میں اصل تعلق ورشتہ ان اولیاء کے دم سے ہے۔ داتا گنج بخشؒ کا تعلق بھی غزنی سے تھا لیکن وہ غزنوی کے نام سے مشہور نہ ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو جلابی اور ہجویری کہتے تھے۔

جلاب اور ہجویر دراصل غزنی کے دو محلے ہیں۔ وہ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی کے زمانے میں غزنی سے لاہور آئے۔ محمود غزنوی ریاستیں فتح کرتا تھا۔ داتا گنج بخشؒ لوگوں کے دل فتح کرتے تھے۔ ان کے مرید پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور 27اکتوبر کو لاہور میں ان کے مزار پر داتا گنج بخشؒ عالمی کانفرنس میں مجھے افغانستان کے شہر غزنی سے آئے ہوئے مندوبین کے علاوہ ایران، ترکی، عراق، یمن، تیونس، سعودی عرب، بھارت، برطانیہ اور امریکہ کے مقررین کو دیکھ کر احساس ہوا کہ ان صوفیاء کی تعلیمات سرحدوں سے بالاتر ہیں۔

داتا گنج بخشؒ عالمی کانفرنس کا انعقاد پنجاب کے محکمہ اوقاف نے کیا تھا اور اس کانفرنس میں پنجاب کے وزیر اوقاف پیر سید سعید الحسن شاہ کو بیک وقت اردو، انگریزی اور عربی بولتے ہوئے دیکھا تو دل کو بہت تسلی ہوئی کہ ہمارے اہل سیاست میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے علم اور خوش کلامی سے سننے والوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں ایسے چرب زبانوں کی کمی نہیں جو دین کے نام پر بھی بدکلامی سے گریز نہیں کرتے۔ خود اللہ سے نہیں ڈرتے ہمیشہ دوسروں کو ڈراتے رہتے ہیں۔ پیر سید سعید الحسن شاہ صاحب کا تعلق ایک روحانی خانوادے سے ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب سید طاہر رضا بخاری بھی ایک پڑھے لکھے انسان ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر بدکلامی کرنے والے معاشرے میں فتنہ وفساد پھیلانے والے حضرت کو کشف المحجوب کا اردو ترجمہ مطالعے کے لئے بھیجیں کیونکہ اس کتاب میں داتا گنج بخشؒ نے تصوف کو شریعت کے تابع قرار دیا ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو درویش اور فقیر قرار دے کر شرعی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہیں وہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔ اس کتاب کے 25ویں باب میں آدابِ کلام بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث کے حوالوں سے کہا گیا ہے کہ اچھی بات کے سوا کچھ نہ بولو اور اگر اپنی زبان پر قابو رکھو گے تو شیطان پر غالب آجائو گے۔ داتا گنج بخشؒ نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا یہ فرمان عالی شان بیان کیا ہے کہ جو اللہ عز وجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے، پھر ایک اور ارشاد نبویؐ کا حوالہ دیا ہے کہ میری امت پر سب سے خوفناک چیز زبان ہے مجھے اس کا خوف ہے۔

اب ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیے آپ کو زبان کے ذریعہ فتنہ پھیلانے والوں کی بھرمار نظر آئے گی اور ان میں ایسے چرب زبان بھی ہیں جو نوجوانوں کو گمراہ کرکے اولیاء کے مزاروں پر دھماکے کراتے ہیں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔ کشف المحجوب میں آپ کو عشق رسولؐ، احترام صحابہؓ اور اہل بیت سے محبت نظر آئے گی جو مسلمانوں کو متحد کرتی ہے لیکن دین کے نام پر فتنہ پھیلانے والے اللہ اور اس کے رسولؐ کو ماننے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔

ہمیں ان کی مذمت کرنے کے بجائے انہیں کشف الحجوب کے مطالعے کی طرف راغب کرنا چاہئے تاکہ انہیں بھی کوئی مرشد مل جائے جو انہیں اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ سے محبت کے تقاضے سمجھائے۔ عزیز پڑھنے والو! اگر آپ نے کشف المحجوب کا ابھی تک مطالعہ نہیں کیا تو آپ بھی ا سے پڑھ لیں ہوسکتا ہے آپ کو بھی مرشد مل جائے۔

About Hamid Mir

Hamid Mir is a Pakistani journalist, news anchor, terrorism expert, and security analyst. He currently hosts the political talk show Capital Talk on Geo TV and also writes columns for Urdu, Hindi, Bengali, and English newspapers. He was twice banned from Pakistani television by the Pervez Musharraf government in 2007, and by the Zardari administration in June 2008. He has also received the Hilal-i-Imtiaz, Pakistan's second highest civil award.

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz