خون کےدھبےدُھلیں گےکتنی برساتوں کےبعد
یہ ایک پیار بھری فرمائش تھی۔ مجھے یہ فرمائش کرنے والوں پر بہت پیار آ رہا تھا لیکن فوری طور پر میرے لئے فرمائش پوری کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دو بزرگ میاں بیوی محبت کی کچھ ایسی کہانیوں کو ایک کتاب میں محفوظ کرانا چاہتے تھے جو متحدہ پاکستان میں شروع ہوئیں۔ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان ٹوٹ گیا لیکن یہ محبتیں نہیں ٹوٹیں اور آج بھی قائم ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی بھی ایسی ہی ایک کہانی کے دو کردار تھے۔ محمود صاحب اور اُن کی اہلیہ نسرین سے میری پہلی ملاقات 2013 میں ڈھاکا میں ہوئی تھی۔ ایک شام مجھے اور عاصمہ جہانگیر کو ایک بنگلہ ٹیلی وژن چینل پر مدعو کیا گیا اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف وار کرائمز ٹربیونل میں چلنے والے مقدمے پر گفتگو کی گئی۔ عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ وار کرائمز ٹربیونل میں انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں اور اسے انتقامی کارروائی نہ بنایا جائے۔ میں نے بھی یہی کہا کہ جو معاملات شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی زندگی میں طے کر لئے تھے اُن سے انحراف نہ کیا جائے کیونکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت بھارت نے پاکستان کے ہزاروں جنگی قیدی رہا کئے، اُن میں وہ فوجی افسران بھی شامل تھے جن پر جنگی جرائم کے الزامات تھے اگر اُن فوجی افسران پر مقدمے نہیں چلے تو اُن کے سیاسی حامیوں پر مقدمے چلانے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے۔ میرے اور عاصمہ جہانگیر کے موقف سے ہمارے کچھ بنگالی دوستوں کو سخت اختلاف تھا لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جن کا خیال تھا کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ماضی کی قید سے نکلنا چاہئے اور ایک نئے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہئے۔ جس رات میں نے ڈھاکا میں یہ گفتگو کی اُسی رات جب ہوٹل واپس پہنچا تو محمود صاحب نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ اُنہوں نے بنگلہ ٹی وی چینل سے ہوٹل کا نمبر لیا تھا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے لیکن میں تھکا ہوا تھا۔ اگلے دن ایک کانفرنس میں شرکت بھی کرنا تھی لہٰذا ملاقات کا وقت طے نہیں کر سکا۔ دو دن کے بعد جب میں اسلام آباد واپسی کے لئے ہوٹل کی لابی میں عاصمہ جہانگیر اور منیزہ ہاشمی کا انتظار کر رہا تھا تو محمود صاحب اور اُن کی اہلیہ نسرین وہاں آ گئے۔ نسرین صاحبہ نے میرے ساتھ پنجابی بولنا شروع کر دی۔ پتا چلا کہ وہ لاہور میں پیدا ہوئیں۔ والد سرکاری افسر تھے اور اُنکی پوسٹنگ اسلام آباد میں ہو گئی۔ 1970 میں اُنکی ملاقات اسلام آباد میں محمود صاحب سے ہوئی جن کے والد ایک سرکاری بینک میں افسر تھے۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ سے چند ماہ قبل دونوں کی منگنی ہو گئی۔ پھر 16 ؍دسمبر آیا۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ محمود صاحب اپنے خاندان کے ہمراہ ڈھاکا چلے گئے لیکن اُنہوں نے نسرین کیساتھ قائم ہونیوالا رشتہ نہیں توڑا۔ 1973 میں نسرین اسلام آباد سے اور محمود ڈھاکا سے لندن پہنچے۔ دونوں نے لندن میں شادی کی اور وہیں رہنے لگے۔ اب دونوں کبھی کبھی اپنے رشتہ داروں کو ملنے ڈھاکا اور لاہور آتے ہیں۔ پھر محمود صاحب نے مجھ سے ٹیلی فون نمبر لے لیا اور میں ایئر پورٹ روانہ ہو گیا۔ دو سال قبل ان دونوں سے لندن میں ملاقات ہوئی، اُنہوں نے بتایا کہ وہ تین چار ایسے جوڑوں کو جانتے ہیں جنکی شادیاں متحدہ پاکستان میں ہوئیں جب پاکستان ٹوٹ گیا تو شادیاں قائم رہیں۔ ایسی ایک خاتون کو میں بھی جانتا تھا جو پنجابی ہیں اور اپنے بنگالی خاوند کے ساتھ آج بھی ڈھاکا میں رہتی ہیں۔ میں اُن کی کہانی میڈیا پر لانا چاہتا تھا لیکن اُنہوں نے منع کر دیا کیونکہ خدشہ تھا کہ اُن کے بچوں کیلئے مسائل پیدا نہ ہوں۔
محمود صاحب اور نسرین صاحبہ نے لندن میں یہ خواہش ظاہر کی کہ اُن سمیت چار پانچ دیگر جوڑوں سے ملاقات کر کے ایک کتاب لکھی جائے۔ مجھے اُن کا خیال بہت اچھا لگا لیکن اس کیلئے لندن میں ٹھہرنا ضروری تھا کیونکہ دیگر جوڑے بھی برطانیہ میں مقیم تھے۔ مجھے اس کام کیلئے ایک بنگالی دوست زیادہ مناسب لگا جو کیمرج میں رہتا ہے۔ میں نے محمود صاحب کا اپنے اس دوست سے رابطہ کرا دیا اور پاکستان واپس آ گیا۔ اب دو سال کے بعد محمود صاحب مجھے اسلام آباد میں مل رہے تھے۔ کچھ بیمار بھی تھے لیکن نسرین کیساتھ اپنی محبت کی کہانی کو کتاب بنانے پر مصر تھے اور شکوہ کر رہے تھے کہ آپ کا دوست بھاگ گیا کیونکہ وہ حسینہ واجد سے ڈرتا ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ محبت کی ان کہانیوں پر حسینہ واجد کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں نے محمود صاحب کو کرنل زیڈ آئی فرخ کی ایک کتاب کے بارے میں بتایا جو "بچھڑ گئے" کے نام سے 2018 میں شائع ہوئی ہے۔ کرنل فرخ 1970 میں بلوچ رجمنٹ سے ایسٹ پاکستان رائفلز میں ٹرانسفر ہو کر ڈھاکا پہنچے اور یہاں اُنہیں ایک بنگالی لڑکی سونیا سے محبت ہو گئی۔ یہ محبت 16؍ دسمبر 1971ء کے بعد بھی قائم رہی۔ کرنل فرخ اُس وقت کیپٹن تھے۔ وہ جنگی قیدی بن کر بھارت کی جیلوں میں پہنچے تو وہاں بھی اُن سے اُن کی محبت کے بارے میں تفتیش ہوئی۔ 1974ء میں وہ رہا ہو کر واپس پاکستان پہنچے۔ کچھ عرصہ کے بعد اُنہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل شجاع الدین بٹ کی مدد سے سونیا کو بہت ڈھونڈا لیکن وہ نہ ملی۔ میں نے محمود صاحب کو بتایا کہ آپ خوش قسمت ہیں آپ کو اسلام آباد میں کھوئی ہوئی محبت لندن جا ملی لیکن کرنل فرخ سمیت بہت سے لوگوں کو اُن کی محبت دوبارہ نہیں ملی۔ محمود صاحب نے کہا کہ لندن میں ایک پبلشر سے بات ہو چکی ہے، آپ کو صرف ایک ماہ کی چھٹی لینی ہے۔ تین جوڑوں سے برطانیہ، ایک جوڑے سے ڈھاکا اور ایک جوڑے سے کراچی میں ملاقات کرنی ہے۔ نسرین نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نئی نسل جب اپنے ماضی میں جھانکے تو اسے ماضی سے صرف نفرتوں کی نہیں کچھ محبت کی کہانیاں بھی مل جائیں۔ نسرین بتا رہی تھیں کہ اُن کی بیٹی کی شادی بھی ڈھاکا میں ہوئی ہے۔ اُسکے بچے جس اسکول میں پڑھتے ہیں وہاں 16؍دسمبر کو "وکٹری ڈے" کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایک دن اس بیٹی نے اپنی ماں سے کہا کہ ہم 16؍دسمبر کو پاکستان کے خلاف اپنی فتح کا دن قرار دیتے ہیں لیکن آپ بھی تو پاکستانی ہیں تو ہم نے کون سے پاکستان کو شکست دی؟ نسرین نے جواب میں کہا کہ ایک پاکستان تم سے نفرت کرتا تھا، ایک پاکستان تم سے آج بھی محبت کرتا ہے اور تم نے یہ محبت پاکستان کو لوٹانی ہے تاکہ محبت کو نفرت پر وکٹری مل جائے۔ نسرین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ محمود صاحب بھی آنسو پونچھ رہے تھے۔ میں نے بھی پُرنم آنکھوں سے محمود صاحب کو کہا کہ بہت جلد لندن میں آپ سے ملاقات ہو گی اور ہم مل کر پرانی نفرتوں کو شکست دیں گے اور ہمارا وکٹری ڈے وہ ہوگا جب ہم ایک دوسرے کو کہیں گے مجھے تم سے پیار ہے۔ شاید فیض احمد فیضؔ نے بھی اسی دن کے انتظار میں کہا تھا کہ خون کے "دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد"۔