کابل، کشمیر اور کراچی
بندوق کی طاقت سے اکثریت پر اقلیت کا ظلم کئی قوموں کے زوال کا باعث بن چکا ہے۔ ماضی قریب میں اس کی سب سے بڑی مثال سوویت یونین جیسی سپر پاور کا بکھر جانا ہے۔ بہت سی طاقتور قوموں نے سوویت یونین کے زوال سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سبق نہ سیکھنے والوں میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت سرفہرست ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں وہی غلطی کی جو سوویت یونین نے افغانستان میں کی تھی۔ سوویت یونین کے زوال نے آزادی کی کئی تحریکوں کو نئی زندگی بخشی۔ ان میں سے ایک کشمیر کی تحریک آزادی بھی تھی۔ سوویت فوج نے افغانستان میں مزاحمت کو کچلنے کیلئے کلسٹر بموں کا بے دریغ استعمال کیا لیکن 1989ء میں سوویت فوج افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو گئی۔ یہی وہ سال تھا جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج پر بڑے بڑے حملے ہونے لگے۔ کابل کو ایک سپر پاور کی غلامی سے نجات ملی تو کشمیریوں میں آزادی کی نئی امید پیدا ہوئی۔ اس امید کو ختم کرنے کیلئے بھارت نے پاکستان پر دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کیلئے پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ کابل، کشمیر اور کراچی کا یہ تعلق آج بھی قائم ہے۔
کابل اور کشمیر کا تعلق بہت پرانا ہے۔ 1947ء میں کابل کے ایک عالم دین ملا صاحب شور بازار کو جموں و کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی اطلاعات ملیں تو انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کشمیر میں جہاد کا حکم دیا جس کے بعد افغانستان اور پاکستان کے کئی قبائل نے کشمیر کا رخ کیا۔ 1989ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد کئی افغان مجاہدین نے بھی وادی کشمیر کا رخ کر لیا تھا۔ نوے کی دہائی میں سینکڑوں افغان مجاہدین مقبوضہ جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں شہید ہوئے لیکن نائن الیون کے بعد امریکی فوج نے افغانستان کا رخ کیا تو پھر یہ تمام افغانی ایک نئی مزاحمت میں مصروف ہو گئے۔ امریکہ نے بھی افغانستان میں کلسٹر بموں کا بار بار استعمال کیا لیکن سوویت یونین کی طرح امریکہ بھی افغانوں کو اپنا غلام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ سوویت یونین دس سال کے بعد افغانستان سے بھاگا تھا۔ امریکہ اٹھارہ سال کے بعد بھاگ رہا ہے۔ وہ امریکہ جس نے اقوام متحدہ کے ذریعہ افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دلوایا تھا آج امریکہ اُنہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
1989ء میں بھی پاکستان نے افغانستان سے سوویت فوج کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 2019ء میں بھی پاکستان نے افغان طالبان اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے جس کا اعتراف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کر چکے ہیں۔ جب سے ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت میں ثالثی کی پیشکش کو بار بار دہرایا ہے نئی دہلی کے حکمران شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ اگر افغان طالبان اور امریکہ میں کوئی امن معاہدہ ہو گیا تو اس کے کشمیر پر وہی اثرات ہونگے جو 1989ء میں ہوئے تھے۔ افغان تنازع حل ہو جانے کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی دبائو بڑھ سکتا ہے۔ افغان تنازع کا حل بھارت کے ضدی اور ہٹ دھرم حکمرانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ جیسے جیسے افغان طالبان اور امریکہ میں مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں طاقت کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ بھارت نے اچانک جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں فوج اور سیکورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے جس پر بھارتی میڈیا بھی حیران و پریشان ہے۔ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر جارحیت میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور مظلوم کشمیریوں پر کلسٹر بم برسانا شروع کر دیئے ہیں جسکے نتیجے میں عورتوں اور بچوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کی سویلین آبادی کیخلاف جارحانہ ہتھکنڈوں کی نئی لہر ہمیں یاد دلا رہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد ایٹمی جمہوریت کشمیر میں وہی غلطی دہرا رہی ہے جو افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ نے کی تھی۔ کلسٹر بموں کا استعمال طاقت نہیں بلکہ کمزوری کا ثبوت ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت کے ظالم حکمران مقبوضہ جموں و کشمیر میں وہی کرنے جا رہے ہیں جو 1948ء میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ بھارتی آئین کے تحت بھارت کے غیر کشمیری شہری جموں و کشمیر میں کوئی جائیداد نہیں خرید سکتے۔ بھارت کے حکمران جماعت اپنے آئین میں کشمیریوں کو دی جانے والی یہ گارنٹی ختم کرنا چاہتی ہے اور مقبوضہ ریاست کو تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ قتل عام کے ذریعہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائیگا۔
ایک طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم بڑھ رہا ہے دوسری طرف گرفتار کشمیری رہنمائوں کو حیلے بہانوں سے بھارتی حکومت کیساتھ مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس وقت یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم، آسیہ اندرابی اور الطاف شاہ سمیت 40حریت پسند رہنمائوں کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں رکھا گیا ہے۔ یاسین ملک کو جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ اُنکے پاس سونے کیلئے کوئی بستر ہے نہ چادر۔ وہ زمین پر سونے کی کوشش کرتے ہیں تو چھت پر لگا ہوا ہائی وولٹیج کا ایک بلب اُنہیں سونے نہیں دیتا۔ نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار مختلف بے بنیاد مقدمات کی تحقیقات کے نام پر اُنہیں نریندر مودی کیساتھ مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش کر چکے ہیں جب یاسین ملک نے انکار کر دیا تو اُن پر تشدد کیا گیا۔ یاسین ملک دل اور گردے کے عارضے میں مبتلا ہیں، حالیہ تشدد کے باعث اُن کی آنکھ اور ایک کان بھی متاثر ہوا ہے۔ بھارتی حکومت ہر قیمت پر یاسین ملک کے اعصاب توڑنا چاہتی ہے کیونکہ اُنہوں نے حریت کانفرنس کے دو دھڑوں کو متحد کر کے بھارتی حکمرانوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کا اتحاد نئی دہلی کیلئے ایک ڈرائونا خواب ہے اور اس خواب سے نجات کیلئے اُنہوں نے یاسین ملک کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے ایک ہنگامی پیغام میں کہا ہے کہ اگر ہم سب شہید ہو گئے اور آپ خاموش رہے تو اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دو گے؟ گیلانی صاحب نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام شروع کرنیوالی ہے۔ گیلانی صاحب کے پیغام نے مجھے اندر سے ہلا دیا ہے کیونکہ وہ کشمیر کے ہر مظلوم کی آواز ہیں۔ ذرا سوچئے! کشمیریوں کا جرم کیا ہے؟ اُن کا جرم آزادی سے محبت ہے۔ اُن کا جرم پاکستان سے محبت ہے۔ بھارت اُنہیں سب کچھ دینے کیلئے تیار ہے لیکن کشمیریوں کو صرف پاکستان چاہئے۔ کیا ہم پاکستانی اپنے وطن سے اتنی محبت کرتے ہیں جتنی محبت کشمیریوں کو پاکستان سے ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم کشمیریوں کیلئے اسی طرح کھڑے ہو جائیں جیسے وہ پاکستان کیلئے کھڑے ہیں۔ وہ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ کشمیریوں سے بے وفائی پاکستان سے بے وفائی ہے۔ آج ہمیں پوری دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر نئی فوج کشی اور لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بموں کے استعمال کے پیچھے یہ خوف ہے کہ اگر امریکہ کابل سے نکل گیا تو کشمیر دنیا کا فوکس بن جائیگا۔ بھارت کچھ بھی کر لے کشمیری اپنی آزادی چھین کر رہیں گے۔