جیل جانے کی آرزو
سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری اپنے مشترکہ دوست مولانا فضل الرحمٰن کی تجویز کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں آئیں یا نہ آئیں لیکن مولانا صاحب اپنے ایک مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ وہ جولائی 2018کے انتخابات سے بہت پہلے نواز شریف اور آصف علی زرداری میں ڈیڈ لاک ختم کرانا چاہتے تھے لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ انتخابات کے بعد انہوں نے بہت دُہائی دی کہ عمران خان کی حکومت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے۔ وہ بند کمروں میں آصف علی زرداری کو قصہ سازش اغیار سناتے رہے اور انہیں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر عمران خان کا راستہ روکنے پر آمادہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے۔ زرداری نہیں مانے تو مولانا نے کہا کہ وہ نواز شریف کے بعد آپ کو بھی جیل میں ڈال دیں گے۔ یہ سن کرزرداری مسکراتے اور کہتے کہ نواز شریف تو جیل سے باہر آجائیں گے میں نہیں آئوں گا۔ تنگ آ کرمولانا صدارتی امیدوار بن بیٹھے۔ اب زرداری انہیں دستبردار کرانا چاہتے تھے اور مولانا نہیں مانتے تھے۔ زرداری نے بہت سمجھایا کہ میرے دوست تم نوازشریف کی محبت میں مجھ سے نہ بگاڑو میں نے نواز شریف سے دو مرتبہ دھوکہ کھایا ہے لیکن تمہیں کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ مولانا اپنی ضد پر قائم رہے اور ڈاکٹرعارف علوی بڑی آسانی سے صدرمملکت بن گئے۔ بیگم کلثوم نوازکی وفات ایک ٹرننگ پوائنٹ بنا اور آصف علی زرداری اپنے شکوے شکایتیں بھلا کر فاتحہ خوانی کے لئے نواز شریف کے پاس جا پہنچے۔ اس کے بعد سید خورشید شاہ اور سردارایاز صادق کے ذریعے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ایک بیک ڈور چینل قائم ہو گیا جسے مولانا فضل الرحمٰن کی پھونکوں نے کافی مستحکم بنا دیا اورصورتحال یہ بن چکی ہے کہ مجوزہ اے پی سی کے ایجنڈے پر نواز شریف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ہم خیال ہیں اور مولانا کو آہستہ چلنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ چند دن قبل مولاناصاحب کی جاتی امرا میں نواز شریف کے ساتھ جو گفتگو ہوئی وہ بڑی دلچسپ تھی۔ مولانا نے نواز شریف کو قومی اسمبلی اور بلوچستان میں نمبرز گیم میں تبدیلی کے امکانات سے روشناس کیا تو نوازشریف نے کہا کہ مولانا صاحب ہمیں یہ حکومت گرانے کےلئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں یہ حکومت اپنی حرکتوں سے خود ہی گر جائے گی اور سب سے کم عمر جمہوری حکومت کااعزاز پائے گی۔ یہ سن کر مولانا نے نواز شریف سے کہا کہ اگریہ حکومت خود ہی گر گئی تو عوام پوچھیں گے کہ اپوزیشن کہاں تھی؟ نواز شریف مُصر تھے کہ اس حکومت کو تین ماہ تک اپنی من مانی کرنے دی جائے اور اگر یہ اپنی من مانیوں کے بوجھ تلے آ کر خود ہی ٹوٹ جائے تو اچھا ہے ہمیں بدنامی مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟
دوسری طرف آصف علی زرداری کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی تھے تاہم اس مرتبہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مولانا کو کہا کہ آپ عمران خان کو تحریک ِ عدم اعتماد کے ذریعے نکالیں گے تو وہ مظلوم بن جائےگا، اسے مظلوم نہ بنائیں لیکن آخری فیصلہ آپ کا ہوگا جو آپ کہیں گے ہم وہی کریں گے۔ جب مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) والوں کوبتایا کہ آصف علی زرداری راضی ہیں تو ان میں سے کچھ نکتہ دانوں نے کہا کہ زرداری صاحب جعلی بنک اکائونٹس کیس میں گرفتارہونے والے ہیں لہٰذا یہ اے پی سی تو ان کے لئے بچت کاذریعہ بن جائے گی لہٰذا وہ تو اس میں ضرور آئیں گے۔ یہ بات زرداری کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر نواز شریف اے پی سی میں نہیں آئیں گے تو وہ بھی نہیں آئیں گے اور پھر آصف علی زرداری نے وہ کیا جس پر ان کے اردگرد موجود تمام لوگ حیران نہیں بلکہ پریشان ہوگئے۔ زرداری صاحب نے اپنے وکلا کو ہدایت کی کہ اگر انہیں گرفتار کرلیا جائے توفوری طور پر کوئی درخواست ضمانت دائر نہ کی جائے۔ مقدمے کو چلنے دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ انہیں یقین ہے کہ گرفتار کرکے انہیں سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب میں رکھا جائے گا۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ جس طرح نواز شریف زیادہ عرصہ جیل میں نہیں رہے شہباز شریف بھی زیادہ عرصہ نیب کی حراست میں نہیں رہیں گے اور پھر اصل اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نہیں بلکہ بلاول بنے گا کیونکہ اس کا باپ جیل میں ہوگا۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری میں ڈیڈلاک تو ختم ہو چکا لیکن ابھی تک کچھ غلط فہمیاں ختم نہیں ہوئیں۔ دونوں کی طرف سے ان غلط فہمیوں پر کھل کر بات نہیں کی جائے گی لیکن بقول شاعر؎
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دلوں میں یہ وسوسہ بھی موجزن ہے کہ اگر انہوں نےمل کر عمران خان پر سیاسی قیامت ڈھا دی تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ کون حکومت چلائے گا اور کیسے حکومت چلائے گا؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو مل کر حکومت چلانی پڑے گی اور ان کی حکومت کا روزِ جزا زیادہ بھیانک ہوگا لہٰذا یہ دونوں اپنے سیاسی انجام سے بار بار دوچار ہونے کی وجہ سے زیادہ محتاط ہیں اور عمران خان کے سیاسی انجام کو ذرا دور بیٹھ کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے اصرار پر یہ طے پایا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کا سربراہی اجلاس بلانے کی بجائے ایک مشاورتی اجلاس بلایا جائے جس میں تمام اہم جماعتوں کی مرکزی قیادت کی بجائے وفود شرکت کریں۔ اس اجلاس میں اے پی سی کا ایجنڈا طے کیا جائے اور ایجنڈے کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ہو۔ اس دوران عمران خان کی حکومت کے تین ماہ پورے ہو جائیں گے جس کے بعد اے پی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے اور اے پی سی کو ایک مستقل سیاسی اتحاد کی شکل دیدی جائے۔ یہ سیاسی اتحاد صرف سربراہی اجلاس نہیں کیا کرے گا بلکہ سیاسی جلسے جلوسوں کاا ہتمام بھی کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں نواز شریف سوسنار کی نہیں بلکہ ایک لوہار کی والی پالیسی بنانا چاہتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری سانپ کو مارنے پر آمادہ ہیں لیکن اپنی لاٹھی بھی بچانا چاہتے ہیں۔ ان کی لاٹھی یہ جمہوری نظام اور آئین ہے جس کے اندر رہ کر انہوں نے اٹھارہویں ترمیم منظور کرالی۔ وہ ملک میں ایسا ہنگامہ برپا نہیں کرنا چاہتے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ باقی سب کچھ بھی لپیٹ دیا جائے۔ نئی حکومت کے وزیروں کی عدالتوں میں طلبیاں شروع ہوچکی ہیں اور زرداری صاحب اپنی ادویات کا تھیلا اٹھا کر جیل جانے کی تیاری میں ہیں۔ مولانا دوبارہ ان کے قریب ہوچکے ہیں لیکن زرداری کی دل آویز مسکراہٹ کے پیچھے چھپی سیاست اور جیل جانے کی نئی آرزو مولانا کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ بدھ کی دوپہر مولانا کو مختلف مذہبی جماعتوں کے پیغامات موصول ہو رہے تھے کہ آسیہ مسیح کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر کیا کرنا ہے؟ مولانا کی توجہ اے پی سی سے ہٹ کر اس طرف جارہی تھی جہاں لوگوں کو سڑکوں پر لانا زیادہ آسان ہے۔ امید ہے مولانا صاحب انصاف اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے لیکن نئی صورتحال میں وہ بھی جیل جانے کی آرزو میں مبتلا نظرآتے ہیں۔ اللہ پاکستان کی خیر کرے اور اسے سازش ِ اغیار سے بچائے۔