اتنی بڑی نااہلی؟
بدنیتی سے سازش جنم لیتی ہے لیکن نااہلی سے بحران جنم لیتا ہے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت کی تقرری کا نوٹیفکیشن ایک سادہ سا معاملہ تھا جس میں صرف قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا تھی لیکن اس نوٹیفکیشن کا اجرا ایک بہت بڑے آئینی بحران میں تبدیل ہوگیا اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس آئینی بحران کی وجہ صرف اور صرف نااہلی تھی۔
اس آئینی بحران نے صرف عمران خان کی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشا بنا دیا۔ کیا عمران خان اور ان کے وزرا اس بحران کی ذمہ داری بھی ماضی کی حکومتوں پر عائد کریں گے؟
سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کیس کی سماعت کے بعد جو آرڈر جاری کیا اس میں نوٹیفکیشن کے معاملے میں قانونی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان خامیوں کا جائزہ لیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم کے اردگرد نہ صرف قواعد و ضوابط سے نابلد سرکاری افسران بلکہ نااہل قانونی مشیروں کی بھرمار ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے تھے لیکن وزیراعظم عمران خان نے انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع لینے پر آمادہ کیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے 26 نومبر 2019ء کے آرڈرمیں لکھا کہ وزیراعظم نے 19 اگست 2019ء کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم خود ہی جاری کر دیا حالانکہ آئین پاکستان کی دفعہ 243 کے تحت یہ اختیار صدرِ مملکت کا تھا۔
جب غلطی سامنے آئی تو اسی دن وزیراعظم کی طرف سے صدر کو ایک سمری بھجوائی گئی اور صدر نے اسی دن نوٹیفکیشن جاری کر دیا لیکن اس عمل میں یہ کمی رہ گئی کہ وفاقی کابینہ سے منظوری نہ لی گئی۔
اگلے دن 20 اگست کو کابینہ کا اجلاس بلایا گیا اور کابینہ سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری لی گئی۔ سپریم کورٹ کے آرڈر میں کہا گیا کہ کابینہ کے 25 میں سے گیارہ ارکان کی رائے سامنے آئی، اکثریت کی رائے سامنے نہیں آئی۔
سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا کہ کابینہ کی نام نہاد منظوری کے بعد دوبارہ یہ معاملہ وزیراعظم اور صدر کو نہیں بھیجا گیا۔ اس آرڈر میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے آرمی ریگولیشنز (رولز) کے سیکشن 255 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی تاہم سپریم کورٹ کے خیال میں اس قانون کا اطلاق صرف ریٹائرڈ افسران پر ہوتا ہے۔
26 نومبر کو سپریم کورٹ کے آرڈر میں آرمی چیف سے متعلق نوٹیفکیشن میں جن قانونی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی انہیں دور کرنے کیلئے کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور بحران ختم کرنے کیلئے آرمی ریگولیشنز (رولز) کے سیکشن 255 میں ترمیم کرکے وزیراعظم کی طرف سے نئی سمری صدر کو بھیج دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تاکہ اگلے روز عدالت میں آرمی چیف کی وکالت کر سکیں۔
27 نومبر کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے نئی دستاویزات عدالت میں پیش کر دیں جس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے جس سیکشن 255 میں ترمیم کی ہے وہ آرمی چیف پر لاگو ہی نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل صاحب 27 نومبر کی سماعت میں اُکھڑے اُکھڑے سے نظر آ رہے تھے۔ وہ جنرل کیانی کو جسٹس کیانی کہتے رہے۔ مجھے ان کی قابلیت پر کوئی شک نہیں کیونکہ انہیں نو سال قبل پیپلز پارٹی کے دور میں بھی اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا اور بعد ازاں وہ پرویز مشرف کے وکیل بن گئے۔
2014ء میں ان کے بھائی عاصم منصور خان کو نواز شریف حکومت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل بنایا تھا۔ عمران خان کی موجودہ حکومت میں صرف انور منصور خان وہ واحد شخصیت نہیں جو بیک وقت پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے قریب رہے۔
اس حکومت کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کی آنکھیں اور کان تھے، محمد میاں سومرو، شیخ رشید احمد، زبیدہ جلال، عمر ایوب اور خسرو بختیار کے علاوہ فروغ نسیم سمیت اس حکومت کے کئی افراد مشرف کی آنکھ کا تارا تھے۔ اس حکومت کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ تھے۔ اس حکومت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ تھے۔
اس حکومت کے ایک قانونی مشیر بابر اعوان پیپلز پارٹی کے وزیر قانون تھے اور اس حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان پیپلز پارٹی کی وزیر اطلاعات تھیں۔ مشرف اور آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کو اپنی حکومت میں شامل کرنے والے عمران خان نے یہ نہیں سوچا کہ جو حشر مشرف اور زرداری کا ہوا، کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو۔ مشرف تو اپنی مدتِ ملازمت میں خود ہی توسیع کرتے رہے اس لئے کوئی بحران پیدا نہ ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کی اور عمران خان نے پیپلز پارٹی کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دینے کا فیصلہ کیا لیکن یہ سادہ سا کام سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا۔
صدر مملکت عارف علوی بہت سمجھدار اور سنجیدہ آدمی ہیں لیکن نجانے انہیں کیا ہوا کہ 19 اگست کو آرمی چیف کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرکے وہ اس معاملے کو بھول گئے اور 12 ستمبر کو جب عاصمہ شیرازی نے ایک انٹرویو میں انہیں پوچھا کہ وہ آرمی چیف کا نوٹیفکیشن کب جاری کریں گے تو انہوں نے فرمایا کہ ابھی وزیراعظم نے سمری نہیں بھجوائی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کروڑ نئی نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس حکومت نے پاکستان کی سب سے مضبوط اور پکی نوکری کو بھی ایک تماشا بنا دیا۔
اس تماشے سے صرف تحریک انصاف کی ساکھ مجروح نہیں ہوئی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق اڑایا گیا۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نام لیکر کہا تھا کہ اس تاثر کو ختم کریں کہ پاکستان میں کمزور کیلئے ایک قانون اور طاقتور کیلئے دوسرا قانون ہے۔
مشرف اور زرداری صاحب کے پرانے ساتھیوں نے اس تقریر پر عمران خان کو بہت داد دی تھی لیکن امید ہے کہ عمران خان کو اب تک چیف جسٹس کا جواب سمجھ آ چکا ہوگا۔
اب یہ اہم نہیں کہ اس سارے معاملے پر عدالت نے کیا فیصلہ دیا؟ اہم یہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے نوٹیفکیشن کو ایک بہت بڑا آئینی بحران بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟ عمران خان تو ذمہ داری قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ پہلی دفعہ حکومت میں آئے ہیں لیکن کیا مشرف اور زرداری کے پرانے ساتھیوں کے جھرمٹ میں سے کوئی تجربہ کار چہرہ ذمہ داری قبول کرنے کی اخلاقی جرأت کرے گا تاکہ ہمیں بھی پتا چلے کہ یہ پرانا نہیں، نیا پاکستان ہے؟