فکری آلودگی
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک بہت بڑی تبدیلی لیکر آئے ہیں۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ اس تبدیلی سے پنجاب کو فائدہ ہوا یا نقصان لیکن تبدیلی تو آخر تبدیلی ہوتی ہے، فائدہ پہنچائے یا نقصان۔ یہ ناچیز جس تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے اس کا عملی مشاہدہ میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ ایک محفل میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال سے ملاقات ہوئی تو دونوں نے اپنی مادری زبان بلوچی میں ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کو بلوچی بولتے دیکھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور مجھے پنجاب کے کچھ بڑے بڑے سیاست دان اور دانشوروں کا درد سمجھ آ گیا جس کا اظہار وہ عثمان بزدار کے بارے میں مایوسی کے ذریعہ کرتے ہیں۔ شروع شروع میں کہا گیا کہ جس طرح شہباز شریف چند ہفتوں کیلئے دوست محمد کھوسہ کو لائے تھے اسی طرح جہانگیر ترین چند ہفتوں کیلئے عثمان بزدار کو لائے ہیں اور سپریم کورٹ سے کلین چٹ ملنے کے بعد وہ خود وزیراعلیٰ بن جائیں گے لیکن نہ ترین صاحب کو یہ کلین چٹ ملی نہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنوانے میں ان کا کوئی کردار سامنے آیا۔ تین ماہ گزرنے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ایک ڈمی وزیراعلیٰ ہیں اصل اختیارات تو کسی اور کے پاس ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے ایک ٹی وی اینکر نے عثمان بزدار سے کہا کہ سنا ہے آپ کے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں، وزیراعلیٰ کا اختیار تو گورنر صاحب یا سینئر منسٹر استعمال کرتے ہیں یہ سن کر بزدار صاحب نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ جن کو بااختیار سمجھتے ہیں ان سے اپنا کوئی کام کروا کر دکھادیں اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ ویسے میں تو اکثر شام کو گورنر صاحب کے ساتھ واک کرتا ہوں۔ عثمان بزدار کی اصل طاقت وزیراعظم عمران خان ہیں جب تک وزیراعظم ان کے پیچھے کھڑے ہیں کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا لیکن اگر عثمان بزدار نے اپنی کارکردگی بہتر نہ بنائی تو پھر وہ عمران خان کے زوال کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ جو لوگ عثمان بزدار کو پنجاب میں سیاسی انحطاط کی علامت قرار دے رہے ہیں انکی گفتگو پر ذرا غور کریں تو آپ کو ہمارے معاشرے میں فکری و صحافتی انحطاط کے آثار بھی واضح نظر آئیں گے۔ یہ انحطاط صرف پاکستان تک محدود نہیں آپ کو اپنے ارد گرد بہت سے ممالک میں فکری انتشار نظر آئے گا جو معاشرے کے ہر طبقے کو انتہا پسند بنا رہا ہے۔ مذہبی طبقہ بھی دھونس اور دھمکی دیتا نظر آتا ہے اور اپنے آپ کو لبرل و سیکولر کہنے والے بھی اختلافِ رائے کے نام پر جھوٹ اور ڈس انفارمیشن پھیلاتے نظر آئیں گے۔
نومبر میں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒاور شیر میسور ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے۔ اس سال پاکستان میں یوم اقبالؒ پر شاعر مشرق کے خلاف دشنام طرازی کی گئی اور بھارت میں ٹیپو سلطان پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان میں طاقتور ریاستی اداروں کے بارے میں سچ بولنا بہت مشکل ہو چکا ہے لیکن علامہ اقبال ؒکے خلاف جھوٹا الزام لگانا بہت آسان ہے۔ اس سال 9 نومبر کو ایک انگریزی اخبار میں بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے علامہ اقبال ؒپر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ سائنس، فلسفے، آرٹ اور آزادی اظہار کے دشمن تھے اور یہ کہ انہوں نے اپنے خطبات میں قرآنی آیات کے حوالے انتہائی غیر ذمہ داری سے دیئے۔ تفصیل میں نہیں جاتا صرف اتنا عرض ہے کہ ایک عاشقِ اقبال اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ طارق پیرزادہ شاعر مشرق پر الزامات پڑھ کر تڑپ اٹھے اور چند گھنٹوں میں اس اقبال دشمنی کے پیچھے متحرک لابی کو کھوج لائے جس کے سر پر آج کل خادم حسین رضوی سوار ہے اور اس لابی کا اپنا طرزِ فکر اور طرز بیان بھی خادم حسین رضوی سے مختلف نہیں۔ ادھر بھارت میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے ٹیپو سلطان کو ہندوئوں کا قاتل اور دشمن قرار دیکر مطالبہ کیا کہ ٹیپو سلطان کی یاد میں کرناٹکا میں منعقد کی جانے والی سرکاری تقاریب منسوخ کی جائیں۔ بھارت کے معروف شاعر جاوید اختر اس ٹیپو دشمنی پر تڑپ اٹھے، انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ٹیپو سلطان نے امریکہ کی جنگِ آزادی کے دوران بینجمن زینکلن کے نام ایک پیغام میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور انہیں مالی امداد بھی بھجوائی۔ آر ایس ایس کے حامیوں نے جاوید اختر کے اس دعوے کو مسترد کر دیا جس پر جاوید اخترنے جواب میں کہا کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ انگریزوں کی حمایت کی اور انہیں معافی نامے لکھ کر دیئے اس پر آر ایس ایس کے ایک حامی وکاس سراوات نے دعویٰ کیا کہ جاوید اختر کے ایک بزرگ مولوی فضل حق خیرآبادی نے بھی 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سزا پانے پر انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ ٹیپو سلطان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور میدان سے بھاگنے کے بجائے شیر کی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کی سوسالہ زندگی پر ترجیح دی لیکن آج بی جے پی صرف اسلام دشمنی میں بھارت کے بڑے بڑے شہروں کے نام ہی نہیں بلکہ تاریخ بھی بدل رہی ہے پہلے میسور کو کرناٹکا بنایا گیا اب ٹیپو سلطان کو غدار اور میرصادق کو ہیروبنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وہ علامہ اقبالؒ جن کے کلام میں ٹیپو سلطان کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا انہیں پاکستان میں زیرو کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن مذہبی انتہا پسندہوں یا سیکولر دانشور وہ نہ ٹیپو سلطان سے اس کا مقام چھین سکتے ہیں نہ ہی اقبالؒ کی فکری عظمت کہ چاند پر تھوکنے سے انہیں کچھ ملے گا لیکن جہاں چاند پر تھوکنے والوں کی تعداد بڑھ جائے وہاں سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے معاشروں کو ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ فکری آلودگی سے بھی بچانا ہے۔ ایک زمانے میں کچھ ترقی پسندوں نے اقبالؒ کی مذمت شروع کی تو فیض احمد فیض سینہ تان کر اقبالؒ کے دفاع میں کھڑے ہو گئے۔ آج فیض صاحب ہم میں نہیں۔ نومبر میں ہم انکی یاد بھی منا رہے ہیں اور انکی یاد منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم فیض کی طرح اقبالؒ کا دفاع کریں۔ اقبالؒ ایک انسان تھے اور انسان خطاء کا پتلا ہوتا ہے۔ انسان پر تنقید بھی ہو سکتی ہے لیکن اقبالؒ پر جھوٹے الزامات لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ فلسفہ خودی کے پیامبر کو آزادی اظہار کا دشمن قرار دینا اور ان پر قرآنی آیات کے غیر ذمہ دارانہ طریقے سے حوالے دینے کا الزام ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ اقبالؒ کا اصل قصور یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا؎
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ
آج بھارت میں جو کچھ ٹیپو سلطان کےساتھ ہو رہا ہے اس کے بعد ہمیں اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں پاکستان کا خواب بھی دیا اور خواب کی تعبیر بھی دی لیکن افسوس کہ آج پاکستان کے کچھ احسان فراموش دانشور بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرح جھوٹ بول کر تاریخ کو بدلنے کی کوشش میں ہیں۔ اقبال ؒ ایک گناہ گار انسان تھے لیکن سچے عاشق رسول ؐ تھے۔ کسی عاشق رسول ؐکی طرف سے توہین رسالتؐ کی مذمت کو آزادی اظہارپر حملہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب تو یورپی عدالتیں بھی کہہ رہی ہیں کہ آزادی اظہار کے نام پر توہین رسالتؐ کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا اقبالؒ کے دشمن چاند پر تھوکنا بند کردیں۔