ایک رسوائی، کئی ہرجائی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ پروین شاکر نے یہ بات نہ جانے کس ہرجائی کے بارے میں کی تھی لیکن رسوائی اور ہرجائی کا یہ قصہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد آج کل بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں، اُسی طرح کے بیانات وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی دیا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ محترمہ بےنظیر بھٹو اُس وقت وزیراعظم تھیں اور بلاول آج کل اپوزیشن میں ہیں۔ شیخ رشید کے ذومعنی جملوں نے انہیں بہاولپور جیل پہنچا دیا تھا۔ جیل میں شیخ صاحب نے ایک کتاب لکھنا شروع کردی۔ یہ کتاب بےنظیر حکومت سے زیادہ شہباز شریف کے خلاف تھی اور کچھ شکوے شکایتیں نواز شریف سے بھی تھیں۔ نواز شریف کو اس " کتابی بغاوت" کی خبر ملی تو انہوں نے شیخ صاحب کے ساتھ ملاقات کا پروگرام بنایا۔ ایک دن لاہور فلائنگ کلب سے نواز شریف، مشاہد حسین اور ضیاء شاہد ایک چھوٹے طیارے میں بہاولپور روانہ ہوئے۔ جیل پہنچے تو وہاں شیخ رشید احمد نے اپنے محبوب قائد کیلئے پُرتکلف دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ایک دیگ میں بکرے کے پائے پکائے گئے اور تنور کا بھی انتظام کیا گیا تاکہ تازہ کلچوں کا بندوبست بھی ہو سکے۔ جیل کے اندر اس "دعوتِ شیراز" کا لطف اٹھانے کے بعد نوازشریف نے علیحدگی میں شیخ صاحب کے ساتھ کچھ باتیں کیں۔ شیخ صاحب نے یہ باتیں سن کر اپنے محبوب قائد کا ماتھا چوم لیا اور اپنی کتاب کے مسودے میں سے شہباز شریف کے خلاف بہت سی باتیں نکال دیں تاکہ مسلم لیگ(ن) رسوائی سے بچ جائے۔ یہ مسودہ لاہور میں مظفر محمد علی صاحب کو بھیجا گیا اور انہوں نے "فرزند ِپاکستان" کے نام سے جنگ پبلشرز کے زیراہتمام شیخ رشید احمد کی کتاب شائع کر دی۔ کچھ عرصے کے بعد بےنظیر حکومت ختم ہو گئی اور نواز شریف اقتدار میں آگئے۔ نواز شریف نے اقتدار میں آکر آصف علی زرداری کو جیل بھیج دیا۔ اسی دور میں شہباز شریف اور سیف الرحمان لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس ملک قیوم کو فون کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سخت سے سخت سزا دینے کی فرمائشیں کیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمٰن نے وزیرداخلہ چوہدری شجاعت حسین پر دباؤ ڈالا کہ آصف علی زرداری پر منشیات کی اسمگلنگ کا مقدمہ بھی بنایا جائے۔ چوہدری شجاعت حسین نے اے این ایف کے سربراہ میجر جنرل مشتاق حسین سے پوچھا کہ کیا زرداری پر منشیات کی اسمگلنگ کا الزام درست ہے تو انہوں نے تحریری طور پر اس الزام کو غلط قرار دے دیا۔ یہ مقدمہ تو درج نہ ہو سکا لیکن سیف الرحمٰن نے محترمہ بےنظیر بھٹو پر اتنےمقدمات بنا دیے کہ وہ روزانہ کسی نہ کسی عدالت میں طلب کی جاتی تھیں اور پھر ایک دن وہ اپنے بچوں کے ساتھ ملک چھوڑ گئیں۔
اپوزیشن لیڈر محترمہ بےنظیر بھٹو سے نجات پانے کے بعد نوازشریف نے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے بھی نجات پانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں خود جیل جا پہنچے۔ یہ جیل محترمہ بےنظیر بھٹو کی نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کی تھی جو نوازشریف کو ڈرانے کے لیے اٹک جیل میں ان کے سیل کے سامنے ایک سوکھے ہوئے درخت پر بڑے بڑے سانپ لٹکا دیتے تھے۔ نواز شریف کا اصل مسئلہ درختوں پر لٹکے سانپ نہیں بلکہ آستین کے کئی سانپ تھے جنہوں نے انہیں غلط مشورے دے کر جیل پہنچایا تھا۔ عام خیال تھا کہ محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا اور اسی لئے دونوں نے 2006 میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے۔ افسوس کے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کے بعد پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کر لیا کیونکہ پیپلزپارٹی کو خدشہ تھا کہ کہیں نوازشریف چپکے سے مشرف کے ساتھ ویسی ہی ڈیل نہ کر لیں، جیسی اُنہوں نے دسمبر 2000 میں کی تھی۔ اس این آر او کے فوراً بعد محترمہ بےنظیر بھٹو کی جان لے لی گئی۔ سب کو پتہ تھا کہ ہر جائی کون تھا لیکن رسوائی دونوں کو ملی۔ آصف علی زرداری نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا لیکن میمو گیٹ اسکینڈل میں نوازشریف نے جنرل کیانی اور جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ کھڑے ہو کر زرداری کو غدار قرار دیا۔
نوازشریف اور زرداری ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے رہے۔ ایک دوسرے کی سیاست ختم کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے اور پھر عمران خان نے ان دونوں کے خلاف محاذ کھول لیا۔ دونوں کو سمجھ نہیں آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ 2014 میں عمران خان نے اسلام آباد میں نواز شریف کے خلاف دھرنا دیا تو آصف علی زرداری پھر سے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ایک طرف زرداری جمہوریت بچانے کے نام پر نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے دوسری طرف زرداری اور بلاول کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے بنائے جارہے تھے۔ جیسے ہی عمران خان کا دھرنا ختم ہوا تو نوازشریف نے آنکھیں پھیر لیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کو پاکستان سے بھگا دیا اور الزام عدالت پر لگا دیا۔ پرویز مشرف کے ساتھ یہ خاموش این آر او بھی ان کی حکومت نہ بچا سکا۔ آج نوازشریف کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔ زرداری اور بلاول وہی مقدمات بھگت رہے ہیں جو نوازشریف دور میں ان پر بنائے گئے تھے۔ عمران خان اور ان کے وزراء تالیاں بجا بجا کر اپنے سیاسی مخالفین کی رسوائی کا مزہ لوٹ رہے ہیں لیکن شاید انہیں یہ پتا نہیں کہ ہر جائی تو ہرجائی ہوتا ہے۔ اس ہرجائی نے کل تک نواز شریف اور زرداری کی خوشبو کی طرح پذیرائی کی لیکن وقت بدلا تو شیخ رشید احمد بن گیا۔ ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے کس کا وقت بدلتے نہیں دیکھا؟ کیسا کیسا وقت بدلتے دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، شاید ہمیں آئندہ بھی وقت بدلتے دیکھنا ہے اور پتہ نہیں کس کس کا وقت بدلتے دیکھنا ہے لیکن ایک بات طے ہے وقت تو بار بار بدلتا ہے لیکن ہمارے اکثر سیاستدان نہیں بدلتے۔ اتحادی بدل لیتے ہیں۔ پارٹیاں بدل لیتے ہیں لیکن اپنی عادت نہیں بدلتے۔ مشکل وقت میں محسن کو بھول جاتے ہیں لہٰذا ان پر مشکل وقت آئے تو کئی دوست انہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں نواز شریف اور بلاول کی ملاقات ہوئی تو اس جیل میں موجود آم کے دو درختوں کا ذکر آیا۔ ایک درخت ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا دوسرا درخت آصف علی زرداری نے تیسرا درخت نوازشریف لگانے والے ہیں۔ اپنے دل سے پوچھئے کہ چوتھا درخت کون لگائے گا؟
نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا۔ عمران خان کو ان دونوں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ عمران خان کو ان دونوں کے سابق ساتھیوں اور دوستوں نے گھیر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کے اردگرد وہی کچھ ہو رہا ہے جو ان دونوں کے اردگرد ہوتا تھا۔ پاکستان ان دنوں بہت بڑی بڑی غیر ملکی سازشوں کا نشانہ ہے۔ ان سازشوں کا مقابلہ صرف قومی یکجہتی سے ہو سکتا ہے لیکن افسوس کہ یہ یکجہتی نظر نہیں آ رہی۔ بدھ کو راولپنڈی میں احتساب ہیڈکوارٹر کے باہر جو کچھ ہوا وہ ہمیں آنے والے دنوں میں انتشار اور بے یقینی کی خبر دے رہا ہے۔ آجکل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی بہت کوششیں ہو رہی ہیں اور اچانک نوازشریف کے کچھ قریبی ساتھیوں نے موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ان کی رہائی کے لیے کوشش شروع کر دی ہے۔ نجانے حبیب جالب نے کن لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ موت مانگو رہائی نہ مانگو۔ انتظار کیجئے! دیکھتے ہیں کہ کسے رہائی ملتی ہےاور کسے جگ ہنسائی۔ لیکن جو کھیل اقتدار کے ایوانوں میں چل رہا ہے وہ بڑا خطرناک ہے۔ حکمران جماعت کے اندر بڑھتی ہوئی لڑائیاں بہت جلد عمران خان پر یہ واضح کر دیں گی کہ جو نواز شریف اور زرداری کے نہ بن سکے وہ میرے بھی نہ بنے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔