خوارج کے خلاف کاروائی اور طالبان
پاکستان نے افغان صوبے پکتیکامیں فضائی کاروائی کے دوران خوارج کے ٹھکانوں کوکامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے کالعدم تنظیم کے اہم کمانڈرسمیت نہ صرف درجنوں خوارج ہلاک کردیا بلکہ خود کش جیکٹس بنانے والی فیکٹری سمیت چار اہم تربیتی مراکز بھی تباہ کردیے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف محدوداور محتاط کاروائی کے دوران اردگردکی آبادی کومکمل طورپر محفوظ رکھنا پیشہ وارانہ مہارت کی ایک عمدہ مثال ہے یہ کاروائی اِس لیے بھی ضروری تھی کہ گزشتہ چند برسوں سے کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں تشویشناک حدتک اضافہ ہوگیا ہے دہشت گردی میں ملوث عناصر افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں اُن کے وہاں ایسے ٹھکانے ہیں جہاں دہشت گردی کی تربیت کے ساتھ اہداف کا تعین ہوتاہے پاکستان ایک سے زائد بار طالبان سے مطالبہ کر چکا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں مگر طالبان نے دہشت گردعناصر کے ٹھکانوں کی ہمیشہ تردید پراکتفاکیا دہشت گردوں کے خلاف شواہد پیش کرنے پر جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں جس پرمجبوراََ پاکستان کو راست اقدام کی طرف آنا پڑاجو ملکی سلامتی اور عوامی توقعات کے عین مطابق ہے۔
ملک کی ستتر سالہ تاریخ شاہدہے کہ پاکستان کسی ہمسایہ ملک کے خلاف کاروائی پر یقین نہیں رکھتااور تنازعات سے پاک دنیا کے لیے کوشاں ہے اقوام متحدہ کوجب اورجہاں ضرورت پڑی تو امن کی بحالی کے لیے پاک فوج نے خوشدلی سے تعاون کیا جس کایواین اوکی سیکورٹی کونسل جیسااِدارہ بھی اعتراف کرتا ہے پاکستان کاشمار اقوامِ متحدہ کے لیے خدمات سرانجام دینے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے مگر امن پسندی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ جب جس کا دل چاہے آزاد وخود مختار ملک کی سرحدیں پامال کرے اور دراندازی کرے دہشت گردوں کے طاقتور ہونے کا تاثر گہرا ہونے پر عوامی حلقے سخت اضطراب کا شکار تھے شہریوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ضروری تھا کہ اُن کی جان ومال محفوظ ہے یہ کاروائی ناگزیرہوگئی تھی علاوہ ازیں عملی کاروائی سے عیاں ہوگیا ہے کہ طالبان کو بہتر تعلقات کے لیے اپنے وعدے پورے کرناہوں گے وگرنہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے پاکستان ہر حد تک جا سکتا ہے۔
افغان وزارتِ دفاع نے چھیالیس سویلین مارے جانے کی بات کرتے ہوئے نہ صرف کاروائی کاجواب دینے کا عندیہ دیا ہے بلکہ افغان وزارتِ خارجہ نے کابل میں پاکستانی ناظم الامورکو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ بھی حوالے کیا ہے یہ رویہ سراسر ذمہ داریوں سے فرار ہے پاکستان تو مسلسل مطالبہ کر رہاتھا کہ افغان سرزمین سے ہونے والی دراندازی کو روکاجائے تاکہ امن دشمن عناصر اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوں مگر طالبان نے ایسے کسی احتجاج اور مطالبے کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا اب ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی جب چاہے سرحدیں پامال کرتے ہوئے شہریوں کو نشانہ بنائے اور پاکستان کے اِدارے خاموش رہیں ہر ملک اپنے شہریوں کاتحفظ کرتا ہے اگر طالبان کی اپنے ملک میں رٹ نہیں یا وہ امن دشمن عناصر کے خلاف عملی کاروائی سے قاصر ہیں تو اِس کے ذمہ دار وہ خود ہیں شواہدسے صاف ظاہر ہے کہ طالبان قطر معاہدے سے بھی منحرف ہو چکے ہیں وگرنہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو ٹھکانے بنانے کی اجازت نہ دیتے۔
بھارتی قیادت خطے میں بالادستی کی خواہشمند ہے وہ چین کے سوا کسی ہمسایہ ملک کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں عالمی سطح پر پاکستان کے دفاع کو کمزور ثابت کرنے کے لیے فضائی حدودکی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے مقام پر چند درختوں کو نقصان پہنچایا تو پاکستان نے جوابی کاروائی کے دوران بھارت کے حساس مقام کے قریب نہ صرف بمباری کی بلکہ مقابل آنے والے مگ 21 کو مارگرایا اور پائلٹ گرفتار کر لیا یہ ایسا دندان شکن جواب تھا جس نے بھارت کوبالادستی کے خواب سے جگا دیا اب بھارتی قیادت دل پشوری کے لیے پاکستان کو ہدفِ تنقید توبناتی ہے لیکن عملی کاروائی کی طرف نہیں آتی البتہ سکت نہ ہونے کا یہ حل تلاش کیا ہے کہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں جاری سرمایہ کاری کے زریعے عوام کی ذہن سازی کرنے میں کامیاب ہے اسی وجہ سے چارملین بے گھر افغان مہمانوں کوجائے پناہ دینے کے باوجود افغان عوام پاکستان بارے معاندانہ رویے رکھتے ہیں اور دشمن خوارج کے دوست ہیں۔
ہر ملک کی پہلی ترجیح اپنے شہریوں کا تحفظ ہوتاہے پاکستان امن پسند ضرورہے لیکن اپنے شہریوں کے دشمنوں کی آؤبھگت نہیں کر سکتا کئی برسوں سے بلوچستان میں سرگرم امن دشمن عناصر ایرانی حدوداستعمال کررہے تھے معلوم ہونے کے باوجود پاکستان نے درگزرکرتے ہوئے ایسی کاروائی سے اجتناب کیا جس سے دوست ملک سے برادرانہ تعلقات متاثر ہوں مگر جب ایران نے امن پسندی کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے فضائی کاروائی کرتے ہوئے معصوم جانوں کو نشانہ بنایا تو پاکستان نے جواب میں بلوچستان میں برسرِ پیکار شرپسندوں کے ٹھکانے تباہ کردیے بعدازتحقیقات خود ایران نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے صرف امن دشمن عناصر کے خلاف کاروئی کی ہے اور یہ کہ کسی عام شہری کو نشانہ نہیں بنایاگیا یہ پاکستان کے عسکری اِداروں کی پیشہ وارانہ مہارت کا اعتراف ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہ خطے کے امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اِس پر کئی ممالک فکرمند ہیں چین، روس، ایران، پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں میں شدت پسند گروہوں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے تبادلہ خیال جاری ہے ایسے حالات میں جب طالبان عالمی سطح پر اپنے اقتدار کو تسلیم کرانے کی کوشش میں ہیں انھیں چاہیے کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں حصہ دارنہ بنیں پاکستان بار بارکہہ چکاہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے لیکن طالبان وعدے کرتے ہیں لیکن کبھی عملی کاروائی کی طرف پیش رفت نہیں کی تنگ آکرپہلے بھی پاکستان نے ڈرون سے خوارج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایااور اب ویسع پیمانے پر کاروائی کی ضرورت محسوس ہوئی دراصل افغانستان میں فرقہ وارانہ، نسلی و لسانی تقسیم بہت زیادہ ہے ملک کا بڑاحصہ طالبان کے زیرِ اثرتو ہے لیکن کئی علاقے ایسے ہیں جہاں طالبان کی رَٹ نہیں شاید اسی لیے خوارج خود کو وہاں محفوظ خیال کرتے ہیں علاوہ ازیں غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لیے افغان طالبان کی کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے مددکی اِس بنا پر ایسے کسی خیال کو رَد نہیں کیا جا سکتا کہ ٹی ٹی پی کو ٹھکانے دے کر افغان طالبان احسان کا بدلہ چکا رہے ہوں پکتیکا میں خوارج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے پر افغان طالبان کا شدید ردِعمل اور بدلہ کا اعلان بھی دوستوں کو مطمئن کرنے کے لیے ہو سکتاہے وگرنہ جب شدت پسند گروہ نہ صرف افغانستان میں مذہبی و حساس مقامات کونشانہ بناتے ہوئے طالبان کے اہم ترین وزراکی جانیں لے رہے ہوں اِن حالات میں وہ سرحدوں سے باہر کسی نوعیت کی کاروئی کرنے کی جرات نہیں کر سکتے مختصراََ پاکستان کی خوارج کے خلاف کاروئی درست ہے پھربھی مذہبی، ثقافتی اورہمسائیگی کے رشتوں کا تقاضا ہے کہ افغان طالبان کوامن دشمن عناصر کے خلاف مشترکہ کاروائیوں پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ خطے کے امن و استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے مشترکہ اقدام سے طالبان کی پورے ملک پر رَٹ قائم کرنے میں بھی مددمل سکتی ہے۔