Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Fayaz Ul Hassan Chohan
  3. Welldone, Molana Fazal Ur Rehman

Welldone, Molana Fazal Ur Rehman

ویلڈن، مولانا فضل الرحمن

میں نے تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے ٹاک شوز، پریس کانفرنسز اور سوشل میڈیا میں ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کی ہے اور میرے ذاتی خیالات اور افکار مولانا صاحب کے حوالے سے کبھی مثبت نہیں رہے تھے۔ اِس کی وجہ شاید تحریکِ انصاف اور بانی تحریکِ انصاف کی مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے انتہاء پسندانہ اور منافرانہ سیاست بھی تھی۔ بانی تحریک انصاف ذاتی طور پر اور مختلف میٹنگز میں اجتماعی طور پر مولانا فضل الرحمن کے خلاف جہاں سخت کرخت اور غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرتے تھے اور پارٹی کی باقی قیادت کی بھی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ وہ میڈیا میں مولانا صاحب کے حوالے سے انتہاء پسندانہ موقف رکھیں۔

ایک بات تو طے شدہ ہے کہ آج کی اکیسوی صدی میں کوئی فرد بھی اخلاق، کردار، انسانی اقدار اور تقوی کے حوالے سے مکمل نہیں ہے۔ ہر فرد چاہے جو سیاست سے تعلق رکھتا ہو یاپھر مذہب سے متعلقہ ہو۔ ہر اِک کے اندر انسانی جبلت کی بنیاد پر کئی اخلاقی، معاشرتی اور معاشی کمیاں اور خامیاں ہوتی ہیں! مولانا فضل الرحمن بھی اِسی اکیسوی صدی اور پاکستانی معاشرے سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور مذہبی رہنماء ہیں اور اِن کے اندر بھی اِن کے مخالفین بیسیوں جھوٹی اور سچی خامیاں اور کوتاہیاں نکال سکتے ہیں اور حقیقت میں شاید ہو بھی سکتی ہیں۔ لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ اُن کا کوئی مخالف اُنہیں عالمِ دین، مفکر، مدبر اور سکالر مانے یا نہ مانے لیکن وہ مولانا صاحب کو ایک مکمل سیاست دان ضرور تسلیم کرے گا۔

تحریکِ انصاف کی انتہاء پسندانہ سیاست سے توبہ تائب ہونے، نفرت و عقیدت کی عینک اور آنکھوں پر بندھی پٹی اُتارنے کے بعد جب میں نے مولانا صاحب کی سیاست کو دیکھا اور پرکھا تو اِن کی زندگی کے کچھ پہلوؤں نے مجھے واقعتاً متاثر کیا! ایک کامیاب اور اچھے سیاستدان کے حوالے سے میری اپنی بنائی ہوئی تعریف اور فلاسفی ہے کہ:

"اچھا اور کامیاب سیاستدان وہ ہے جو اپنے ذاتی، عوامی، ملکی اورپارٹی کے مفاد کے لیے جُھکنا، بدترین مخالف کے ساتھ بیٹھنا، ڈائیلاگ کرنا اور گفتگو کرنا جانتا ہو"۔

جو سیاستدان اپنی ذات، عوام، ملک اور اپنی پارٹی کے مفاد کے لیے کمپرومائز کر سکتا ہے وہ کامیاب سیاستدان ہوتا ہے اور یہ خوبی اور وصف مولانا فضل الرحمن میں کما حقُ و ہو موجود ہے۔

آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب نے جس خوبصورتی کے ساتھ دو دہائیوں سے کے پی کے میں موجود اپنی روایتی مخالف جماعت تحریک انصاف کو ڈیل کیا وہ ایک اچھے اور زیرک سیاستدان کی نشانی ہے۔ آٹھ فروری کے بعد جب بانی تحریک انصاف نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر یوٹرن لیا اور مولاناصاحب کو اپنا "سیاسی مرشد" تسلیم کرکے اپنی ساری پارٹی کو "کنے کنے جانا اے بلو دے کار۔ لین بناو ٹکٹ کٹاو" کے عین مترادف مولانا صاحب کے آستانہ عالیہ کے باہر لائن حاضر کروایا تو مولانا صاحب نے اپنی سیاسی بانہیں کھول کر تحریکِ انصاف کی قیادت کو نہ صرف اپنے سینے سے لگایا بلکہ بار بار اپنی چو کھٹ پر حاضریاں لگوا کر تاحیات اور واہیات "کانا" بھی کر دیا۔

مولانا صاحب کی کامیاب سیاست کا عالم یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں حکومت اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کرتے رہے اور پھر حکومت کو پی ٹی آئی کا ڈراوا دکھا کر اپنی مرضی کی سیاسی ڈیل بھی کر لی کہ جو اُن کا سیاسی حق تھا! آٹھ مہینے تحریکِ انصاف کو اپنے آستانے پر جبیں جھکوانے اور چوکھٹ پر حاضریاں لگوانے کے بعد چند دن پہلے اسمبلی کے فلور آف دی ہاؤس اپنی تقریر کے ذریعے اعلان کر دیا کہ اب اسمبلی اور حکومت یہی چلے گی چاہے یہ فارم پینتالیس کی ہے یا فارم سینتالیس کی۔ اِسے کہتے ہیں کامیاب سیاسی چال، ساری زندگی کے لیے بانی تحریک انصاف اور تحریکِ انصاف کو "کانا" بھی کردیا اور اپنا اور اپنی پارٹی کا بہترین سیاسی مفاد بھی حاصل کر لیا!

دو کارنامے مولانا فضل الرحمن نے اور سرانجام دیے ہیں:

ایک چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرف سے قادیانیوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر مولانا فضل الرحمن کی طرف سے جرأت مندانہ اور آبرومندانہ عمل اور بیانیہ! مولانا فضل الرحمن نے سپریم کورٹ میں جس طرح مجاہدِ ختم نبوت اور محافظِ ختم نبوت کا کردار ادا کیا وہ اسلام اور پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

دوسرا کارنامہ سات ستمبر کو مینارِ پاکستان کے سائے تلے تقریر کرتے ہو ئے واشگاف الفاظ میں عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا میں انتہائی باریک واردات کے تحت چلنے والی پی ٹی ایم اور بلوچ یکجہتی کونسل کے تحت پاکستان میں علیحدگی کی تحریکوں اور شورشوں کو یکسر مسترد کردیا! مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بلوچستان اور کے پی کے کی سب سے اہم سیاسی سٹیک ہولڈر ہے اور اِنہی دو صوبوں میں"عالمی دواخانہ" کے تحت محرومی کی "پھکی" بیچ کر علیحدگی کی تحریکوں کو تروتازہ اور توانا کیا جارہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے سات ستمبر کی شہرہ آفاق تقریر میں لاکھوں فرزندانِ اسلام اور محافظِ ختمِ نبوت کے سامنے اعلان کیا کہ محرومیوں کی بات کرنا جائز ہے اور ضرور کریں لیکن پاکستان کو نقصان پہنچانے اور توڑنے کی بات کرنے والوں کا منہ توڑ دیا جائے گا۔ کیونکہ میرے جیسے گنہگار اورخطا کار انسان کی اپنی ریڈ لائن صرف اور صرف ناموسِ رسالتﷺ، ختم نبوت اور پاکستان ہے۔ اِس لیے مولانا فضل الرحمن کی پچھلے آٹھ ماہ کی سیاست نے مجھے بے ساختہ مجبور کردیا ہے کہ میں یہ کہوں کہ ویلڈن مولانا فضل الرحمن۔

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza