پاکستان سازشوں کے دوراہے پر
پاکستان اپنے جغرافیائی اہمیت اور ایٹمی ومیزائل پروگرام کی وجہ سے آج اپنوں و غیروں اورعام و خاص کی غیر ذمہ دارانہ رویوں، اعمال، پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے عالمی طاقتوں اور ملک دشمن ممالک کی سازشوں کی آماجگاہ بن چُکا ہے۔ اِن تمام سازشوں کے روحِ رواں اور سُرخیل کوئی اور نہیں ہم خود پاکستانی ہیں۔ ہماری سیاست اور حکومت کے میدان کی قیادت، ہماری فوج اور اداروں کی سیادت، ہماری افسر شاہی کے کرتا دھرتا، ہماری عدالتوں کے ججز اور ہمارے ہر شعبہ زندگی کے اربابِ بست و کشاد گی اکثریت کا ایمان اپنی پیٹ پوجا سے شروع ہوکر اپنی آل اولاد اور اُن کے مستقبل کی پوجا پرستش پر ختم ہوجاتا ہے۔
اب میرے اِس استدلال پر کوئی تنقید کرے اور کہے کہ انسان کو اپنی اور اپنی اولاد کی فکر کیوں نہیں کرنی چاہیے؟ یہ ہر انسان کا انسانی اخلاقی شرعی دنیاوی اور دینی حق اور فریضہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی آل اولاد کے رہن سہن، کھانے پینے، مالی و معاشرتی معاملات اور عزت و وقار کی طرف توجہ دے۔ بالکل ٹھیک ہے۔ اِس بات اور دعوے سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جنابِ والا، جب انسان عام سے خاص کا درجہ حاصل کر لے اور عوام کی صفوں سے نکل کر قیادت کی فہرست میں شمار ہونے لگے تو اُس کی سوچ اور اپروچ کا مرکز و محور صرف اپنی ذات اور اپنی آل اولاد نہیں ہوتی۔ کسی بھی شعبہ ادارے اور گروہ کی قیادت کا ذمہ دار صرف اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے اور اپنی آل اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کا ہی نہیں سوچتا بلکہ وہ اپنے زیرِ تابع انسانوں، اپنے زیر قیادت افراد، اپنے زیرِ سہن مخلوقِ خدا اور اپنے حُکم کے تابع محکوم لوگوں کی فلاح و بہبود کی طرف پہلے نظرِ کرم کرتا ہے اور پھر بعد میں اپنی ذات اور آل اولاد کی خواہشات و ضروریات کے حصار کا شکار ہوتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت کم حکمران وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراء، بیورو کریٹ، سیاسی عدالتی انتظامی اداروں کے سربراہ اور لیڈنگ پوزیشن پر بیٹھے ہوئے اربابِ بست و کشاد کو دیکھا ہے کہ جنہوں نے پورے شوق اور جذبے سے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ملک، صوبے، وزارت، ادارت اوراپنے زیرِ سیادت شعبے کی اجتماعی اور انفرادی خدمت کی ہو۔ جنہوں نے دن رات ایک کرکے پاکستان اور اپنے صوبے کی عوام، اپنی وزارت اورادارت سے متعلقہ عام عوام اور غریب الناس کی زندگیوں میں بہتر رہن سہن، معاشی آسودگی اور معاشرتی کشادہ حالی کی شمعیں روشن کی ہوں۔ جنہوں نے پورے انہماک اور تزک و احتشام سے اپنے زیرِ نگیں پاکستانی عوام کو اپنی عوام دوست پالیسیوں کے ذریعے سُکھ و چین، اُلفت و راحت اور فرحت و چاہت سے ہمکنار کیا ہو۔
پاکستان کے پاس نہ تو زرعی وسائل کی کمی ہے۔ نہ ہی معدنیات کا فقدان ہے۔ نہ ہی صنعتی خام مال کی کمیابی ہے۔ نہ ہی دریا اور سمندر کی عدم موجودگی ہے۔ نہ ہی موسموں کی بے ترتیبی ہے۔۔ نہ ہی جینئس دماغوں کا قحط ہے۔ نہ ہی کام پیشہ مزدوروں کی عدم دستیابی ہے۔ ٹاپ کلاس کے ڈاکٹرز اورنیوکلیئر الیکٹریکل سول ایگریکلچرل کمپیوٹر اور ہر صنعتی اور زرعی شعبے کے انجینئرز پاکستان میں موجود ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے، پاکستان ایک نیوکلیئر پاور اور معاشی وسائل کی آماجگاہ ہونے کے باوجود اپنے چوبیس کروڑ عوام کو سُکھ سے روٹی کھلانے کے قابل نہیں ہے۔ اُ س کی واحد وجہ پاکستان کے ہر شعبے اور ادارے میں موجود لیڈر شپ کی وہ اکثریت ہے جو اپنی ذات اور اوقات سے آگے نہ سوچنے کی اور نہ ہی عمل کرنے کی سکت اور صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے اربابِ بست وکشاد کی اِس خامی کو عالمی طاقتیں اور اُن کے کنٹرول میں چلنے والے عالمی مالیاتی، سیاسی اور انتظامی ادارے بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔
عالمی طاقتیں اور ادارے پاکستان کے اربابِ بست وکشاد کو اپنے مخصوص مفادات کے استعمال کے لیے اُنہیں آل اولادوں کے گرین کارڈز، امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک کی شہریت، پاکستان میں بہترین سیاسی اور اداراتی کیرئیر، بیرون ملک معاشی وسائل کی فراہمی اور اِس طرح کی دیگر معاشی مالی سیا سی اور انتظامی ترغیبات کے ذریعے اپنے پے رول اور ایجنڈے پر لے کر آتے ہیں۔ پھر اُن سے وہی فیصلے کروائے جاتے ہیں جن کا نقصان پاکستان کی ریاست اور عوام کو ہوتاہے۔
پاکستان میں سیاسی و غذائی بحرانوں سے لے کر انتظامی و اقتصادی بحرانوں تک، تمام کے تمام اُنہی بیوروکریٹوں سیاستدانوں اور عدالتی سیاسی اور اداراتی حکمرانوں کے سر صدقے ملیں گے جن کے دل اور دماغ عالمی طاقتوں اور اداروں کے کنٹرول میں ہوں گے۔ جن کے۔ "دل کے تار" بیرونِ ملک سے بجائے جاتے ہونگے۔ جو اپنے خاندان اور آل اولاد کے لیے گرین کارڈز، امریکی برطانوی اور یورپئین شہریت، معاشی مفادات اور اپنی ذات کے حصار میں بُری طرح جکڑے ہوئے ہوں گے۔
خدا کی قسم، اگر پاکستان کو بیس سال لگاتار ہر شعبہ زندگی ادارے اور کونے کھدرے میں ایسے حکمران مل جائیں کہ جو اپنے ذاتی گھٹیا غلیظ اور منفی مفادات کی تکمیل کے لیے بیرونی طاقتوں اور اداروں کی گود میں بیٹھنے کے بجائے "سب سے پہلے پاکستان" کاجھنڈا اُٹھا کر اپنی صلاحیتوں کو پاکستان اور پاکستان کی عوام کی فلاح و بہبود اور تعمیروترقی کی طرف لگا دیں تو پاکستان محض چار پانچ ارب ڈالرز کے قرضے کے لیے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر " جنی تیری مرضی نچا سوہنیا" کی تھاپ پر کتھک ڈانس نہ کر رہا ہوتا اورنہ ہی پاکستان کے حکمران عالمی مالیاتی اداروں کے عاشق بن کر اپنی معشوقہ کی عوام کُش پالیسیوں اور نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار کی صورت میں کی گئی ناجائز فرمائشیں عوام کی کلیجی پوٹا بیچ کر پورا کررہے ہوتے۔