Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home
  2. Fayaz Ul Hassan Chohan
  3. Judges Ki Izzat O Takreem

Judges Ki Izzat O Takreem

ججز کی عزت و تکریم

ایک زمانہ تھا کسی شخص (چاہے خاص ہو یا عام) کی جرأت نہیں تھی کہ وہ پبلک اور میڈیا میں جونئیر اور اعلیٰ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے کسی جج کی حق اور سچ پر مبنی کسی گناہ اور جرم پر مبنی کرتوت کو بے نقاب یا بیان کرسکے اور کسی عدلیہ کے جج کے پوری دُنیا کے آنکھوں دیکھے گناہ پر اپنی لب کشائی کر سکے۔۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کی سیاست صحافت اور معاشرت میں ایسا غدر مچا ہے کہ ہر شخص، صحافی، وی لاگر، تجزیہ نگار اور سیاستدان اپنی چرب زبانی کے ذریعے اعلیٰ اور ادنی عدلیہ کے ججز کا نام لے لے کر اُن کی عزت وقار احترام کاجنازہ صبح دوپہر شام پورے شوق ولولے اور تزک واحتشام سے نکالتا ہوا نظر آتا ہے۔۔ آخر کیوں۔۔!

عدلیہ کے ججز کے خلاف باقاعدہ نام لے کراُس کی ذاتی زندگی کے جھوٹے قصے بنا کر اور اُس کے خاندان کی ماں بہن بیٹی کے خلاف باقاعدہ کمپین اور نفرت کا بھر پور آغاز سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف نے 2019 سے شروع کیا۔۔ جب شریف فیملی کے ممبران کو ماتحت عدلیہ اور لاہور ہائی کورٹ سے کچھ ریلیف ملتا تھا تو تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم اُس جج کا حسب نسب اور نسل کا ایسا آپریش کرتے تھے کہ اللہ کی پناہ۔۔! لیکن "حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر" کے عین مترادف کسی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج کو توفیق نہیں ہوئی کہ عدلیہ کے خلاف اِس اجتماعی اور منظم "گِلی ڈنڈے" کے کھیل کو توہین عدالت کے قانون کے ذریعے روکا جائے۔۔!

وجہ بڑی صاف اور سادہ تھی کہ خود عدلیہ کے ججز کی کثیر تعداد تحریک انصاف کے سہولت کاروں کے ذریعے"سہولت زدہ"تھے۔ پھر اپریل 2022 سے لے کر آج 15جون 2024 تک تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے سربراہان سے لے کر عام ممبران کی ایسی ایسی"عزت افزائی"کہ کہ ججز حضرات اپنے آل اولاد کے سامنے نظر اُٹھانے کے قابل نہیں ہوتے تھے۔۔!

لیکن دلچسپ لطیفہ یہ ہے کہ مجال ہے کہ کسی چیف جسٹس اورکسی جسٹس کی حسِ جسٹس پھڑکی ہو اور اُن کی اور اُن کے ساتھی جج اور اُن کی ماں بہن بیٹیوں اور خاندانوں کی عزتوں کا فالودہ اور جنازہ نکالنے والے آوارہ اور خارش زدہ سیاسی و سوشل میڈیا کے کتوں ں کو قانون کی ویکسین لگا کر معاشرے کے لیے مضر صحت ہونے سے بچایا جائے۔۔ بلکہ یہاں تواعلیٰ اور ماتحت عدلیہ"اعلیٰ ظرفی"کا ثبوت دیتے ہوئے"نک دا کوکا"پر لنگڑا لنگڑا کر لاقانونیت کا ناچ ناچنے والے آوارہ اور خارش زدہ کتوں اور اُن کے"مائی باپ"کو"گُڈ ٹو سی یو"کے گُلدستے اور ضمانتوں کے گُچھوں اور پھولوں کے بنے"بوکے"پیش کرتی رہیں۔۔!

اب حالات یہ ہیں کہ۔۔ جو شخض صبح اُٹھ کے اِس لیے منہ ہاتھ نہیں دھوتا اور نہاتا۔۔ کہ کیا فائدہ کہ شکل پر لاعلمی جہالت اور بے ادبی کی میل تو اُترے گی نہیں۔۔ وہ شخص بھی صبح اُٹھ کر سب سے پہلے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور فاضل ججز کا نام لے لے کے اُن کی"شانِ اقدس" اور عدالتی و ذاتی "شب و روز" پر اپنی ماہرانہ اور طائرانہ رائے دینا فرض اولین اور مقصد حیات سمجھتا ہے۔۔!

یہ حالات کیوں پیدا ہوئے اور اِس کا ذمہ دار کون ہے۔۔!

عدلیہ کے ججز کے حوالے سے اِس ساری طوائف الملوکی اور ماراماری کی ذمہ دار خود عدلیہ کے فاضل جج ہیں۔۔ جب رول آف لاء پرحقیقی معنوں پر عملدرآمد نہیں ہوگا اور عدالتوں کے فیصلوں میں آئین اور قانون کی عملداری سے زیادہ سیاسی مفادات اور سہولت کاری کا جذبہ اور عنصر کارفرما نظر آئے گا۔۔ جب قانون کا ڈنڈا قانون توڑنے والوں پر بے لاگ اور بے باک نہیں برسے گا۔۔ جب ریاست اور عدالت کی عزت اور وجود پر جتھوں اور لشکروں کے ساتھ حملہ کرنے والوں کو ضمانتوں اور چاہتوں کے ہار پورے جذبوں اور حوصلوں سے پہنائیں جائیں گے۔۔

جب ریاست کے وفادار بننے کے بجائے پرانی اسٹیبلشمنٹ کے پرانے ریٹائرڈ"باس"کے احسانات کا قرض اُتارنے کی طرف توجہ اور شوق رہے گا۔۔ تو جناب والا۔۔ پاکستان میں نہ کسی کو توہین عدالت کا ڈر رہے گا اور نہ ہی ججز کی خوف نما تکریم رہے گی اور پھرہر کُتا بلا اُٹھے گا اور پاکستان کی اعلیٰ اور ماتحت عدالت کے ججز کا نام لے لے کر اُن کے جائز اور ناجائز۔۔ اُن کے کردہ اور ناکردہ گناہوں اور کرتوتوں پر اپنی چرب زبانی کا نمک چھڑک کر وی لاگ بنا کر ڈالرز کی برسات میں نہاتا رہے گا۔

اور اگر۔۔ امریکہ فرانس اور برطانیہ میں پچھلے پانچ سالوں میں ہونے والے پاکستان کی طرز کے "نو مئی کے واقعات" پر وہاں کی عدلیہ کے بے باک بے لاگ اوراندھے اقدامات اور فیصلوں کی طرح۔۔ پاکستان کی عدلیہ اور ججز پچھلے کئی سالوں سے سیاست اور میڈیا میں آنکھوں دیکھی قانو ن شکنی کرنے والے اکیسوی صدی کے نوسرباز منافق لالچی اور نرگسیت کا شکار سیاستدانوں اور صحافیوں کو قانون کے تازیانوں سے فیض یاب کرکے نشانِ عبرت بناتی تو آج پاکستان میں عدالتوں کی حدود کے اندر ڈالرز کمانے کی خاطر چیف جسٹس اور ججز پر بھونکنے والے آوارہ کتے عدالتوں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں کے بجائے میونسل کارپوریشن کے چھکڑے نما ٹرکوں میں پڑے نظر آتے۔۔!

اللہ پاک پاکستان کی عدلیہ فوج اور ریاست کی عزت وقار اور بقا و سلامتی کو اندرونی اور بیرونی"سہولت کاروں"سے محفوظ رکھے(آمین)

Check Also

Mukhtalif Mizajon Ke Sath Nabi Kareem Ka Inferadi Tarz e Amal

By Muhammad Saqib