جنرل فیض حمید سے "نک دا کوکا" تک
بارہ اگست بروز پیر سہ پہر چار بجے اچانک پاکستان کے تمام چینلز پر ایسی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوئی کہ جس نے جہاں قانون کی حکمرانی کے دلدادہ اور شخصی محبت سے پاک ہو کر ریاستِ پاکستان سے سچی اور سُچی محبت کرنے والے پاکستانیوں کے چہروں پر خوشی متانت اور اطمینانیت کی شمع روشن کر دی وہیں پر اِس بریکنگ نیوز کو سُن کر پاکستان کی فوج، عدالت، سیاست، صحافت، بیوروکریسی اور ہر شعبے میں"نک دا کوکا" پر ڈانس سے "فیض یاب" ہونے والے شہسواروں اور گھڑ سواروں کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ بانی تحریک انصاف اور اُن کی مسز بشری بی بی کے چیف پیٹرن اور سرپرستِ اعلیٰ جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور اُن کے کورٹ مارشل شروع ہونے کی خبر "نک دا کوکا" پر لازوال وبے مثال اور شاندار و جاندار ناچ کود کرنے اور پاکستان کی عدالتوں اور صحافتوں کو اپنے گھر کی لونڈی تصور کرنے والوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے مترادف تھی۔
اپریل 2022ء میں ایک قانونی اور آئینی طریقے سے ختم ہونے والی وزارتِ عظمیٰ کا دکھ درد تکلیف غصہ عناد اور بغض کا ٹوکرہ اپنے سر پر سجا کر جب بانی تحریک انصاف پاکستان کے ضلع ضلع اور نگر نگر نکلے تھے تو اُ نہیں یہ یقین کامل اور ایمانِ مصمم تھا کہ بیرونی صیہونی طاقتوں اداروں اور بیرونِ ملک بیٹھے میرے سوشل میڈیا کے وارثین کے علاوہ پاکستان کے اندر ریاست کے ہر ادارے اور عدالتوں میں میرے سرپرستِ اعلیٰ جنرل فیض حمید کے سر صدقے وہ تمام مہرے اور کٹھ پتلیاں موجود ہیں کہ جو مجھے ہر حال میں قانون کی عملداری کی پہنچ سے دور رکھیں گی۔ یہی وہ اعتماد تھا کہ بانی تحریک انصاف نے پاکستان کی فوج کے سربراہان، خفیہ اداروں کے افسران اور عدالتوں کے ججز سے لے کر اپنے مخالفین کی قانونی عزت، آئینی وقار، سرکاری احترام اور معاشرتی دید لحاظ کا جنازہ دن دیہاڑے اور صبح شام پورے جوش و خروش اور عزم و استقلال کے ساتھ نکالنا اپنا فرضِ اولین بنا لیا تھا۔
بانی تحریک انصاف مجسٹریٹوں اور ججوں کو اپنی ٹھوڈی اور منہ پر ہاتھ پھیر کر بدلہ لینے کی اور دشمنی نبھانے کی دھمکیاں دیتے تھے! لاہور ہائی کورٹ کے محض کیس میں بلانے پر پانچ دس ہزار بندہ لے کر حملہ آور ہو جاتے تھے! اسلام آباد جو ڈیشل کمپلیکس پر محض حاضری لگوانے پر بلانے کے موقع پر پانچ ہزار بندوں کے ساتھ حملہ آور ہو کر جوڈیشل کمپلیکس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے تھے! اپریل 2022ء سے لے کر دسمبر 2022ء تک قسم ہے کہ عدالتوں کے بلانے پر بانی تحریک انصاف میرٹ پر کیس شروع کرنے کے لیے کوئی حاضری دیتے! پولیس زمان پارک قانونی پراسس مکمل کرانے کے لیے آتی تو پٹرول بموں سے اُن کا استقبال کیا جاتا! ڈی آئی جی شہزاد بخاری کو سرِ عام اپنے غنڈوں کے ہاتھوں زخمی کرا دیا جاتا تھا!
اکیسوی صدی کے تہذیب یافتہ دور میں اپنے آپ کو ریڈ لائن قرار دلوا کر اور چند ہزار خواتین و مرد کارکنان کو اپنے گھر کے باہر اپنی ڈھال بنا کر پوری ریاستی مشینری عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج دینا کہ میرے اُوپر بننے والے جائز و ناجائز کسی بھی کیس میں مجھے ہاتھ لگا کر دیکھو! پھر نو مئی کے تین سو کے قریب ریاستی اداروں، افواج پاکستان کی تنصیبات، شہدائے پاکستان اور سول تنصیبات پر دہشت گردی کے حملوں کے باوجود ریاست عوام میڈیا اور عدالتوں میں ہیرو کی طرح زندگی بسر کرنے کی بہت سے وجوہات کے علاوہ۔
ایک بڑی وجہ سیاست، میڈیا ہاؤسز، ٹی وی اینکرز، صحافیوں، وی لاگرز، یو ٹیوبرز، فوج، عدالتوں اور بیوروکریسی میں موجود جنرل فیض حمید کا منظم نیٹ ورک تھا کہ جو سارا دن بانی تحریک انصاف اور اُس کی پارٹی کے ہر غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو حقیقی آزادی کے لبادے میں انقلابی مستحسن جمہوری اور عوام دوست قرار دیتے تھے اور اگر ریاستی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بانی تحریکِ انصاف اور اُس کی تحریک فساد فی الارض کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے تھے تو اِسی جنرل فیض حمید کی اسٹیبلشمنٹ کے دور میں لاکھوں اور کروڑوں روپے کے جائز اور ناجائز فائدہ لینے والے میڈیا ہاؤسز، اینکر، تجزیہ نگار اور سوشل میڈیا کے وی لاگرز اور یوٹیوبرز جنرل فیض حمید نیٹ ورک کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے میدانِ عمل میں نکل آتے تھے۔
عادل راجہ، حیدر مہدی، صابر شاکر، معید پیرزادہ، وجاہت ایس اے خان سمیت پاکستان کے اندر اور باہر ہاف بوائلڈ انقلابی صحافیوں، اینکروں، تجزیہ نگاروں اور یوٹیو بروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو جنرل فیض حمیدکے سر صدقے اسٹیبلشمنٹ کے نمک خوار تھے۔ لیکن بیچاروں سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی۔ یہ سب بھول گئے کہ وفا شخصیت سے نہیں ادارے سے کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخصیت حد سے زیادہ نرگسیت اور منفیت کا شکار ہو کر اپنے ہی ادارے اور ریاست کی عزت کے درپے ہو جائے تو پھر ہر حال میں ادارے اور ریاست کے ساتھ کھڑا ہو نا چاہیے۔
پاکستان کی صحافت اور سیاست کے چی گویروں اور نیلسن منڈیلوں کی مجبوری تھی کہ ایک طرف عالمی سامراج کی سازش اور پلاننگ سے سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑوں ڈالر کی برسات میں نہانے کا موقع مل رہا تھا اور دوسری طرف اپنے محسن اور سابقہ باس کے احسانات کا بدلہ اُتارنے کے مواقع مل رہے تھے اور تیسری طرف سب سے بھیانک حقیقت یہ تھی کہ اِن تمام سیاست اور صحافت کے جعلی سقراطوں اور امام خمینیوں کی جنرل فیض حمید نیٹ ورک کے ذریعے حاصل کیے گئے ایک ایک سیا سی صحافتی مالی اور موج میلوں کے ثبوت اور فائلیں جنرل فیض کے پاس محفوظ تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈھائی سال سے پاکستان کے میڈیا پر ہر روز چھ بجے سے بارہ بجے تک اینکرز اور تجزیہ نگاروں کا ایک مخصوص ٹولہ پی ٹی آئی کے ایک رہنماء کے طور چیخ چیخ کر اپنی ذمہ داریاں اور سلسلہ فیضیہ سے اپنے تعلق کو نبھا تا ہوا نظر آتا تھا۔ لیکن جنرل عاصم منیر نے نک دا کوکا پر ناچنے والے سیاست صحافت اور عدالت کے طرم خانوں کو بارہ اگست کو "سب سے پہلے پاکستان" کا عملی ثبوت دے کرچودہ اگست منانے کا طریقہ اور سلیقہ بتا دیا ہے۔