عمل اور ردعمل کا کھیل
دنیا میں ہر انسانی معاشرہ ہمیشہ علت و معلول کے قانون کے تحت حال سے مستقبل کا سفر طے کرتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وقوع پذیر عمل حرکت اور واقعہ کسی نہ کسی عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ ہر معلول کی کوئی نہ کوئی علت اور وجہ ہوتی ہے۔ ہر ایفیکٹ کا کوئی نہ کوئی کاذ۔۔ اور۔۔ ہر کاذ کا کوئی نہ کوئی ایفیکٹ ہوتا ہے۔ یا پھر ہر عمل کا کوئی نہ کوئی ردعمل اور ہر رد عمل کا مزید کوئی نہ کوئی رد عمل ضرور ہوتا ہے۔ یوں انسانی معاشرہ مثبت یا منفی انداز سے اپنے ارتقائی مرحلے پورا کرتے ہوئے حال سے مستقبل کا سفر طے کرتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیا سی معاشی معاشرتی اور عدالتی تمام تر صورتِ حال اِسی قانونِ علت و معلول کے تحت اپنے ماضی کی پگڈنڈیوں سے گزر کر حال کی راہداریوں کو چھوتے ہوئے اپنے مستقبل کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اب اگر ہم ماضی بعید کے بجائے صرف ماضی قریب سے لے کر آج تک پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین پرقانونِ علت و معلول کے تحت چلنے والے ڈرامے کا آزادانہ، غیر متصبانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو صورتِ حال کُچھ یوں نکھر کر سامنے آتی ہے۔۔:
امریکہ اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کے لیے اکیسوی صدی کے آغاز سے ہی وار آن ٹیرر کا ڈھکوسلہ لے کر پوری اُمت مسلمہ کے ملکوں کو تاراج کرنے کے مشن پر گامزن ہوگیا تھا۔ اُس نے سب سے پہلے بد مست ہاتھی کی طرح افغانستان پر حملہ کیا اور پلان یہ تھا کہ "اُسامہ بن لادن بہانہ افغانستان ٹھکانہ اور اسلامی ایٹمی ملک پاکستان نشانہ"۔ امریکہ کا پلان یہ تھا کہ افغانستان میں بیٹھ کر ہم دہشت گردی کی آڑ میں اِس خطے اور خصوصاً پاکستان کو معاشی اور جغرافیائی طور پر اتنا کمزور کر دیں گے کہ وہ اپنے پاؤں پر دھڑم کرکے خود ہی گر جائے گا اور پھر ہم تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر جہاں اپنی ٹرم اور شرائط پر پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام رول بیک کرا لیں گے۔۔ تو دوسری طرف۔۔ پاکستان کو جغرافیائی طور پر اِس خطے میں ایک کمزور ناتوا اور انڈیا کے رحم و کرم پر فائز ایک طفیلی ملک اور ریاست کے طور پر لاکھڑا کریں گے۔
اپنے اِس پلان کے تحت امریکہ اور نیٹو ممالک اپنا اپنا لاؤ لشکر لے کر جنوبی ایشیا میں وارد ہوگئے۔ افغانستان میں پچھلی صدی کی اسی اور نوے کی دھائیوں میں جو جہادی پوری دنیا سے اکٹھے کرکے القائدہ کے پلیٹ فارم پر جمع کیے تھے۔۔ اب اُنہیں۔۔ فسادی کا لقب دے کر اُن کا قلع قمع کرنا شروع کردیا۔
پاکستان کے خلاف سازش یہ تھی کہ پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ یورپی ممالک کی نیٹو فورسزکے ساتھ مل کر مجبور کرتا تھا کہ "ڈو مور" کی لسی پی کر مست ملنگ حالت میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچیں۔ پاکستان کی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی بقا کی خاطرسانحہ نائن الیون سے نمودار ہونے والے بد مست ہاتھی کے راستے کی رکاوٹ بننے کے بجائے بظاہراً س کا دوست بن کر اپنے ملک کی عزت جغرافیہ، عوام کی جان و مال اور ریاست کو بچانے کے لیے چالاکی دکھائی اور امریکہ اور نیٹو فورسز کو مکمل افغانستان کی دلدل میں دھکیل دیا۔
اِس کے علاوہ جذبہ حب الوطنی سے مجبور ہو کر جب پاکستان کی ریاست، حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے مسلسل چالاکیاں دکھانا شروع کی۔۔ تو پھر۔۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے خود کش حملے، ڈرون اٹیک، داعش، تحریک طالبان اور اِس طرح کی دوسری عیاریاں اور مکاریاں دکھانا شروع کردی۔ ایک طرف معصوم پشتونوں پرڈرون اٹیک کرتے تھے اور دوسری طرف ڈالرز کا دوپٹہ اوڑھے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ کے پی کے اور فاٹا میں طالبان کے ذریعے ڈرون اٹیک کی تباہ کاریوں کو کیش کروا کر پاک فوج اور ریاست پاکستان کے خلاف نفرت کی فصل بوتے تھے۔ اِسی نفرت کی فصل سے خود کش حملوں کی صورت میں زہریلا اناج ریاست پاکستان کے عوام اور خواص میں تقسیم ہوتا تھا۔
حاصل وصول یہ کہ علت و معلول اور عمل و ردِ عمل کے قانون تحت امریکہ اور پاک فوج۔۔ یاپھر۔۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اپنے اپنے ملکی و عالمی مفادات کے حصول کے لیے "لو اینڈ ہیٹ" کا کھیل رواں دواں رہا۔ آخر کار دو ہزار اکیس کی پندرہ اگست کو امریکی و نیٹو فورسز کو اِس خطے سے نکلنا یا بھاگنا پڑ گیا۔ امریکہ نے اِس خطے میں نائن الیون کی آڑ میں بہت سے مقاصد حاصل کیے۔۔ لیکن۔۔ پاک فوج اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی جذبہ حب الوطنی سے بھر پور "چالاکیوں" کی وجہ سے نائن الیون کے بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام و نامراد رہا اور وہ بنیادی مقصد پاکستان کوسیاسی معاشی اور مالی طور پر انتہائی کمزور کرکے پاکستان کے ایٹمی و میزائل پروگرام کو خرید کر پاکستان کے جغرافیے سے کھلواڑ کرنا تھا۔
پندرہ اگست دو ہزار اکیس کا زخم خوردہ امریکہ اب علت و معلول کی تھیوری کے تحت پاکستان کی ریاست اور خصوصاً پاک فوج کے ساتھ "باریک وارداتوں" کے ساتھ دل لگی کررہا ہے۔ سائفر کے نام سے "ساس بھی کبھی بہو تھی" والا ڈرامہ پاکستان کی سیاست کی پردہ سکرین پر جاری و ساری ہے اور اُس کی اقساط ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اِس ڈرامے میں تحریک عدم اعتماد سے لے کر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے تک کی ہر قسط میں عالمی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کی اپنی "دلچسپی" اور "توجہ" شامل حال ہے۔
امریکہ اپنے زخموں پر بیس سال تک ہونے والی نمک پاشی کا بدلہ پاک فوج اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے "باریک وارداتوں" کے ذریعے لے رہا ہے۔ اپنے مہروں کو آگے رکھ کر اِس خطے میں سی پیک، چین اور روس کے کردار اور اپنے مخصوص مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور پاکستان کے ہر ادارے شعبے اور کونے کُھدرے میں موجود اپنے "پیاروں" کو ڈالرز کے نیوندرے ڈال کر ریاستِ پاکستان کو "نک دا کوکا" کی تھاپ پر اپنی مرضی اور منشاء سے نچا رہا ہے۔ ہر عمل کے ردعمل والے قانون کے تحت امریکہ اپنی بیس سال کی خفت اور زخم خوردگی کا اور وار آن ٹیرر میں اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکامی کا بدلہ مزے لے لے کر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پاک فوج سے لے رہا ہے۔