معیشت کی جنگ میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی فتوحات

پاکستان کی معیشت اس وقت ایک سنگین دور سے گزر رہی ہے، جہاں داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں جب ملک کی معیشت بحران کی دہلیز پر کھڑی تھی، تو اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک سپہ سالار کی حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے نہ صرف دفاعی میدان میں بلکہ معیشت کے میدان میں بھی اپنی حکمت عملی سے جیت حاصل کی۔ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے قومی معیشت کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ معیشت کی جنگ میں اُن کی کامیاب حکمت عملی نے یہ ثابت کر دیا کہ ملک کی ترقی اور استحکام صرف فوجی میدان تک محدود نہیں رہ سکتے بلکہ معاشی محاذ پر بھی کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنرل عاصم منیر نے داخلی اور بیرونی اقتصادی چیلنجز کو ایک جامع حکمت عملی کے تحت حل کرنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے نجی شعبے اور حکومت کے ساتھ مل کر کئی اقدامات کیے، جن میں مالیاتی استحکام، غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور معیشت کے مختلف شعبوں میں اصلاحات شامل تھیں۔
جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے نہ صرف سیکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ کیا بلکہ اقتصادی محاذ پر بھی حکومتی پالیسیوں کی معاونت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سیاسی استحکام اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے انہیں ملکی اداروں کو مضبوط کرنے کی اہمیت کا بھی ادراک تھا اور اُنہوں نے فوجی اداروں کی مدد سے کئی فلاحی منصوبوں کا آغاز کیا تاکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری آئے۔
جنرل عاصم منیر کی حکمت عملی میں ایک اہم پہلو اس بات پر مرکوز تھا کہ ملک کے قدرتی وسائل کا مؤثر استعمال کیا جائے اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں تاکہ پاکستان توانائی کی کمی اور معیشت کے دیگر بحرانوں سے نمٹ سکے۔ انہوں نے فوج کے تحت اقتصادی منصوبوں کی نگرانی کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ان منصوبوں کا مقصد ملک کے عوام کی فلاح ہو۔
پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے ملکی معاشی استحکام کو اپنے اولین ترجیح میں رکھا۔ ان کی قیادت میں معیشت کی جنگ میں کامیابی کا یہ پیغام دیا گیا کہ ملکی معیشت صرف حکومت یا کسی ایک ادارے کا کام نہیں بلکہ تمام اداروں اور افراد کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں معیشت کی جنگ میں جیت کا مفہوم صرف اقتصادی بحران کو عبور کرنا نہیں بلکہ ملک کے عوام کے لیے خوشحالی اور استحکام کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اُن کی حکمت عملی نے یہ ثابت کیا کہ معیشت کی جنگ میں کامیابی کے لیے صرف فوجی قوت نہیں، بلکہ ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے جو ملک کے مختلف شعبوں کو متوازن انداز میں مضبوط کرے۔ زراعت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور ترقی یافتہ دنیا کے متوازی لانے کے لیے جنرل عاصم منیر کا ویڑن آئینے کی طرح واضح اور اقتصادی بصیرت سے بھرپور ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود، یہاں کے چھوٹے کاشتکاروں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ پانی کی کمی، موسمی تبدیلیاں، کیڑے مکوڑوں کا حملہ اور قدیم کاشتکاری کے طریقے ان مشکلات میں شامل ہیں، جن کے باعث کسانوں کو بہتر پیداوار حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان مسائل کے حل اور زراعت کے شعبے میں ترقی کے لیے حکومتِ پاکستان اور پاک فوج نے "گرین پاکستان انیشیٹو" کا آغاز کیا ہے، جسے سبز انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔
گرین پاکستان انیشیٹو کا مقصد پاکستان کی زراعت میں جدیدیت لانا اور زمین کے غیر کاشت شدہ رقبے کو قابلِ کاشت بنانا ہے۔ اس پروگرام کا ہدف نہ صرف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہے بلکہ یہ کسانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے اور ان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے۔ اس منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی، معیاری بیج، بہتر آبپاشی کے نظام اور جدید مشینری کے استعمال سے پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کی کامیاب کوشش جاری ہے۔
پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑہے، جن میں سے 24.1 ملین ایکٹر زمین زیرِ کاشت ہے۔ اس کے علاوہ، 9.1 ملین ایکڑ زمین مزید زرعی ترقی کے لیے دستیاب ہے۔ گرین پاکستان انیشئیٹو کے تحت، 4.8 ملین ایکڑ زمین کو زرعی مقاصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ زمین مختلف صوبوں میں تقسیم کی گئی ہے جس کے مطابق بلوچستان 1 ملین ایکڑ
خیبر پختونخواہ 1.2 ملین ایکڑ، پنجاب 1.3 ملین ایکڑ اور سندھ 1.36 ملین ایکڑ پرمشتمل ہے۔
اس منصوبے کا آغاز حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔ اس کے تحت، پہلے پنجاب میں اور پھر ملک بھر میں جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا تاکہ بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنایا جا سکے۔ اس کے ذریعے کارپوریٹ فارمنگ، معیاری بیج، جدید آبپاشی کے نظام اور جدید مشینری کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ کسانوں کو بہتر سہولتیں اور معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔
گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت چولستان، بہاولپور میں تقریباً 50 ہزار ایکڑ زمین کو قابلِ کاشت بنانے کا عمل جاری ہے۔ اس سے 30 سے 40 بلین ڈالر کا منافع حاصل ہونے کی توقع ہے۔ اس منصوبے سے مقامی افراد کے لیے بے شمار روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، جبکہ پانی کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور زرعی انفراسٹرکچر، سڑکوں، ورکشاپس اور آبی کھالوں کا قیام بھی عمل میں آئے گا۔
گرین پاکستان انیشیٹو نہ صرف پاکستان کی زراعت کو خودکفیل بنائے گا بلکہ اس سے ملک کی معیشت میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ سیڈ انڈسٹری، پیسٹیسائیڈ انڈسٹری اور کھاد کی انڈسٹری میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ پاکستانی کسانوں کو جدید تجربات اور بہتر بیج فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں، بڑی فصلوں جیسے گندم، کپاس اور تیل دار اجناس کی برآمدات میں اضافہ ہوگا، جو پاکستان کے لیے ایک نیا اقتصادی راستہ کھولے گا۔
گرین پاکستان انیشیٹو ایک طویل المدتی منصوبہ ہے جو پاکستان میں زراعت کو جدید بنانے اور معیشت میں استحکام لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت اور پاک فوج کی کاوشوں سے یہ منصوبہ ایک سبز انقلاب کی شکل میں سامنے آ رہا ہے، جو نہ صرف کسانوں کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ ملک کی معیشت اور عوام کی معاشی حالت میں بھی بہتری لائے گا۔
یہ منصوبہ پاکستان کی زراعت میں انقلاب لانے کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف کسانوں کی خوشحالی ہوگی بلکہ پاکستان عالمی سطح پر زرعی میدان میں اپنے قدم جما سکے گا۔