ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مقامی حکومت یا لوکل باڈیز گورنمنٹ کو وفاقی اور صوبائی حکومت کے بعد گورننس کا تیسرا ستون سمجھا جاتا ہے جو مقامی سطح پر گلی محلے اور دیہی علاقوں کی روز مرہ بہتری کے لیے کام کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے جس میں سڑکوں کی تعمیر نکاسیٔ آب صاف پانی کی فراہمی اور حفظان صحت جیسے معاملات شامل ہوتے ہیں قدرتی آفات مثلاً بارشوں اور سیلاب میں بھی عوام سب سے پہلے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔
لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہر سیاسی حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے اور جمہوری اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر بلدیاتی فنڈز کو اپنے ایم پی اے اور ایم این اے کے ذریعے گرانٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیاں ذمے دار ہیں جو اپنے اپنے دور میں بلدیاتی حکومت کو معطل کرکے سسٹم اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہیں تا کہ اربوں روپے کے فنڈز کی بندر بانٹ کی جا سکے۔
آج کل ہماری پارلیمنٹ میں دستور پاکستان میں ہول سیل کے حساب سے ترمیمات کا سلسلہ جاری ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر آئین میں جہاں یہ لکھا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں 90 دن میں انتخابات کے قانون میں یہ شق بھی ڈال دی جائے کہ بلدیاتی حکومت کے خاتمے کے بعد 90 دن کے اندر نئے لوکل باڈیز انتخابات کا قانون پاس ہو جائے۔ اس سے ہمارے گلی کوچوں میں صفائی اور شہری مسائل سے نجات ممکن ہے لیکن تمام سیاسی پارٹیاں ایسی کسی بھی ترمیم کی مخالف ہیں کیونکہ اس سے ان کے مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔
اس سارے پس منظر کی عکاسی کے بعدآپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یونین کونسل کے معطل ہونے کی وجہ سے ہر جگہ پر عوام کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے لیکن پنجاب میں اب بھی حیلے بہانوں سے بغیر لوکل باڈیز کام چلانے کا سلسلہ جو گزشتہ حکومت میں جاری تھا اب بھی جاری و ساری ہے۔
اس مشکل صورتحال میں بھی لاہور کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پنجاب سوسائٹیز ایکٹ کے تحت اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے والی مقامی سوسائٹیاں یونین کونسل کی کمی کو پورا کرنے میں مگن ہے یہ لوگ بے لوث کمیونٹی سروس کر رہے ہیں جس میں انہیں نہ صلے کی تمنا ہے نہ ستائش کی پروا۔ ان میں سے ایک نام مرغزار ہاؤسنگ سوسائٹی کا ہے جسے ہم بطور ایک ماڈل کے پیش کر سکتے ہیں۔
اس سوسائٹی کی حدود میں ڈیڑھ سے 2ہزار گھرانے آباد ہیں اور اس کی پرانی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ سیاست اور عدالتی و قانونی جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے لیکن 2017ء سے ایک اوورسیز پاکستانی چوہدری محمد شہزاد چیمہ کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد یہاں کا ترقیاتی لینڈ سکیپ بڑی تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوا۔ وہ یکے بعد دیگرے دو دفعہ 2,2 سال کے لیے بلامقابلہ منتخب ہوئے سوسائٹیز بائی لاز میں کوئی شخص تیسری بار امیدوار نہیں بن سکتا لیکن ان کے ؔٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے انہیں بطور اسپیشل کیس ان کے لیے بائی لاز میں ترمیم کرکے انہیں موقع دیا گیا کہ وہ علاقہ مکینوں کی بہتری کے لیے اپنے ترقیاتی ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔
آپ اس علاقے میں جا کر دیکھ لیں کہ کس طرح شب و روز کی محنت سے وہاں پر تجاوزات کے خاتمے گلیوں میں ٹف ٹائٹل، ٹیوب ویل، واٹر فلٹریشن پلانٹ پارک، سٹریٹ لائٹس کا نظام ایک مثالی انداز میں کام کر رہا ہے حال ہی میں فنڈز کی قلت کے باوجود ایک وسیع ڈسپنسری قائم کی گئی جس میں آپ 100 روپے کی پرچی پر ماہر ڈاکٹر کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں سوسائٹی کے مین روڈز پر درختوں کی قطاریں کسی مین بولیوارڈ کا منظر پیش کرتی ہیں سوسائٹی کی ڈیڑھ کلو میٹر اپروچ روڈ جو 80 فٹ روڈ کے نام سے مشہور ہے اسے مرحلہ وار ڈبل روڈ میں تبدیل کیا گیا جس کا ایک حصہ اب بھی نامکمل ہے مگر اس پر کام کا آغاز کر دیا گیا یہاں طاقتور لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے انکروچمنٹ کی بھرمار تھی جسے تمام ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر واگزار کرایا گیا ہے۔
صدر مرغزار سوسائٹی چوہدری شہزاد چیمہ نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر آپ خدمت خلق کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو قدم قدم پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر آپ اس دباؤ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو کوئی بھی منزل کٹھن نہیں رہتی۔ وہ صبح 8 بجے سے 4 بجے تک سوسائٹی دفتر میں ہوتے ہیں لیکن سوسائٹی میں وہ 24 گھنٹے کی بنیاد پر دستیاب ہیں کیونکہ دفتری اوقات کے بعد وہ اپنے ڈیرے پر بیٹھ کر رہائشیوں کا انتظار کرتے ہیں کہ کسی کو کوئی ذاتی یا اجتماعی مسئلہ ہو تو اس کی مدد کی جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی و سماجی قدو قامت کی وجہ سے ثالثی مصالحت بھی کرتے ہیں اور مقامی ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے بہت سے معاملات سوسائٹی کے اندر پولیس کی مداخلت کے بغیر ہی حل ہو رہے ہیں۔
یہ ایک دلچسپ case study ہے جس کا مقصد یہ اجاگر کرنا ہے کہ مقامی قیادت کسی بھی علاقے کی ترقی کے لیے کتنی ناگزیر ہے۔ بلدیاتی نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں سے سیاسی ورکز کی نرسریاں تیار ہوتی ہیں جو آگے چل کر صوبائی اور قومی قیادت سنبھالتی ہیں اگر آپ مقامی حکومت پر اسی طرح پابندی رکھیں گے تو نئی نسل مقامی قیادت کے شعور سے بہرہ مند نہیں ہوگی۔ شہزاد چیمہ نے اپنے انتھک طرز عمل سے یہاں کی کہنہ مشق قیادت کو قصے کہانیاں بنا دیا اور ان کی بے پناہ ترقیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے تمام قومی سیاسی پارٹیاں انہیں اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ غیرسیاسی رہ کر کمیونٹی سروس پر یقین رکھتے ہیں ان کی ذاتی ساکھ اور ان کا ریکارڈ ان کی سب سے بڑی سفارش ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی