انٹرا پارٹی الیکشن، چند بنیادی باتیں؟
انٹرا پارٹی الیکشن کیوں ضروری ہیں اور اس ضمن میں الیکشن ایکٹ کی دفعات کیا کہتی ہیں اور ان دفعات کا اطلاق کیا ساری جماعتوں پر کیا جائے گا؟
انٹرا پارٹی الیکشن متعارف کرانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی کی جاگیر نہ بن جائیں اور یہ ایک ادارے کی صورت بروئے کار آئیں۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں ایک ادارے کی صورت کام کر رہی ہیں یا یہ سب ہی مختلف آقاؤں کی جاگیر کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ جو جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور جنہیں انتخابی نشان بھی الاٹ کیے جا چکے ہیں کیا الیکشن ایکٹ کی کسوٹی پر یہ تمام سیاسی جماعتیں پوری اترتی ہیں؟ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 208 میں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی بات کی گئی ہے۔ اس دفعہ میں تین اہم چیزیں لکھی ہیں:
تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداران کا تعین انتخابات کے ذریعے ہوگا۔
ہر سیاسی جماعت کے تمام اراکین کو، اس جماعت کے آئین کے مطابق، سیاسی جماعت کے عہدوں کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
ہر جماعت کے تمام اراکین، صوبائی اور وفاقی سطح پر، مل کر جنرل کونسل کے اراکین کا انتخاب کریں گے۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے تحت ہر سیاسی جماعت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے داخلی انتخابی عمل کی تفصیل سات روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔
جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی جماعت ہو جو موروثی جاگیر نہ بن چکی ہو، جہاں قیادت وراثت کی طرح میراث میں تقسیم نہ ہوتی ہو اور جہاں باقاعدہ انتخاابات ہوتے ہوں لیکن اس کے باوجود یہ جماعتیں مزے میں ہیں اور الیکشن ایکٹ نے کبھی ان کی دہلیز پر دستک نہیں دی۔
قانون اقوال زریں کی شکل میں موجود ہے لیکن یہ جاننے کے لیے اب کسی لمبی چوڑی مشق کی ضرورت نہیں کہ اس قانون پر کس حد تک عمل ہورہا ہے۔ سیاسی جماعتیں عملا خاندانی جاگیر بن چکی ہیں اور قانونی رسم پوری کرنے کے لیے ایک کارروائی ڈال لی جاتی ہے اور اس کارروائی کی تفصیل دفعہ 209 کے تحت الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی جاتی ہے۔
الیکشن کمیشن سب کچھ جانتے بوجھتے اس رپورٹ کا یقین کرکے خود کو دھوکہ دے لیتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے، سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے اور جماعتوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔
یعنی عملی صورت حال یہ ہے کہ پارٹیوں میں الیکشن نہ کرانا جرم نہیں ہے۔ جرم یہ ہے کہ اس مشکوک الیکشن کے بارے میں سیاسی جماعتیں اہتمام سے جھوٹ نہ بول سکیں اور سچ جھوٹ سے قطع نظر ان کی فائل مکمل نہ ہو۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے مطابق جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوگا تو سیاسی جماعت دو کام ضرور کرے گی۔ اس کا نام اپنے رجسٹر برائے اراکین میں لکھے گی اور اس شخص کو اپنا پارٹی کارڈ جاری کرے گی۔ چنانچہ اسی دفعہ میں اراکین کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک سیاسی جماعت کے رکن بن سکتے ہیں۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا رجسٹر برائے اراکین کہاں ہے اور اسے ویب سائٹ پر شئیر کیوں نہیں کیا جاتا؟
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کی ذیلی دفعہ 5 میں تمام ممبران کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ انہیں جماعت کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔ یہ ریکارڈ کہاں ہے؟ نیز یہ کہ جن کا یہ ریکارڈ موجود ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ حقیقی ریکارڈ ہے یا الیکشن ایکٹ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جھوٹ پر مبنی فائل تیار کر لی جاتی ہے اور الیکشن ایکٹ سب کچھ جانتے بوجھتے آنکھ بند کر لیتا ہے؟
پاکستان میں سیاست اکثریت کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جنہیں ان کی سیاسی جماعت نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے مطابق اختیارات دیے ہوئے ہیں؟ اختیارات کو تو چھوڑیے، کتنوں کے پاس ان کی سیاسی جماعت کے جاری کردہ کارڈز موجود ہیں؟ عام کارکنان کو بھی چھوڑیے، مختلف جماعتوں کے جو باقاعدہ ٹکٹ ہولڈر ہیں اور الیکشن لڑ رہے ہیں کیا ان کی سیاسی جماعتوں نے انہیں کارڈ جاری کر رکھے ہیں؟
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 204 میں سیاسی جماعت کے ممبران کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ پارٹی کے دستور کے مطابق پارٹی کو فیس ادا کریں اور ساتھ اگر وہ چاہیں تو اپنی جماعت کو چندہ بھی دے سکتے ہیں۔ اس دفعہ پر کتنا عمل ہو رہا ہے، یہ بھی ایک معمہ ہی ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر سیاسی وابستگی کے نام پر جو طویل، تلخ اور لا یعنی مباحث ہو رہے ہوتے ہیں، ان کے شرکاء اپنی اپنی جماعت کو کتنا چندہ دیتے ہیں؟ سیاسی جماعتیں بھی اس کلچر کو پروان چڑھانے میں دل چسپی نہیں لیتیں۔ ان کے لیے ان کے اپنے اپنے اے ٹی ایم کافی ہیں۔
کیا (ایک بار پھر جماعت اسلامی کے استثناء کے ساتھ) کوئی جماعت ایسی ہے جو کہہ سکے کہ اس کے کارکنان اسے باقاعدہ چندہ دیتے ہیں اور اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس جماعت کی سرگرمیوں کے اخراجات اسی چندے سے پورے ہوتے ہیں؟
یہ اہتمام اصل میں اس لیے کیا گیا کہ سیاسی جماعتیں مالی معاملات میں خود کفیل ہو جائیں اور انہیں کسی اے ٹی ایم کی ضرورت نہ رہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ قریب قریب ہر جماعت سرمائے اور سرمایہ دار کی دست نگر بن کر رہ گئی ہے۔ دولت کی بنیاد پر پارلیمان کے راستوں پر مسافت کی اجازت ملتی ہے اور دولت ہی کی بنیاد پر پارٹی کے اندر بھی آدمی معتبر ہوتا ہے۔ عام آدمی کو اس سیاسی عمل سے دور کر دیا گیا ہے اور سیاست چند دولت مند گھرانوں کے باہمی دلچسپی کے امور کی صورت اختیار کر گئی ہے۔
یہ خاندان الیکٹیبلز کہلاتے ہیں۔ یہ کبھی ایک جماعت میں ہوتے ہیں اوور کبھی دوسری جماعت میں۔ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، اقتدار ان ہی چند گھرانوں کے پاس رہتا ہے۔ میانہ روی کے طور پر البتہ دولت ا ور طاقت کی بنیاد پر قائم اس نا مبارک خاندانی بندو بست کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس قانون کی پامالی پر کیوں خاموش رہتا ہے اور اس نے آج تک کسی جماعت سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ اس کے جلسوں اور جلوسوں اور لانگ مارچوں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوئے؟ اورا س کے چندے کا ریکارڈ کدھر ہے؟ نیز یہ کہ کیا یہ اخراجات اس (مبینہ) چندے سے مطابقت رکھتے ہیں؟
الیکشن ایکٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن کوئی الگ سے دی گئی چیز نہیں ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کو ذاتی جاگیر کی بجائے ایک ادارہ بنانے کے لیے بنائے گئے قوانین کا ایک جزو ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے بنائے گئے دیگر قوانین کی مسلسل پامالی پر الیکشن کمیشن کب ایکشن لے گا۔ اصلاح احوال کے لیے قانون کی نیا میں جزیرے نہیں بن سکتے۔