اداکارہ نرگس، عورت زندگی کا زندان
خبر ہے کہ خوبرو اداکارہ نرگس کو اس کے شوہر ماجد بشیرایس ایچ اونے مار مار کر نڈھال کر دیا۔ نرگس کے بارے میں اس پر جو تشدد ہوا، کوئی نئی بات یا نئی خبر نہیں۔ ا س کے توشوہر نے اس کو مارا پیٹا اور گھر بدر کر دیا اور ہمت کی ماری نرگس نے پھربھی ہمت نہیں ہاری۔ زندگی نبھانے کے لئے اس نے تھانیدار کو دل دیا اور گزشتہ روز اسی تھانیدار نے اس کا دل کرچی کرچی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا وجود بھی توڑ ڈالا۔
وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
اداکارہ نرگس پر اس کے شوہر ماجد بشیر نے بے پناہ ظلم کرتے ہوئے ایک حسین اور خوبصورت چہرے کو جو بطور اداکارہ بطور ڈانسر بہت سے لوگوں کے دلوں پر حکمراتی کرتی رہی ہے اس کی ایک آواز پر بڑے سے بڑوں کو اس کے دروازے پر دیکھا گیا۔ جہاں دولت کی دیوی ہمیشہ اس پر مہربانی رہی وہاں اسی نرگس کے روپ میں وہ ایک بدقسمت نرگس بھی دیکھی گئی۔ پہلے اس کو اس کے شوہر افضل پھر زبیر پھر اس کے دوست عابد باکسر اور اب ماجد بشیر کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئی۔ اب شادیاں کرنا جہاں مرد کا حق ہے تو وہاں عورت بھی اس سے پیچھے نہیں ہے۔
تین شادیاں اور ایک دوست کے ساتھ اس کی گزری زندگی بہت تلخ رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے جہاں اس کے مردوں اور دوست نے مارا وہاں وہ خود بھی ذمہ دار ٹھہرائی گئی۔ بہت کچھ ہونے کے باوجود نرگس ایک ضدی، اناپرست، اپنی بات منوانے کی سوچ اور دولت اور جائیداد بنانے کی فکرمیں رہتی ہے۔ وہ جب کسی بات کو کہہ دے کہ یہ ہاں ہے تو پھر کوئی بھی طاقت اس کی ہاں کو روک نہیں سکتی۔
گزشتہ روزشوشل میڈیا پر سب نے خوبصورت چہرے کو پرتشدد زدہ چہرے میں دیکھا اور جس نے بھی دیکھا وہ ایک بار تو دہل گیا۔ اتنا تشدد، اتنی وحشیانہ انسانی حرکت گو ایسے واقعات اب معاشرے میں روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ تو ایک نرگس جو کہ مشہور زمانہ نرگس ہے اس جیسی اداکارہ کو خارش بھی ہو جائے تو خبر بن جاتی ہے ذرا ان گھریلو نرگسوں پر بھی نظر ڈالیں جو روزانہ لالچی مردوں کے ہاتھوں پٹتی ہیں، لٹتی ہیں، اورموت کے حوالے کی جاتی ہیں جن کی نہ کوئی خبر دینے والا نہ خبر لینے والا، زیادہ دولت، جائیداد، زیور کا رکھنا کبھی بھی عورت کے گلے پڑ جاتا ہے۔
نرگس نے جو ایف آئی آر کٹوائی اس میں وجہ تشدد ماجد بشیر، اس کی جائیداد اپنے نام کرانا چاہتا تھا جبکہ پس پردہ اور بھی کہانی ہے کہ ماجد بشیر ایک مشہور زمانہ ڈانسر سے شادی کرنا چاہتا ہے جبکہ نرگس اس کو کسی بھی طور پر سوکن کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ بات بڑھتے بڑھتے ایک وحشیانہ تشدد پر آ کر ٹھہری، ایک طرف ڈیوٹی حاضر ایس ایچ او دوسری طرف مشہور زمانہ اداکارہ وہ بھی ایسی کہ ہر کوئی چاہے کہ وہ اس کی ہو جائے۔ اداکارہ جو ٹھہری جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی پراپرٹی ہوتی ہیں جہاں بڑے بڑوں کے دل رکھتی ہیں وہاں ہمارے جیسے عام کلاس کے لوگوں کے منہ سے آہیں ہی نکلواتی ہیں۔
ماجد بشیر سے پہلے افضل خان، زبیر خان جو اس کے باقاعدہ شوہر رہ چکے ہیں ان کے تشدد سے بچنے کے لئے اس نے عابد باکسر کی پناہ لی وہ پناہ بھی اس کو مہنگی پڑی جو اس کو عابد باکسر کے ہاتھوں جب اس کو پھر تشدد کا سامنا کرنا پڑاتوپھر ایک معاہدے کے تحت وہ کینیڈا چلی گئی وہاں سے کئی سالوں بعد واپس آئی اور تھیٹر پرکام شروع کردیا۔
اسی اثناء میں وہ ایک اور تھانیدار ماجد بشیر کو دل دے بیٹھی اور آج اسی تھانیدار نے نرگس کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، دیکھا جائے تو کوئی بھی معاشرہ عورت پر تشدد کے حق میں نہیں۔ ہمارے اسلام میں تو عورت پر ہاتھ اٹھانا منع ہے تاآنکہ عورت اپنی عزت کی دہلیز خود ہی پار کر جائے۔ ہمارے معاشرے میں نرگس جیسی امیر و کبیر عورت بھی پٹتی تو غریب عورت بھی کہیں نہ کہیں مظلومیت کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ آئے روز اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں عورت پر تشددکے اس قدر واقعات رونما ہونے لگے ہیں اور چینلز کے کرائم پروگرامز میں تو عورت ہی مجرم ٹھہرائی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دل میں محبت نہیں تو انسان صرف ایک اجڑا ہوا باغ ہے۔
نرگس نے تو کئی باغ بسائے، کئی باغ اجاڑے، کئی بار اپنے اوپر تشدد کرایا اور پھر ہے کہ جس مرد سے وہ پناہ چاہتی ہے وہی مرد اس کو مار مار کر ایک بدترین مثال بنا دیتا ہے۔ کئی معاشقے، کئی شادیاں، کئی دوستیاں، کئی داستانیں اس کی زندگی کی کتاب کا بڑا حصہ ہیں مگر سوال یہ ہے کہ بحیثیت عورت اس کے شوہر نے اس پر جتنا ظلم ڈھایا مار مار کر نڈھال سے بدحال کر دیا، کیا کوئی قانون ہے جو ایک نرگس نہیں بلکہ صرف ایک عورت پر ظلم کی انتہا کر دے، اس کے بدلے میں ایک ایف آئی آر کاٹی جائے، مقدمہ چلے ضمانت ہو۔ بعد میں صلح ہو جائے۔ ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے کہیں نہ کہیں تو اس قدر ظلم ڈھانے والے کے لئے سزا تو لکھی ہوگی کہ وہ بھی نہیں ہے۔
آج یہ سب سے بڑی خبر جو کل قصہ پارینہ بن جائے گی نرگس پرہونے والے تشدد نے مجھے ساحر لدھیانوی کی مشہور زمانہ نظم "چکلے" یاد کرادی جس میں اس نے عورت کے بارے میں جو نقشہ کھینچا وہ اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ساحر لکھتا ہے، یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے، یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے، کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے، ثنا خوان تقدس مشرق کہاں ہیں، یہ پیچ گلیاں یہ بدنام بازار، یہ گمنام شا میں پرسکوں کی جھنکار، یہ عورت کے سودے پر سودوں پہ تکرار، یہ صدیوں سے بے خواب سی گلیاں، یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں، یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں، یہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن، تھکی ہاری سانسوں پہ طبلے کی دھن دھن، یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن، یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے، یہ بے باک نظریں، یہ گستاخ فقرے، یہ ڈھلے برف اور یہ پیار چہرے، مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی، یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی، پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی، ذرا ملک کے امیروں کو بلائو، یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھائو۔
اور آخری بات۔ عورت کے مظلومیت کے رونے رونے والے، عورت پر تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والے عورت پر ظلمت کی داستان ڈھانے والوں کے خلاف آواز تو اٹھاتے ہیں، چینلز پر داغدار تشدد زدہ چہرے بار بار دکھا کر ریٹنگ میں اضافہ تو کیا جاتا ہے مگر اس قانون پر بھی تو کوئی بات کرے، آواز اٹھائے اس شہر میں مارتے، پیٹتے، اسلحہ لہراتے عورت پر حملہ آور ہوتے مرد کے خلاف بنائے گئے قانون پر کب عملدرآمد ہوگا۔